شہرِ قائد کی معروف شاہ راہ، ایم اے جناح روڈ( سابقہ بندر روڈ) پر جامع کلاتھ مارکیٹ سے ذرا آگے، سِول اسپتال سے متصل، پتھروں سے بنی خالقدینا ہال کی پُر شکوہ عمارت، حریّت اور جرأت کی شان دار تاریخ کی امین ہے۔ یہی وہ عمارت ہے، جس کے ہال کو انگریز سرکار نے عدالت کی حیثیت دے کر تحریکِ خلافت کے رہنماؤں مولانا محمد علی جوہر، اُن کے بھائی مولانا شوکت علی، مولانا حسین احمد مدنی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد کانپوری، پیر غلام مجدّد سرہندی اور سوامی شنکر اچاریہ پر بغاوت کا مقدمہ چلایا اور 26 دسمبر 1921 ء کو اسی ہال میں اُنہیں دو، دو سال کی سزا سُنائی گئی۔
قیامِ پاکستان کے چار ماہ بعد، اسی ہال میں قائدِ اعظم محمّد علی جناحؒ کی سربراہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ غیر معمولی اجلاس ہوا، جس میں مسلم لیگ سے آل انڈیا کے الفاظ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی قائدِ اعظم محمّد علی جناح یہاں تشریف لاتے رہے اور مختلف اجلاسوں سے خطاب بھی فرمایا۔ یہیں پر 11 اکتوبر 1947 ء کو سِول اور فوجی افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے فرمایا’’ میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کام یابی اور فلاح حضرت محمدﷺ کے، جو عظیم قانون دان تھے، مرتّب کردہ سنہری اصولوں کو اپنانے میں پنہاں ہے۔ آئیے کہ ہم اسلام کے سنہری اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں۔‘‘
دراصل یہ تاریخی عمارت، بنیادی طور پر ایک لائبریری تھی، جسے 1856 ء میں’’ نیٹیو جنرل لائبریری‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ گو کہ اس سے قبل بھی کراچی میں چند ایک کتب خانے موجود تھے، لیکن صحیح معنوں میں پہلا عوامی کتب خانہ یہی تھا، جس کے بانیان میں کمشنر سندھ سر باٹرلے فریئر، دیورن جگن ورسودیو، نارائن وشوا ناتھ، لکشمی کرشن اور مہادیو شاستری شامل تھے۔ حکومت نے لائبریری کے لیے 2289 مربع گز زمین مفت فراہم کی تھی۔ 19 ویں صدی کے آخر میں یعنی لائبریری کے قیام کے تقریباً پچاس برس بعد، شہر کی ممتاز شخصیت، سیٹھ غلام حسین خالقدینا نے اپنے وصیت نامے میں 18 ہزار روپے اس لائبریری کے لیے مختص کیے، لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عاید کردی کہ اس رقم سے لائبریری کی نئی عمارت تعمیر کی جائے، جس میں ایک بڑا ہال بھی ہو، جسے کرائے پر دے کر لائبریری کے لیے مالی وسائل پیدا کیے جائیں اور اُس ہال کو اُن کے نام سے منسوب کیا جائے۔ بہرکیف، اُس وقت کی لائبریری کمیٹی نے نئی عمارت کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے 2522 مربع گز کا ملحقہ پلاٹ بھی حکومت سے حاصل کرلیا گیا۔
چوں کہ صرف 18 ہزار روپے میں عمارت کی تکمیل ممکن نہ تھی، لہٰذا کراچی میونسپلٹی سے بھی مدد کی درخواست کی گئی، جس نے 16 ہزار روپے کا عطیہ دیا، جو بعدازاں بڑے تنازعے کا بھی سبب بنا، اس کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔ کچھ رقم مخیّر افراد نے بھی فراہم کی،یوں 38 ہزار روپے کی لاگت سے دو کشادہ کمروں اور ایک 70 فٹ لمبے اور 40 فٹ چوڑے ہال پر مشتمل عمارت مکمل ہوئی، جس کا 16 جولائی 1906 ء کو اُس وقت کے کمشنر کراچی، اے ڈی ینگ نے افتتاح کیا اور حسبِ وصیت، ہال کو غلام حسین خالق دینا کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ چوں کہ’’ خالق دینا ہال لائبریری‘‘ کمیٹی کے ارکان انگریز سامراج سے آزادی کی تحریک کے حامی تھے، اس لیے حکومت نے علی برادران کے مقدمے سے فارغ ہو کر اُنھیں بھی سبق سِکھانے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں حکم جاری کیا گیا کہ کمیٹی فوری طور پر’’ کے ایم سی‘‘ کو عمارت اور باقی زمین میں برابر کی حصّے دار بنائے، کیوں کہ کے ایم سی نے عمارت کی تعمیر کے لیے تقریباً نصف رقم فراہم کی تھی۔ کمیٹی نے کچھ مزاحمت تو کی، لیکن بالآخر حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور دو کمروں کے علاوہ، باقی عمارت اور خالی زمین سے دست بردار ہوگئی۔
اب ایک کمرے میں لائبریری قائم ہے اور دوسرا کمرا،’’ اسٹوڈنٹس ویلفئیر آرگنائزیشن‘‘ کے استعمال میں ہے، جن کا کسی حکومتی ادارے سے کوئی تعلق نہیں، جب کہ ہال اور باقی اراضی کے ایم سی کی ملکیت ہے۔ اس کمپاؤنڈ میں ملازمین کی رہائش کے لیے چار مکانات اور انتظامیہ کے دفاتر بھی ہیں۔ سطحِ زمین سے کئی فٹ اونچائی پر تعمیر کی گئی عمارت کا مرکزی دروازہ کئی گول ستونوں پر مشتمل ہے، جن کے اوپر ایک تکون سی تعمیر کی گئی ہے، جس پر عمارت کا نام اور سنِ تعمیر تحریر ہے۔ اس طرز کی عمارتیں ہمیں نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان اور بھارت کے کئی دیگر علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہال کے پچھلے دروازے اور دونوں اطراف کشادہ راہ داریاں ہیں، جنھوں نے عمارت کی خُوب صورتی میں مزید نکھار پیدا کیا ہے۔ سامنے کے حصّے میں خاصی خالی جگہ پڑی ہے، جس میں باغیچہ ہے، مگر اب اُس میں لگائے گئے پودے سوکھ چکے ہیں۔
خالقدینا ہال میں کم و بیش چار سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور پھر یہ کہ اس کا محلِ وقوع بھی عوامی تقریبات کے لیے انتہائی آئیڈیل ہے، مگر اس کے باوجود روایتی افسر شاہی رویّے کے سبب اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا، حالاں کہ قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی یہ ہال سیاسی، سماجی اور مذہبی تقریبات کا مرکز رہا ۔ علّامہ رشید ترابی کی مجالسِ صفر و محرّم کا طوطی ایک مدّت تک یہیں بولتا رہا۔
وہ برسوں اسی ہال میں مجالس گرماتے رہے۔ اس کے علاوہ، مختلف سیاسی اور سماجی تنظیمیں بھی یہاں پروگرامز کرتی رہی ہیں۔ نیز، حکومتی اداروں کے اجلاس بھی یہاں منعقد ہوا کرتے تھے، اسی نوعیت کا ایک اہم اجلاس جون 1948 ء میں گورنر سندھ، غلام حسین ہدایت اللہ کی صدارت میں ہوا، جس میں سندھ سیکریٹریٹ کے ملازمین نے شرکت کی اور گورنر نے قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے آنے والوں کی ملازمتوں کے حوالے سے ان ملازمین کو اعتماد میں لیا۔ کے ایم سی کی جانب سے یہاں پروگرامز کرنے کے لیے فیس مقرّر ہے۔ مذہبی نوعیت کے پروگرامز کے لیے پانچ ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں، جب کہ باقی پروگرامز کی کوئی باقاعدہ فیس طے نہیں، افسران پروگرامز کی نوعیت کے مطابق رقم لیتے ہیں۔ تاہم یہ فیسز نقد رقم کی صورت میں وصول کرنے کی بجائے پے آرڈر کی شکل میں لی جاتیں ہیں اور اس کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے۔
اتنی اچھی لوکیشن ہونے کے باوجود عوام اس ہال کو تقاریب کے لیے کیوں منتخب نہیں کرتے؟ اس سوال پر ایک ذمّے دار افسر کا کہنا تھا کہ’’ یہاں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ بِل کی عدم ادائی پر تین ماہ بجلی منقطع رہی، جب کہ پینے کے لیے پانی تک نہیں ہے۔ اتنی بڑی بلڈنگ کی صفائی کے لیے صرف ایک سوئیپر ہے اور وہ بھی اپنی مرضی کا مالک۔ ہال کی حالت بھی انتہائی ابتر ہے، پورے ہال میں دو بڑی لائٹس ہیں اور وہ بھی ٹھیک طرح کام نہیں کرتیں۔ پنکھوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ چھت بھی انتہائی خستہ ہوچکی ہے، جس کے بعض حصّوں کو دیکھ کر تو خوف آتا ہے۔ نیز، ہال میں کسی قسم کا کوئی فرنیچر ہے، اور نہ ہی جنریٹر کا کوئی انتظام ، ایسے میں کوئی یہاں کیا لینے آئے گا۔‘‘ اس حوالے سے ہماری کئی سماجی شخصیات سے بھی بات ہوئی، اُن کا اس پر اتفاق تھا کہ اگر کے ایم سی ضروری سہولتیں فراہم کردے اور ساتھ ہی مناسب تشہیر بھی کی جائے، تو اس ہال کو آباد کیے جانے کے علاوہ، منافع بخش بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ایک دَور میں یہاں شادی بیاہ کی تقاریب بھی ہوا کرتی تھیں، جو نہ جانے کیوں اب بند کر دی گئی ہیں، اس طرح کی تقاریب پر عاید پابندی ختم کرکے بھی مالی وسائل حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس ہال کا ایک پلس پوائنٹ اس کے اطراف بڑے تجارتی مراکز اور مختلف اداروں کے دفاتر کی موجودگی بھی ہے۔
ان مارکیٹس کی یونینز اور اداروں کو اپنے ارکان اور ملازمین وغیرہ کے اجلاس منعقد کرنے کے لیے مناسب مقامات کی تلاش رہتی ہے اور یہ ضرورت، خالقدینا ہال بہ خُوبی پوری کر سکتا ہے، کیوں اس گنجان آباد علاقے میں اس طرح کے ہال کم ہی ہیں۔ اس ہال کی تاریخی حیثیت اور تعمیراتی خُوب صورتی کے سبب یہاں ڈراموں کے علاوہ فلمز کی بھی شوٹنگ ہوتی رہی ہے۔ معروف بولی وڈ اداکار، اوم پوری اور پاکستانی اداکار، فہد مصطفیٰ کی فلم’’ ایکٹر ان لا‘‘ وہ آخری فلم تھی، جس کے کئی مناظر اس عمارت میں فلمائے گئے۔ ستّر کی دہائی کے بعض رسائل میں خالقدینا ہال میں ہونے والے اسٹیج ڈراموں کی تصاویر بھی ملتی ہیں، جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کی سماجی زندگی میں اس عمارت کا کس قدر بھرپور کردار رہا ہوگا۔
