• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات

’’جنوبی امریکا میں اکیسویں صدی میںبائیں بازو کے کئی راہ نما برسراقتداررہ چکے ہیں، مگر ان میںسے کو ئی بھی اپنی معیشت کو مستحکم نہیں کرسکا۔اس لیے خطرہ ہےکہ کہیں آملو بھی اپنے ملک کو وینزویلا کے نقش قدم پرچلانے کی کوشش نہ کریں‘‘

چین اور اسرائیل کے تعلقات میںکچھ عرصے سے ا یک نئی طرح کی پیش رفت واضح طور پر محسوس ہو رہی ہے ۔ اسرائیل نے امریکا سے دیرینہ تعلقات کے باوجود چند برسوں میں چین سے بھی راوبط کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور وہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت سے اپنے معاملات کوبہتر کرنے کی غرض سے 2002میں واضح طور پر ا قد ا ما ت اٹھانے کی حکمت عملی اختیار کر چکا ہے۔ اس نے حیفہ یونیورسٹی،برلان یونیورسٹی اور تل حئی کالج میں ایشین اسٹیڈ یزکےپروگرام شروع کر دیے اور Hebrewیونیورسٹی اور تل ابیب یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ قائم کر دیے ہیںجن میں متعدد طلبا نے داخلہ لے کر یہ ثابت کرنا شروع کر دیاہے کہ وہ چین کی حکمت عملی کو سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

چین دنیابھر میں اپنی مخالفت اور کھٹ پٹ کو دیکھتے ہوئے نئی منڈیاں تلا ش کرنے کی جدوجہد کررہا ہے۔ اسرائیل کے حوالے سے چین بلکہ دنیا بھر میں یہ خیال بہت مستحکم ہے کہ وہ اپنی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ضر ور چھوٹا ملک ہے، لیکن سائنس کے میدان میں اس کے ما ہرین نے بہت سی کام یابیاں حاصل کی ہیںاور مختلف شعبوں میں وہ اعلی ترین ٹیکنالوجی کا حامل ہے۔ چین اس کی ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ دل چسپی رکھتا ہے۔ اس کے باوجود کہ دونوں ممالک امریکاکے ضمن میںمختلف حکمت عملیاں رکھتے ہیں ،دونوں ممالک نے متعدد شعبوں میں مل کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔چین اس حوالے سے تین نکاتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔وہ تجارت ، سرمایہ کاری اور ثقافتی تعلقات کو بڑھا رہا ہے اور ان تینوں نکا ت کے ذیل میں متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میںچین کے اثرات سیا سی طور پر بھی اسرائیل میں بڑھ رہے ہیں ۔ویسے تو چین وہاں بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، لیکن حیفہ میں کا رمل ٹنل کا منصوبہ اور تل ابیب میں لائٹ ٹرین کامنصوبہ چین ہی کی وجہ سے آگے بڑھ رہا ہے۔اس کے علاوہ چین اشدود اور حیفہ کی بندرگاہوں کی توسیع کا کام بھی کر ر ہاہے۔رہائشی عمارتوں کی تعمیر میں چین بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

گزشتہ برس اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے چین کا دورہ کیا تو اس وقت دس ایسے معاہدوں پرد ست خط ہوئے تھے جن کی مالیت پچیس ارب ڈالرزہے ۔چین اسرائیلی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کو کتنی اہمیت دے رہا ہے، اس کا اندازہ اس کی انٹرنیٹ کی بہت بڑی کمپنیز میں سے ایکBaiduکے سی ای او روبنلی کی اسرائیلی وز یر اعظم نتین یاہو سے ملاقات کے بعد دیے جانے والے بیان سے کیا جا سکتا ہے۔اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ا سرائیل میں سرمایہ کاری دراصل ٹیکنالوجی میںسرمایہ کاری ہے۔اسی طرح چین کی انٹرنیٹ اورتجارت سےمتعلق معر وف کمپنی Ali Babaمختلف مقامات پر سات ریسرچ لیبارٹریز قائم کر رہی ہے جن میں سے ایک اسرائیل میں قائم کی جا ئےگی۔

چین درحقیقت اسرائیل کی اعلیـ ٹیکنالوجی، خورا ک، زراعت، پانی اور بایو ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرما یہ کا ر ی بڑھا رہا ہے۔یہ مقصد حاصل کرنے کی غرض سے Israel Technion Institute of Technology اور چین کی Shantou یونیورسٹی نے چین کے صوبے Guandongمیں کیمپس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے چین نے 147ملین ڈالرز کی گرانٹ اور زمین فراہم کی ہےاور ایک غیر سرکاری چینی تنظیم نے 130ملین ڈالرز کی گرانٹ دی ہے۔اسی طرح حیفہ یونیورسٹی اور ایسٹ چائنا نارمل یونیورسٹی، شنگھا ئی میں مشترکہ لیباریٹری قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہےجہا ں با یو میڈیسن ،نیوربایولوجی وغیرہ کے شعبوںمیںتحقیق کی جائے گی۔ تل ابیب یونیورسٹیTshinghua یونیورسٹی سےمل کر ریسرچ سینٹر بنا رہی ہے تاکہ بایو ٹیکنالو جی ، شمسی توانائی ،ماحولیاتی ٹیکنالوجی اورپانی پر تحقیق کی جا سکے۔یادرہے کہ صرف2016میں چین نے اسرائیل میں ٹیکنالوجی میں 16.5ارب ڈالر زکی سرمایہ کاری کی تھی جو2015کے مقابلے میں10گنازیادہ ہے۔

اسرائیل کی سیاحت کی صنعت میں بھی چینی بڑے پیمانے پر آ کر حصہ لے رہے ہیں۔پہلے یہ تعداد چند ہزار افراد تک محدود تھی، مگر اب یہ ایک لاکھ نفوس سالانہ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔اسی وجہ سے اسرائیل نے امریکا اور کینیڈا کے بعد چین کو ایسے تیسرے ملک کا درجہ دے دیا ہےجس کے شہریوں کو 10سال کا Multipleویزا جا ر ی کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے دونوں ممالک کے ثقافتی تعلقات بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ نومبر میںچین نے تل ابیب میں اپنا کلچرل سینٹر کھولا۔یہ دنیا میں چین کا 35واں اور مشرق وسطی میں دوسراکلچرل سینٹرہے۔ اس سے قبل صرف مصرکے دارالحکومت قاہرہ میں ایسا مرکز موجودتھا۔علاوہ ازیں چین نے گزشتہ دسمبر میں فلسطین، اسرائیل امن سمپوزیم کی میزبانی کی تھی جس میں چین کے صدر نے امن کے لیے اپناچارنکاتی فارمولا پیش کیا تھا۔

اس صورت حال میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ دونوں ممالک کیوں اپنے تعلقات بڑھا رہے ہیں؟اس کا جوا ب یہ ہے کہ چین اسرائیل کی ٹیکنالوجی میں دل چسپی رکھتا ہے اور اسرائیل کی خواہش ہے کہ چین عرب دنیا سے اس کے معاملے میں عرب دنیا کی حمایت کرنےکےبجائے ا پنا جھکائو اسرائیل کی طرف کر لے۔ اس نے یہی طریقہ ا ختیار کر کے بھارت کو بھی اپنی طرف راغب کر لیا۔تاہم یہ علیحدہ بات ہے کہ اب عرب فوجی بھارت ہی میں تربیت لینے آ رہے ہیں۔

تازہ ترین