محمد انور شیخ ،نواب شاہ
پولیس کا محکمہ عوام کی جان و مال کا محافظ ہوتا ہے، اور چند سال کے عرصے میں سندھ پولیس نے گزشتہ دو عشرے سے بدامنی کا شکار صوبے کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کے لیے اوردہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ لیکن بد قسمتی سے اس محکمے میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اس محکمے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔جنہوں نے شہرت اور انعام و اکرام یا پیسے کی ہوس میں اس ادارے کے تقدس کو پامال کیا ہے، جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے ترقیاں حاصل کی ہیں ۔صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے کئی شہروں میں جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔ ایسا ہی افسوس ناک واقعہ چند روزقبل قاضی احمد پولیس اسٹیشن کی حدود میں پیش آیا ۔پولیس اہل کاروںنے نواب شاہ جوڈیشل کمپلیکس سے باہر آنے والے بارہویں جماعت کے طالب علم سجاد جوکھیو کوحراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا اورکئی روز تک مبینہ طور پر اس پر تشدد کیا جاتا رہا ۔ جب اس کی حالت بگڑ گئی تو اسے پیپلز میڈیکل اسپتال لایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اس کی تشویش ناک حالت کے باعث اسے کراچی اسپتال لے جانےکا مشورہ دیا، تاہم اسے لانے والے پولیس افسران و اہل کار، اسپتال میں ہی چھوڑ کر چلے گئے اور اس نوجوان نے وہیں دم توڑ دیا۔بعد ازاںاسپتال کے عملے نے جب بدنصیب نوجوان کے ورثاء کی تلاش شروع کی اور سوشل میڈیا پر اس کی تصویر ڈالی گئی۔ متوفی کے اہل خانہ جو اس کی تلاش میںمارے مارے پھر رہے تھے ، سوشل میڈیا پر تصویر دیکھ کر اسپتال پہنچےاور لاش کی شناخت کی۔اسپتال انتظامیہ نے جب ہلاک ہونے والے نوجوان کے سلسلے میں تھانے سے رابطہ کیا تو انہوں نےمتوفی کے بارے میںلاعلمی کا اظہار کیا۔ تاہم اسپتال انتظامیہ کی جانب سے سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ چیک کی گئی تو انکشاف ہوا کہ زخمی حالت میں اسپتال لانے اور اسےنیم مردہ حالت میں اسپتال کے بیڈ پر چھوڑ کر جانے والے کوئی اور نہیں ،بلکہ ان میںقاضی احمدپولیس اسٹیشن، کے افسر ان و اہل کار شامل تھے۔سجاد جوکھیو کے ورثا ءکی جانب سے اس قتل کے خلاف قاضی احمد اور دولت پور میں احتجاجی مظاہرہ کئے گئے لیکن پولیس اپنے پیٹی بند بھائیوںکو بچانے کے لئے ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ۔بعد ازاں عوامی ردعمل پر ڈی آئی جی شہید بینظیر آباد ڈویژن، احمد یار چوہان کی جانب سےمذکورہ واقعے کی تحقیقات کے لیے، سینئر پولیس افسران پر مشتمل تین رکنی انکوائری کمیٹی قائم کی گئی، جس میں ڈی ایس پی ،سی آئی اے مبین پرھیاڑ، ڈی ایس پی صدر علی رضا لغاری شامل تھے ۔ لیکن تحقیقاتی کمیٹی قائم ہونے کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، تاہم اخبارات اورٹی وی چینلز پر اس واقعہ کی بازگشت کے بعد چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ نےازخود نوٹس لیااور ملزمان کے خلاف ایف آئی آرکے اندراج اوران کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔ ملزمان نے گرفتاری سے بچنےکے لیے روپوشی اختیار کرلی۔پولیس نے ایس ایچ او قاضی احمد کے ایک اہم افسر کی گرفتاری کے لئےمبینہ طور پر ان کے گھر واقع جام صاحب روڈ پر چھاپہ مار ا اور عدم گرفتاری پر ان کے بھینسوںکے باڑے کو مسمار کردیا ۔ بعد ازاں انہیں خفیہ اطلاع ملنے پر پولیس نے بلوچستان کے ضلع مستونگ سے چھاپہ مار کرگرفتار کرلیاجبکہ بعد دیگر ملزمان بھی گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ پولیس نے ہلاک ہونے والے نوجوان سجاد جوکھیو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ موٹر سائیکل چور ی کی واردات میں ملوث تھاجبکہ مقتول کے ورثاء کا دعویٰ ہے کہ ان کا بیٹا بے قصور تھا ، جسے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہے۔