• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان کی عمر ابھی صرف اڑتالیس برس تھی بہترین صحت، چاق چوبند اور خوش خرم شخصیت کے مالک آصف جنھیں پیار سے بھیا بھی کہا جاتا تھا صرف ایک رات قبل وہ آرام سے سوئے۔ صبح چھ بجے کے قریب آنکھ کھلی، گھبراہٹ محسوس ہوئی، چہل قدمی کی، پھر ایک دم سینے میں تکلیف کی شکایت ہوئی، ماتھے پر پسینہ بڑھا تو اہلیہ سے فوری طورپر اسپتال چلنے کو کہا، اپنے سولہ سالہ بچے کو جگایا جو اب گاڑی چلانا سیکھ چکا تھا اسے لیکر قریبی اسپتال گئے ڈاکٹروں نے کہا ہارٹ اٹیک ہے فوراً فیڈرل بی ایریا میں دل کے نجی اسپتال پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے ابتدائی سروس فراہم کی جس کے بعد ایک بڑی رقم کا تقاضا کردیا جسے جمع کرانے کے بعد فوری طور پر انجیو گرافی اور پھر انجیو پلاسٹی کی جانی تھی اتنی صبح لاکھوں روپے کا بندوبست ایک سفید پوش فیملی کے لئے ممکن نہیں تھا تو نجی اسپتال کے قصاب نما ڈاکٹروں نے بھی سخت دل کے دورے میں مبتلا شخص کو سرکاری اسپتال لے جانے کا حکم دے دیا اور پھر یہیں سے اس مظلوم کا آخری وقت شروع ہوگیا، آصف بھیا نے ایمبولینس میں داخل ہوتے ہوئے اپنی اہلیہ سے صرف اتنا کہا کہ اگر مجھے کچھ ہوجائے تو امریکہ جانے کا پروگرام منسوخ نہیں کرنا جس پر اہلیہ نے کہا خدارا ایسی باتیں نہ کریں ان شاء اللہ آپ ٹھیک ہوجائیں گے لیکن صرف چند لمحوں بعد اڑتالیس برس کے آصف بھیا کی روح اپنے رب کی طرف پرواز کرگئی، صرف چند گھنٹے قبل جو شخص اپنے آرام دہ بستر پر سورہا تھا وہ اچانک مسیحا نما قصابوں کے لالچ اور بے حسی کا شکار ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ آصف بھیا کی وفات کی خبر جاپان میں ہی ان کے اور میرے قریبی دوست محمد انیس نے صبح ہی صبح مجھے فون کرکے دی، خبر سن کر میں ایک دم سکتے میں آگیا۔ ان سے میری فیملی کا کوئی خونی رشتہ تو نہ تھا لیکن ان کے خاندان کے ساتھ میرے والدین کی طویل شناسائی تھی ہر خوشی اور غم میں ساتھ ساتھ رہے، آصف بھیا اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے انتہائی صابر اور شاکر شخصیت کے مالک تھے، ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار نظر آتے، کبھی اپنے مسائل کو زباں پر نہ لائے معاشی طورپر بہت زیادہ مضبوط نہ تھے لیکن ایک سخت محنت کرنیوالے شخص تھے انھوں نے اپنی والدہ کی بیماری کے دنوں میں بے انتہا خدمت کی اور دعائیں سمیٹیں۔ حال ہی میں ان کے بہنوئی کو کینسر کی تشخیص ہوئی اور ڈاکٹروں نے تقریباََ جواب دے دیا تھا ان کی دیکھ بھال میں بھی آصف بھیا نے اپنی بساط کے مطابق کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن نظام قدرت دیکھیں جس بہنوئی کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا وہ اب اپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے اور تیزی سے روبہ صحت ہیں جبکہ جو شخص اس مریض کی تیمار داری میں مصروف تھا وہ صرف ایک ہی دن میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ یہ ہی دنیا کا قانون ہے، دس سال قبل آصف بھیا کی اہلیہ کے والدین کی جانب سے آصف بھیا ان کی اہلیہ اور تینوں بچوں کے لئے امریکہ کی امیگریشن اپلائی کردی گئی تو وہ بہت مطمئن دکھائی دینے لگے تھے اور پھر ان دس سالوں میں آصف بھیا کبھی دبئی تو کبھی کراچی میں کاروبار کرتے رہے، گزشتہ دنوں ان کے اہل خانہ کا امریکہ کا امیگریشن ویزہ لگ کر آیا تو بہت ہی خوش تھے تاہم ان کا اپنا ویزہ کچھ مزید کارروائی کے لئے روک لیا گیا تھا لیکن وہ پھر بھی خوش تھے کہ چلو اہل خانہ تو جائیں وہ بعد میں بھی چلے جائیں گے۔ پاکستان کے دورے کے دوران میری آصف بھیا اور ان کے اہل خانہ سے تفصیلی ملاقات ہوئی تھی اور اب مجھے ان کے یہ الفاظ شدت سے یاد آرہے تھے کہ عرفان آپ نے جب بھی امریکہ آنا ہے میرے پاس ہی آنا ہے اور ہاں خبردار ہوٹل میں ٹھہرنے کی بالکل اجازت نہیں ہوگی۔ ایسی ہشاش بشاش شخصیت اتنی جلدی دنیا سے کوچ کرجائے گی سوچا بھی نہ تھا لیکن یہی دنیا ہے کہ اسی طرح چلتی رہتی ہے سب کو ہی جانا ہے کسی کو جلدی کسی کو دیر سے لیکن اس آنے جانے میں ہر سمجھدار انسان کے لئے پیغام عبرت بھی ہے اورنشانی بھی، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آصف بھیا سمیت اس دنیا سے رخصت ہونے والے تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے، آمین ۔
جاپان میں بھی اس سال کئی پاکستانی اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں ان ہی میں ایک سینئر پاکستانی شیخ محمد اختر بھی تھے جوایک صحافی، سوشل ورکر اورمذہبی شخصیت تھے، انکی عمر پچپن برس تھی، کمیونٹی کی ہر تقریب میں موجود ہوتے تھے۔ اچانک ہی رمضان کے آخری جمعے کو اطلاع ملی کی ان کا انتقال ہوگیا ہے جاپان بھر میں پاکستانی کمیونٹی کے لئے یہ خبر انتہائی تکلیف کا باعث تھی لیکن ہر کسی کا وقت متعین ہوتا ہے میری شیخ اختر سے آخری ملاقات مسلم لیگ ن جاپان کے سینئر نائب صدر ملک یونس کے والد کی فاتحہ خوانی میں کاناگاوا شہر میں ہوئی تھی جس میں وہ بہت چاق چوبند نظر آرہے تھے سب کے ساتھ تصاویر بھی بنوارہے تھے کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہیں یا اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں، لیکن ایک وجہ شاید جو ان کے لئے سخت صدمے کا سبب بنی تھی وہ ان کی ایک صاحبزادی کی موت تھی جس کی شادی پاکستان کی ایک معروف فیملی میں ہوئی تھی پھر ایک دفعہ معلوم ہواکہ وہ بیمار ہے اور پھر اچانک اس بچی کے انتقال کی خبر آگئی۔ شیخ اختر ابھی دبئی ہی میں تھے کہ بچی کی تدفین کردی گئی۔ شیخ صاحب اس حادثے کے بعد بہت ٹوٹ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین