• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وادی اُڑک، ولی تنگی ڈیم اور ہنہ جھیل

رپورٹ:فرخ شہزاد، کوئٹہ

پاکستان اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک خُوب صُورت مُلک ہے، جو ہر طرح کے قدرتی مناظر سے مالا مال ہے۔ گرچہ رقبے کے اعتبار سے مُلک کے سب سے بڑے صوبے، بلوچستان میں سیّاحت کو زیادہ فروغ نہیں مل سکا، لیکن یہاں ایسے درجنوں تفریحی مقامات موجود ہیں، جو اپنی کشش اور دِل کَشی کے اعتبار سے پاکستان کے کسی مشہور تفریحی مقام سے کم نہیں۔ مُلک کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے بیش تر افراد بلوچستان کے تفریحی مقامات میں سے صرف زیارت سے واقف ہیں، حالاں کہ کوئٹہ، ہرنائی، خضدار، کچھی، گنداوا اور قلاّت میں بھی کئی دِیدہ زیب مقامات موجود ہیں۔ اگر کوئٹہ کے تفریحی مقامات کی بات کی جائے، تو وادیٔ اُڑک کے خُوب صُورت مقامات، ولی تنگی ڈیم اور ہنّہ جھیل کی سیر کے لیے سیّاح دُور دُور سے آتے ہیں۔ وادیٔ اُڑک کی ہنّہ جھیل قدرتی حُسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مشرق میں کوہِ زرغون ہے۔ نیز، یہیں سے جونیپر کے جنگلات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو زیارت تک پھیلا ہوا ہے۔ پھلوں کے باغات سے آراستہ اس وادی کے بیچوں بیچ زندگی بخش، ہنّہ ندی رواں دواں ہے، جس کا پانی ہنّہ جھیل میں جمع ہوتا ہے اور جب کوہِ زرغون کی اوٹ سے طلوع ہونے والا سورج ہنّہ جھیل کے گرد واقع پہاڑیوں میں غروب ہونے لگتا ہے، تو اس کی کرنیں نیلگوں پانی میں سنہرا رنگ بَھر دیتی ہیں۔ وادیٔ اُڑک میں ولی تنگی کے نام سے مشہور ایک چھوٹا سا ڈیم بھی واقع ہے۔ یہ کوئٹہ سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق میں سطحِ سمندر سے 8,350فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ولی تنگی ڈیم 1960ء میں پاک فوج نے کوئٹہ اور وادیٔ اُڑک کو پانی کی ترسیل کے لیے تعمیر کیا تھا۔ یہاں روزانہ ہزاروں سیّاح آتے ہیں اور اکثر مقامات پر مختلف کھانے تیار کرتےیا خوشی سے جھومتے گاتے، رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

گرچہ ہنّہ جھیل کی تاریخ کے حوالے سے کوئی مستند حوالہ دست یاب نہیں۔ تاہم، کہا جاتا ہے کہ پہاڑوں پر پگھلنے والی برف اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے چھائونی میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 20ویں صدی کے اوائل میں برطانوی حکومت نے ایک بند تعمیر کر کے اسے جھیل کی شکل دی۔ بند کی تعمیر 1901ء میں شروع ہوئی اور 1908ء میں اس کی تکمیل کے بعد اسے جھیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ بند کے ساتھ ہی موجودہ کلی حاجی عطا محمد کے مقام پر ایک ہیڈ ورکس بھی تعمیر کیا گیا، جسے ’’سرپل‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہاں سے تقریباً ایک کلو میٹر طویل نہر کے ذریعے ہنّہ ندی کا پانی جھیل تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہیڈ ورکس کی تعمیر کے آغاز پر برطانوی انجینئر نے مقامی مزدوروں سے ادائیگی کا جو معاہدہ کیا، اس کے تحت کام کے دوران نماز ادا کرنے والے مزدوروں کو نماز ادا نہ کرنے والے مزدوروں کے مقابلے میں 50پیسے کم دیہاڑی دی جانی تھی، لیکن ادائیگی کے وقت بے نمازی مزدوروں کی اُجرت سے 50پیسے کاٹ لیے گئے۔ ہنّہ جھیل کے نام کے حوالے سے بھی متضاد روایات ہیں۔ بعض دستاویزات کے مطابق، یہ جھیل برطانوی جنرل، جیک اینڈرسن کی بیگم کے نام سے منسوب ہے، جب کہ بعض مقامی باشندوں کے مطابق، وادیٔ ہنّہ میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کا نام ہنّہ جھیل پڑا اور اس وادی کا ذکر، احمد شاہ ابدالی کے زمانے کی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ برطانوی حکومت نے ہنّہ ندی سے پائپ لائن کے ذریعے چھائونی کو پانی مہیا کیا تھا اور اس پائپ لائن کا ذکر بلوچستان کے تاریخی گزیٹیر میں بھی موجود ہے۔ ماضی میں ہنّہ ندی کوئٹہ کے مضافات میں واقع، نواں کلی سے ملحقہ کلی کوٹوال اور کلی ترین شار میں موجود باغات کو سیراب کرتی تھی۔ ندی کے ارد گرد 20سے 25آٹے کی چکّیاں بھی موجود تھیں، جو کوئٹہ کے عوام کی آٹے کی ضروریات پوری کرتی تھیں اور زیادہ تر چکّیاں ہندوئوں کے زیرِ ملکیت تھیں۔

ہنّہ جھیل 818ایکڑ پر محیط اور 49فٹ گہری ہے اور اس میں کم و بیش 22کروڑ 20لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سیّاحوں کے لیے واٹر اسپورٹس کی سہولتیں اور جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کشتیاں بھی موجود ہیں۔ ہنّہ جھیل اور وادیٔ اُڑک کے قدرتی نظّاروں کو دیکھنے کے بعد عقلِ انسانی اپنے پروردگار کے جمالیاتی ذوق پر دنگ رہ جاتی ہے۔ جھیل کی چاروں جانب بلند و بالا پہاڑ واقع ہیں، جن کے درمیان یہ ایک بہت بڑے پیالے کی مانند دِکھائی دیتی ہے۔ موسمِ سرما میں ہونے والی بارشوں اور برف باری کی بہ دولت یہ سارا سال پانی سے بَھری رہتی ہے، جسے اطراف میں پھیلے کھیتوں اور باغات تک پہنچایا جاتا ہے۔ یوں اس جھیل کو سیّاحت کے علاوہ زراعت اور باغ بانی کے لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔ گرچہ ہنّہ جھیل، مشہور جھیل سیف الملوک سے ملتی جلتی ہے، لیکن اس کے گرد سبزے سے ڈھکے پہاڑ موجود نہیں۔ تاہم، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جھیل کنارے شجرکاری کی گئی ہے اور یہاں کافی تعداد میں کوئٹہ پائن، چنار اور ایش کے درختوں کے علاوہ پَھل دار درخت بھی لگائے گئے ہیں، جس کی بہ دولت جھیل کی دِل کَشی میں مزید اضافہ ہواہے۔

ہنّہ جھیل کے درمیان ایک ٹیلے نُما چھوٹا سا مصنوعی جزیرہ بھی بنایا گیا ہے اور اس کی چوٹی پر نگرانی کے لیے ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں جھیل کی خُوب صُورتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سڑک اور جھیل کے درمیان ایک جنگلا نصب کیا گیا ہے۔ اصل جھیل سڑک سے تقریباً 30فٹ نیچے واقع ہے اور سڑک اور جھیل کے درمیان موجود ڈھلوان سطح پر سیّاحوں کے لیے سیڑھیاں، راہ داریاں اور ایک پختہ سائبان بنایا گیا ہے۔ ہنّہ جھیل کو ایک قدرتی سیر گاہ اور سیّاحتی مرکز کے طور پر ترقّی دینے کے لیے پاک فوج کی نگرانی میں یہاں ایک باضابطہ ترقّیاتی ادارہ قائم کیا گیاہے۔ اس ادارے نے سیّاحوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ جھیل کی صفائی کا بھی خصوصی انتظام کیا اور اس سلسلے میں جدید مشینز کے ذریعے خطرناک جھاڑیوں اور دلدلی مٹی کا صفایا کیا گیا۔ یوں غرقابی کا خطرہ ختم ہو گیا اور جھیل، پیراکی کا شوق رکھنے والوں کی توجّہ کا مرکز بن گئی۔ 

جھیل میں کشتی رانی کا انتظام بھی کیا گیا ہے، لیکن نجی کشتیاں چلانے کی بہ جائے ترقّیاتی ادارے ہی کے زیرِ اہتمام کشتیاں اور موٹر بوٹس چلائی جاتی ہیں ، جو سیّاحوں کو نہ صرف جھیل بلکہ اُس کے وسط میں واقع جزیرے کی بھی سیر کرواتی ہیں۔ جھیل پر ہر موسم میں سیّاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ موسمِ گرما میں سیّاح یہاں نسبتاً سرد اور خوش گوار ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں، جب کہ موسمِ سرما میں برف باری کے نظارے کے لیے یہاں کا رُخ کرتے ہیں، کیوں کہ برف باری کے موسم میں اس جھیل کی دِل کشی مزید بڑھ جاتی ہے۔

