گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں
مجھ سے ادا ہوا ہے جگر جستجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں
(جگر مراد آبادی)
میں نے اپنے پچھلے کالم میں پی آئی اے کے کارکنوں اور حکومت کے درمیان ہونے والی رسہ کشی میں افہام و تفہیم کا راستہ نکالنے کا مشورہ دیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ فی الحال مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔ اگرچہ یہ حل عارضی اور ناپائیدار ہے مگر موجودہ حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس رسہ کشی میں حکومت کا پلہ بھاری رہا اور ورکرز نے صلح کی مگر بقول منیر نیازی ’’ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ یا ’’بہت دیر کی مہربان آتے آتے‘‘ ۔ چلیں جو بھی ہوا اچھا ہو گیا۔ پی آئی اے جو پہلے ہی اربوں روپے کے خسارے سے دوچار ہے مزید خسارے میں چلی گئی۔ جو حالات نظر آرے ہیں اس کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری ہو کر رہے گی۔ ملتوی کرنے کی بات بھی صرف یونین کو فیس سیونگ کے لئے دی ہے تاکہ وہ اپنے ورکرز کو کچھ تو بتا سکیں۔ ہڑتالی ملازمین پر تادیبی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پہلے مرحلے میں 10 ڈیلی ویج ورکرز کو لازمی سروس ایکٹ کے تحت فارغ کر دیا گیا ۔ مزید کارروائیاں جاری ہیں اور عنقریب خبریں آئیں گی۔ جس کسی نے بھی یونین کو ہڑتال کا مشورہ دیا بہت غلط تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ ہڑتال اس قدر غلط ثابت ہوئی کہ خود بخود ختم کرنی پڑی۔ افسوس تو ان دو انسانی جانوں کا ہے جو اس تماشے میں ہم سے اور اپنے پیاروں سے جدا ہو گئیں۔ ہڑتال بھی ختم ہو گئی۔ پرائیویٹائزیشن بھی عارضی طور پر رک گئی مگر وہ دو اشخاص جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے واپس نہیں آئیں گے ۔ ان کے بچے بغیر اپنے والد کے اور بیوہ بغیر اپنے شوہر کے زندگی کے بقیہ دن گزاریں گے اور یادوں کے سہارے جئیں گے۔ یونین لیڈروں کو کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے نتائج کا اندازہ لگانا چاہئے تھا۔ ان دو افراد کی موت کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟
فیصلہ قارئین کریں۔
کراچی میں میئر کے انتخاب کے لئے ووٹ دینے کے طریقہ کار کو درست کرنے اور سیکرٹ بیلیٹنگ کے لئے قانونی جنگ جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم کو ہائیکورٹ سندھ سے کامیابی حاصل ہوئی اور عدالت نے سیکرٹ بیلیٹنگ کے حق میں فیصلہ دیا۔ جس کےبعد حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ وہ ان کا قانونی حق ہے جسے وہ استعمال کریں گے۔ ایم کیو ایم کا مؤقف ہے کہ حکومت میئر کے انتخاب اور حلف برداری کو مؤخرکرنے کے لئے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے تاکہ سارا وقت مقدمے بازی میں گزر جائے۔ بہرحال سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے مؤقف ہوتے ہیں اور اپنے اپنے مؤقف کے حق میں اپنی تمام تر کاوشیں صرف کردیتی ہیں۔ مگر ان تمام سیاسی حربوں سے نقصان عوام کاہے۔ سیاسی پارٹیاں عوام کے نام پر آپس میں جنگ کرتی ہیں مگر عوام کی بہتری اور سہولتیں پہنچانے کے کاموں کو مئوخر کر کے عوام کے لئے مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ میری سیاسی رہنمائوں سے گزارش ہے کہ سیاست ضرور کریں کیونکہ یہ ان کا کام ہے مگر عوامی خدمت کے شعبوں کی کارکردگی پر بھی نظر رکھیں۔ انہیں سرکاری ملازمین کے رحم و کرم پر چھوڑ کر عوام کو بے یارو مدد گار نہ کریں کیونکہ ہماری سرکاری مشینری سے تو آپ سب آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ کس طرح کام کرتی ہے۔ بات چلی تھی پی آئی اے کی ہڑتال سے ۔ ہڑتال کے دوران نجی ایئر لائنوں نے عوام کی جی بھر کر کھال اتاری ہے۔ مگر حکومت مجبور تھی کہ کم از کم مشکل حالات میں عوام کو سفر کی سہولت تو فراہم ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایئر لائنوں کے کرایوں اور من مانی کارروائیوں کو روکنے کے لئے ضابطۂ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام سول ایوی ایشن کے محکمے سے لیا جا سکتا ہے جو اس ضابطے کی پابندی نہ کرنے والی ایئر لائن کو سہو لتوں کی فراہمی بند کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ مولانا عبدالعزیز کی پرویز مشرف کو معاف کرنے کی خبریں اخبارات میں شائع ہورہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی شہداء فائونڈیشن طرف سے مزاحمتی بیانات بھی آرہے ہیں۔ اسلامی قوانین میں قتل قابل راضی نامہ جرم ہے اور اس میں ورثاء قصاص معاف کر سکتے ہیں اور بالغ ورثادیت بھی معاف کر سکتے ہیں۔ اسلامی قوانین میں خون معاف کی گنجائش رکھنے کا مقصد عوام اور قبیلوں میں دشمنی کا خاتمہ اور افہام تفہیم کو فروغ دینا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند بات ہے۔ شہدافائونڈیشن کو چاہئے کہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور غصے کو تھوک دیں۔ شرجیل میمن کی لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر چھ گھنٹے کی امیگریشن حکام کی پوچھ گچھ اور پھر اس کے بعد ہوٹل روانگی کے بارے میں میڈیا پر متضاد خبریں سننے کو ملیں۔ ایک اطلاع کے مطابق شرجیل میمن کا پاسپورٹ رکھ لیا گیا مگر بقول شرجیل میمن ان کا پاسپورٹ ان کے پاس ہے۔ بہرحال سرکاری طور پر کوئی پریس ریلیز نہ تو حکومت سندھ نے جاری کی اور نہ ہی لندن کے امیگریشن کے عملے کا کوئی مصدقہ بیان سامنے آیا۔ گویا معاملہ رفع دفع ہو گیا نیب کی طرف سے بھی ابھی تک شرجیل میمن کے بارے میں کسی کارروائی کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ گویا یہاں بھی معاملہ سرد خانے میں پڑا ہے اور کسی کارروائی کی کوئی توقع نہیں ہے۔ ہر طرف شانتی ہے۔
آخر میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں
اس ضبط محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا
ہر آہ میں صورت شیون کی، ہر اشک میں رنگ افسانے کا
اب کس سے تبسم راز کہئے، اب میرو وفا کا دور نہیں
اب دنیا کے وہ طور نہیں، اب اور ہے رنگ زمانے کا