• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھریلوں تشدد۔۔۔ خواتین ذہنی اور جسمانی مسائل سے دوچار

گھریلوں تشدد۔۔۔ خواتین ذہنی اور جسمانی مسائل سے دوچار

بحیثیت اسلامی ملک ہمارے یہاں خواتین کے حقوق کی پاسداری کی جانی چاہئے لیکن درحقیقت ہمارے ملک میں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ہم عورت کو معاشرے کا حسن، وقار اور استحکام کی ضمانت قرار دیتے ہیں اور سب سے زیادہ ظلم بھی اسی پر کرتے ہیں۔ گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنا ، جنسی طور پر ہراساں کرنا،وراثت میں محرومی، کم عمری میں شادی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے اقدامات عام ہیں۔جاگیر دارانہ ذہنیت، قبائلی کلچر اور انتہا پسندی کے علاوہ دقیانوسی رواج اور رسومات ابھی تک موجود ہیں۔ خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بڑے متعصب اور امتیازی رویوں کا حامل ہے۔

تشددکی اقسام

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں80فی صد خواتین اور دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک خاتون زندگی میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا، جنسی طور پر ہراساں کرنا، بدکلامی کرنا، اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے، تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

تشدد کےصحت پر اثرات

خواتین پر تشدد ان کی جسمانی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور وہ بلڈ پریشر اور امراض قلب جیسے امراض کا آسان ہدف بن جاتی ہیں۔دوسری جانب ذہنی و جسمانی تشدد خواتین کی شخصیت اور صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور انہیں ہمہ وقت خوف، احساس کمتری اور کم اعتمادی کا شکار بنا دیتا ہے جبکہ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی ختم کردیتا ہے۔گھریلو تشدد سے ان کی سماعت متاثر ہوسکتی ہے، اسقاطِ حمل، جوڑوں اور ہڈیوں کے امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر انہیں شدید ڈپریشن کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے جس کے سبب کسی بھی خاتون کی اپنے بچوں کی نگہداشت کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جو کہ آئندہ نسلوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

کیاتشدد ایک معمولی مسئلہ ہے؟

تشدد کا شکار ہونے والی خواتین پر ہونے والے مندرجہ بالا ہولناک اثرات دیکھتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ایک معمولی یا عام مسئلہ ہے۔ مگر بدقسمتی سےاسے ایک عام مسئلہ سمجھا جاتا

ہے اوریہ سوچ تشدد سے زیادہ خطرناک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک میں گھریلو تشدد ایک نہایت عام سی بات اور ہر دوسرے گھر کا مسئلہ سمجھی جاتی ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اس تشدد کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔مزید یہ کہ انہیں احساس بھی نہیں ہو تا کہ انہیں لاحق کئی بیماریوں، نفسیاتی پیچیدگیوں اور شخصیت میں موجود خامیوں کا ذمہ دار یہی تشدد ہے جو عموماً ان کے شوہر، باپ یا بھائی کی جانب سے ان پر کیا جاتا ہے۔

تشدد کی رپورٹنگ

گزشتہ چند سال کےدوران پاکستان میں خواتین پر تشددکے واقعات رپورٹ ہونے کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے مگر ابھی بھی سینکڑوں کی تعداد میں واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ایسے بیشتر واقعات دیکھنے میں آتے ہیں جہاں شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے مگر وہ اپنے گھروالوں یا دوستوں کو یہ بات بتا نہیں پاتی۔ ایسی خواتین کی ساری زندگی تشدد کا سامناکرتے گزر جاتی ہے یا پھر بچے ہونے کےکئی سال بعد شوہر انھیں چھوڑ دیتا ہے۔خواتین کو اکثر سسرال والوں کی جانب سے بھی طعنے اور تشدد کا سامنارہتا ہے۔

تشدد سے کیسے بچا جائے؟

خواتین کو چاہیے کہ گھریلو تشدد سے بچنے کےلیے چند باتوں پر عمل کریں

۱۔تشدد ہونے سے پہلے اسے روکیں

۲۔ایک بار تشدد ہوجائے تو اسے دوبارہ ہونے سے روکا جائے

۳۔اپنے گھروالوں ، پڑوس یا کسی دوست سے گھریلو تشدد کا ذکر کریں

۴۔پولیس میں رپورٹ کریں

۵۔کسی فلاحی ادارے سے رابطہ کریں

۶۔ ضرورت پڑنے پر عدالت سے رجوع کریں

۷۔اپنے حقوق کے بارے میں جانیں تاکہ وقت پڑنے پرآپ ان سے باخبر ہوں

خواتین کے لیے قانون سازی

خواتین کے تحفظ اور حقوق کے استحکام کیلئے وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون سازی میں مزید بہتری لائی جانی چاہیے۔ حالیہ برسوں میں متعدد اہم بل منظور کیے گئے جن میں وراثتی جائیداد کی طلبی کے سمن مردوں کے علاوہ خواتین کو بھی وصول کرانے، نکاح نامہ کے تمام کالم پُر کرنے، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسرا نکاح کرنے، 16 سال سے کم عمر کی شادی کی ممانعت ، بیوی بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے فیملی کورٹ کی کارروائی کو آسان بنانا، تیزاب سے متعلق جرائم اور گھریلو تشدد سے تحفظ کے بل شامل ہیں۔ خواتین کو ہراساں کئے جانے کی روک تھام کےلیے ’’وومن پروٹیکشن بل ‘‘پاس ہونا پُرمسرت ہے۔

قانون سازی توہورہی ہے اورانسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آواز اٹھارہی ہیں لیکن اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اورخواتین کے حقوق سے جڑے تمام افراد یہ طے کریں کہ خواتین کے حقوق سلب نہ کیے جائیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔ خواتین کو برابری کے حقوق دئیے جائیں اور صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے ان کے مسائل اور مصائب کو ختم کیاجائے۔اس کے علاوہ خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے، مردوں کو یہ بات باور کرائی جائے کہ ہمارے معاشرے میں موجود خواتین ہمارے برابرکی انسان ہیں اور اتنے ہی حقوق رکھتی ہیں جتنے ہم رکھتے ہیں۔آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اقوام متحدہ کی جانب سے 26 جون کو تشدد کے شکار افراد سے ہمدردی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

تازہ ترین