بارشیں معمول سے کم ہونے اور خشک سالی کےباعث تقریباً ایک سال قبل ہنّہ جھیل خشک ہو گئی تھی۔ تاہم، امسال مارچ اور اپریل کے دوران وادی میں بارش کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد جھیل دوبارہ پانی سے بَھر گئی ہے، جس پر سیر و تفریح کےشوقین افراد اور واٹر اسپورٹس کےکھلاڑیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ جھیل میں پانی بَھرنے سے مقامی سیّاحت کو فروغ ملے گا اور اس کا اثر علاقے کے ماحول پر بھی پڑے گا۔ جھیل میں پانی بَھرنے کے سبب سائبیریا سے پرندوں کی آمد کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع ہو گیا اور جھیل میں مچھلیوں کی آمد کا بھی امکان ہے۔ واٹر اسپورٹس اکیڈمی سے تعلق رکھنے والے، حیات اللہ دُرّانی کہتے ہیں کہ ’’ہنّہ جھیل خشک ہونے سے یہاں واٹر اسپورٹس کا سلسلہ معطّل ہو گیا تھا اور گزشتہ سال مارچ اور اپریل میں سالانہ واٹر اسپورٹس کا انعقاد بھی نہیں ہو سکا تھا۔ تاہم، جھیل میں پانی بَھرنے سے واٹر اسپورٹس کا سلسلہ بحال ہو جائے گا۔‘‘ہنّہ جھیل میں سیّاحوں کے ہجوم کی بنا پر یہاں کی جانے والی سرمایہ کاری منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اب سے پہلے اس جانب توجّہ نہیں دی گئی۔ 

اب ہنّہ جھیل پر، آنے والے سیّاحوں کے لیے ہوٹل کا قیام عمل میں آچکا ہے اور بچّوں کے لیے نہایت عُمدہ تفریحی پارکس کے قیام کے علاوہ کئی اقسام کے جُھولے بھی لگائے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں جھیل کو بڑی حد تک ایک مکمل تفریح گاہ اور اچّھے سیّاحتی مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، جس کے باعث یہاں سیّاحوں کی آمد میں بھی کئی گُنا اضافہ ہو گیا ہے۔ تاہم، اسے مزید ترقّی دینے کی گنجائش اب بھی موجود ہے۔ خیال رہے کہ تقریباً ہر فرد ہی اس پُر فضا مقام پر قیام کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ لہٰذا، اگر سیّاحوں کے لیے یہاں ایک بڑا ہوٹل یا چند کاٹیجز تعمیر کر دیے جائیں، تو جھیل کو چار چاند لگ جائیں گے۔ یہاں دن رات سیّاحوں کا ہجوم لگا رہے گا اور کوئٹہ کے شہریوں کو بھی ایک ایسا شان دار پکنک پوائنٹ مل جائے گا کہ جہاں وہ اپنی تعطیلات گزار کر تازہ دَم ہو سکیں۔ ہنّہ جھیل کے ترقّیاتی ادارے نے جس توجّہ اور سرگرمی سے اس مقام کو ترقّی دی ہے، اس کی روشنی میں امید کی جا سکتی ہے کہ یہ ادارہ یہاں مزید سہولتوں کی فراہمی اور موٹل انڈسٹری کے فروغ کا سبب بنے گا۔ 

جھیل کی سیر کے لیے آئے ساجد علی نامی نوجوان نے بتایا کہ ’’کوئٹہ ایک طویل عرصے سے بد امنی کا شکار ہے، جب کہ تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گِنے چُنے پارکس کی حالت بھی نا گفتہ بہ ہے۔ عسکری حُکّام اور حکومت کی جانب سے ولی تنگی ڈیم کی جانب جانے والے راستے کو عام شہریوں کے لیے کھولنا مثبت اقدام ہے۔ مَیں یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ ولی تنگی ڈیم کی جانب جانے والے پورے راستے کو تفریحی پارک میں بدل دیا جائے، جس سے نہ صرف شہریوں کو تفریحی سہولتیں میسّر آئیں گی، بلکہ حکومت کو ریونیو کی مَد میں خاطر خواہ رقم بھی ملے گی۔‘‘ (عکّاسی:یاسر خان جدون)

تازہ ترین
تازہ ترین