• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کوحقیقی معنوں میں جمہوری ملک بنانے کا بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی کاخواب ابھی تک ایک خواب ہی ہے، کیونکہ ہم تاحال ایسے رہنما کی تلاش میں ہیں جو قوم کی ایک لیڈرکی طرح رہنمائی کرسکے۔ پاکستان لگاتارتیسرےانتخابات کی جانب جارہاہے لیکن تاحال کسی بھی وزیراعظم نےاپنی مدت پوری نہیں کی۔ فرق یہ ہے کہ جو حکومتیں اور پارٹیاں اقتدارمیں ہوتی ہیں انھوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ لہذاہم اب ایک نیاوزیراعظم منتخب کریں گے۔ ہمیں تاحال ایسا لیڈرنہیں ملا جو قومی اور عالمی قدوقامت والاہو۔ قائداعظم محمدعلی جناح ایک جمہوریت پسند انسان تھے، قانون کی حکمرانی، آزادیِ اظہارِ رائے، پریس فریڈم، آزاد عدلیہ اور استحصال سے آزاد معاشرےاور خواتین اوراقلیت کےحقوق پریقین رکھتےتھے۔ اس سب کے باعث وہ حقیقی معنوں میں ایک رہنماتھےتھے کیونکہ وہ جو کرتے تھے اس پر یقین رکھتےتھے۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ آزادی کے ایک سال بعد ہی انتقال کرگئے اور ان کی موت کے ساتھ ہی ہم نے ان کے خواب بھی دفنادیئے۔ اب تعمیرکےمرحلے میں ہیں اور ہمیں یہ مشکل لگ رہاہے کیونکہ ہمارے پاس اچھے سیاستدان، رہنمااور جمہوری جماعتیں نہیں ہیں۔ کیا عدلیہ اور میڈیا مکمل طورپرآزاد ہیں اس کے بارے میں کسی کی بھی دو رائے ہوسکتی ہیں لیکن آمریت کی نسبت اب حالات یقیناً کافی اچھے ہیں۔ ایسا ہی جمہوریت کے بارے میں بھی کہاجاسکتاہے۔ بہتری کی رفتاریقیناً آہستہ ہے سوائے اس کے کہ اس طریقہ کار میں رہنماوں کی قابلیت اور دولت بے نقاب ہررہی ہے۔ جناح سے ضیاء تک اور ضیاءسے مشرف تک ہم قومی اور بین الااقوامی قدوقامت والے رہنما پیدا نہیں کرسکے۔ غالباً ذوالفقارعلی بھٹوہی ایسے رہنما تھے جن کے پاس رہنمائی کیلئےویژن اور قابلیت تھی۔اگرچہ تیز چلنےکیلئےوہ اپنےچار سالہ دورِحکومت کےدوران راستہ کھو چکےتھے لہذاانھوں نے کئی سیاسی غلطیاں کیں۔ اسی دوران یہ بھی سچ ہے کہ وہ واحد رہنماتھےجو بنیادی سطح پر مقبول تھے کیونکہ جس طرح انھوں نے قید، قتل کےمقدمے اور سزا کاسامنا کیاتھا اس وجہ سے وہ مقبول تھے۔ ماضی میں جناح کےدورکےدوران جمہوری پاکستان کیلئے ہماراسفراور رہنما کی تلاش کواس وقت پہلا جھٹکا لگا جب وزیراعظم لیاقت علی خان قتل ہوئے اور ان کا قتل تاحال ایک راز ہے۔ جمہوری پاکستان کی یہ ایک بری اور پُرتشدد ابتداتھی، کیونکہ اس کے باعث پُرتشدد سیاست کی بنیاد پڑی کیونکہ 50سالک بعد ایک اور وزیراعظم بے نظیربھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردی گئیں۔ پہلے وزیر اعظم کی طرح ان کاقتل بھی ایک معمہ ہی ہے۔ جناح کے بعد ان کی بہن محترجہ فاطمہ جناح واحد رہنماتھیں جو مشرقی اور مغربی پاکستان میں یکساں مقبول تھیں اورآمر ایوب خان کےخلاف صدارتی انتخابات ہارنے کے باوجود وہ ڈھاکہ اور کراچی سے جیت گئیں۔ بے نظیربھٹوکی طرح وہ بھی آمر یت کی پیداوار نہیں تھیں، بلکہ انھوں نے آمریت کے خلاف تحریک کی رہنمائی کی۔ ایک نے شکست کے بعد تنہائی اختیار کرلی تھی اور سیاست میں کوئی سرگرم کردار ادانہیں کیا جبکہ دوسری کوالیکشن میں فتح سے کئی دن قبل ہی کردیاگیا۔ پاکستا ن نے بھٹوسےقبل بھی کئی اہم رہنما پیدا کیے تھے جیساکہ حسین شہید سہروردی یا مولوی فضلِ حق یہ اپنا اثر بھی دکھا سکتے تھے اگر پی ایم ایل نےجمہوریت کی بنیادرکھی ہوتی۔ دیگر کی طرح وہ بھی 1948 سے 1958 کےدوران ہونے والی سازشوں کاشکار ہوگئے۔ ہمیں نواب زادہ نصراللہ خان، خان عبدالغفارخان، مولانابھشانی، ممتاز دولتانہ، مولانہ مفتی محمود، مولان عبداللہ مودودی، جی ایم سید(سب آزادی سے قبل کے) جیسے رہنما بھی ملے لیکن سو ا ئے بھٹو جو سیاست میں 50کی دہائی میں شریک ہوئےجب وہ 30سال کے بھی نہیں تھے ، ان کے علاوہ کوئی بھی ایسا مقام حاصل نہ کرسکا جیساانھوں نے حاصل کیا۔ بدقسمتی سےان میں سے زیادہ تر رہنمائوں پر غداری کےالزامات لگے اور قید ، مقدمات اور سزا کاسامناکیا۔ اس کے باعث جمہوری منتقلی کا راستہ رُکااور اس نےقومی اور نظریاتی جماعتوں کوبھی تباہ کردیا۔

تازہ ترین