خالقدینا ہال میں قائم کتب خانے کی دیکھ بھال ایک ایسوسی ایشن کرتی ہے، جس میں شہر کی ممتاز شخصیات اور علم دوست افراد شامل رہے ہیں۔ یونس رضوی (مرحوم) کے، جو لائبریری ایسوی ایشن کے دیرینہ رُکن اور صدر بھی رہے، تین دہائیوں قبل تحریر کردہ مضمون کے مطابق، لائبریری میں اُس وقت اردو، انگریزی، سندھی، گجراتی سمیت مختلف زبانوں کی کئی ہزار کتب موجود تھیں۔ نیز،’’ کراچی کے کتب خانے‘‘ کے مؤلف، محمد یوسف نعیم نے 2005 ء میں یہاں کا دورہ کیا، تو اُس وقت نو ہزار کتابیں یہاں کی الماریوں میں رکھی تھیں، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ کتابوں کی بڑی تعداد پُراسرار طور پر غائب ہوچکی ہے اور جو موجود ہیں، اُن کا بھی کوئی والی وارث نہیں۔ ایسوسی ایشن کے ذمّے داران سے بات کی جائے، تو وہ فنڈز کی کمی کا رونا روتے ہیں، حالاں کہ اُن سے پوچھا جانا چاہیے کہ کتابوں سے گرد ہٹانے اور میزوں پر کپڑا مارنے میں آخر کتنی بڑی رقم خرچ ہوتی ہے؟ اِس وقت یہ تاریخی کتب خانہ عملاً کباڑ خانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ کتب خانہ روزانہ صبح 10 سے شام 5 بجے تک کُھلا رہتا ہے اور روزانہ دس سے پندرہ افراد مطالعے کے لیے آتے ہیں، لیکن نچلے درجے کے ملازمین اور ہال کے سامنے مارکیٹ کے دُکان داروں کا کہنا ہے کہ’’ ہمیں تو یہاں کوئی آتا جاتا نظر نہیں آتا۔‘‘ ایک دَور میں طلبہ 7 روپے اور عام افراد 21 روپے کے عوض لائبریری کی سالانہ ممبرشپ حاصل کرسکتے تھے، مگر اب ممبرشپ کا سلسلہ بھی بند ہی ہے اور ماضی کے برعکس، گھر کے لیے بھی کتابیں جاری نہیں کی جاتیں۔
گو کہ کتب بینی کے رجحان میں فی الواقع کافی کمی آئی ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوشش کی جائے، تو خالقدینا ہال کی لائبریری کو مطالعے کے شائقین کے لیے پُرکشش بنایا جاسکتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت کو تو اس بات کا سِرے سے علم ہی نہیں کہ خالقدینا ہال میں کوئی کتب خانہ بھی ہے۔ پھر یہ کہ یہاں کی انتظامیہ بھی’’ خوئے دِل نوازی‘‘ سے محروم ہے۔ شاید وقت گزرنے کے ساتھ، یہ لائبریری بھی علم دوست افراد کی بجائے، روایتی لوگوں ہی کی سرپرستی میں آ گئی ہے، جس نے اس کے تاریخی کردار کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ اس ضمن میں اس اَمر کی اشد ضرورت ہے کہ علم دوست افراد اور ادارے آگے بڑھیں اور لائبریری کو اس کا شان دار ماضی لَوٹانے کے لیے اقدامات کریں۔ کتب خانے کی دوسری جانب واقع کمرے میں’’ اسٹوڈنٹس ویلفئیر ایسوسی ایشن‘‘ کا دفتر ہے، جو این جی وی اسکول کے طلبہ نے 1951ء میں قائم کی تھی۔ ابتدا میں اس کا دفتر، کھارا در کی ایک دکان میں قائم کیا گیا، جسے بعدازاں خالقدینا ہال منتقل کر دیا گیا۔
یہ ایک خاصی متحرّک تنظیم ہے اور سال بھر اس کے پروگرامز جاری رہتے ہیں، جن میں طلبہ اور اُن کے والدین بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ کئی نام وَر شخصیات دوارنِ طالبِ علمی اس تنظیم سے وابستہ رہیں اور وہ اب بھی اس کی سرپرستی کرتی ہیں۔ اس تنظیم کا ایک قابلِ ستائش کام، ضرورت مند طلبہ کی مالی مدد کرنا بھی ہے۔ ایس ڈبلیو او کے موجودہ صدر، بشیر خان سدوزئی نے بتایا کہ’’ ہم رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر علم کی شمع روشن کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے غریب طلبہ کو مفت کتابیں فراہم کرنے کے ساتھ، اُن کی جسمانی اور ذہنی نشونما کا بھی خاص طور پر اہتمام کرتے ہیں۔ طلبہ کے درمیان کھیلوں، معلوماتِ عامّہ، تقاریر اور مضمون نویسی کے مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ نیز، مختلف موضوعات پر کانفرنسز، ورکشاپس اور سیمینارز بھی منعقد ہوتے ہیں۔‘‘
