• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئٹہ، متعدد امیدواروں کی اپنی جماعتوں سے بغاوت ،آزادانہ انتخاب میں اتر پڑے

کوئٹہ(رپورٹ/فرخ شہزاد ملک)بلوچستان میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں، نت نئے سیاسی اتحاد بن وجود میں آ رہے ہیں، سیٹ ٹو سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ‘ جلسے جلوس اور کارنر میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم میں سیاسی جماعتوں میں اختلافات دیکھنے میں آ رہے ہیں، جس کے باعث کئی امیدوار اپنی پارٹیوں سے بغاوت کرتے ہوئے آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ حال ہی میں قائم ہونیوالی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا ان دنوں صوبے کی سیاست میں سب سے زیادہ چرچا ہے، اہم سیاسی و مذہبی شخصیات جو ’’الیکٹیبلز‘‘ ہیں، اس جماعت کاحصہ بن چکے ہیں، جس سے یقینی طور پر یہ جماعت عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کی متعدد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائیگی۔بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل پر تحریک انصاف نالاں نظر آتی ہے،صوبائی صدر پی ٹی آئی سردار یار محمد رند نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعتراف کیا کہ اس جماعت کی تشکیل سے ہماری اڑھائی سال کی محنت ضائع ہو چکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو با اثر حلقوں کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کرنیوالی سیاسی و مذہبی شخصیات حکومتی مدت کے اختتام پر تحریک انصاف کا حصہ بن جائیں گی لیکن آنا‘‘ فانا‘‘ نئی پارٹی بنا کر ان تمام شخصیات کو اس میں شامل کرا لیا گیا۔ جس سے تحریک انصاف کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔سابق وفاقی وزیر و نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر میر حاصل بزنجو کا باپ سے متعلق کہنا ہے کہ اس کا بھی وہی انجام ہوگا، جو ق لیگ کا ہوا، یہ پارٹی نہیں، اسٹیبلشمنٹ کا عارضی ہتھیار ہے۔ ادھر سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور بی این پی (مینگل)میں حکومت سازی کیلئے اتحاد ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان کی48سالہ پارلیمانی تاریخ میں آج تک کوئی بھی جماعت تنہا حکومت نہیں بنا سکی بلکہ اسے دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے اور اس طرح مخلوط حکومت ہی تشکیل پاتی ہے۔

تازہ ترین