خالقدینا ہال سے ذرا آگے بڑھیں، تو سٹی کورٹ سگنل کے بعد لبِ سڑک جو سنسان سی عمارت اپنی بے قدری پہ نوحہ کُناں نظر آتی ہے، ماضی میں اس کی رونق بھی دیدنی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ تجاوزات میں گھری اس خُوب صُورت عمارت کو انگریز سرکار نے لائبریری کے طور پر تعمیر کیا، لیکن یہ کوئی عوامی کتب خانہ نہیں تھا، بلکہ اسے کراچی میں تعیّنات 1882 برطانوی افسران کے لیے قائم کیا گیا۔
اسے شہر کے معروف پارسی سماجی رہنما، ایڈلجی ڈینشو کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ یہ وہی ایڈلجی ڈینشو ہیں، جن کے بیٹے کے نام پر این ای ڈی یونی ورسٹی کا نام رکھا گیا یعنی نادر شا ایڈلجی ڈینسو یونی ورسٹی۔ تاہم، بیش تر محقّقین کا کہنا ہے کہ یہ عمارت 1886 ء میں کراچی چیمبر آف کامرس کے چھے بار چئیرمین رہنے والے، میکس ڈینسو کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی، جس کے لیے 9 ہزار روپے اُن کے دوستوں اور باقی رقم کراچی میونسپلٹی اور چیمبر آف کامرس نے فراہم کی، جب کہ جیمز اسٹریچن نے اس کا نقشہ بنایا۔ اسی نقشہ ساز نے ایمپریس مارکیٹ، سندھ مدرسۃ الاسلام اور جہانگیر کوٹھاری بلڈنگ کے بھی نقشے بنائے تھے، اسی لیے ان عمارتوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ کتب خانہ برطانوی شہریوں کے لیے نہیں، بلکہ مقامی افراد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ڈینسو ہال کے سنِ تعمیر پر اختلاف ہے۔ بعض محقّقین نے 1886 ء تو کئی ایک نے 1888 ء بتایا ہے، مگر کسی نے بھی کوئی ایسا دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا کہ جس کی بنا پر اُس کی رائے کو ترجیح دی جا سکے۔
بہرکیف، پتھروں سے بنائی گئی اس دومنزلہ عمارت کے گراؤنڈ فلور پر کئی کمرے ہیں، جو کبھی لائبریری کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، جب کہ بالائی منزل پر ایک 60 فٹ لمبا اور 30 فٹ چوڑا ہال ہے، جس میں تین سو سے زاید افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ چوں کہ عمارت کے دونوں اطراف سڑکیں ہیں، اس لیے دونوں جانب بالکونیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ عمارت کے سامنے کا حصّہ انتہائی پُرکشش ہے، جس میں ایک گھڑیال بھی نصب ہے، جس کی سوئیاں ایک مدّت سے کسی مسیحا کے انتظار میں رُکی ہوئی ہیں۔ اس گھڑیال کو راؤ صاحب مورارجی نے بہ طورِ تحفہ دیا تھا۔ انگریز دَور میں تعمیر کی گئی کراچی کی کئی تاریخی عمارتوں کے بلند حصّوں پر گھڑیال نصب کیے گئے تھے، مگر افسوس کہ تقریباً گھڑیال ہماری لاپروائی کے سبب ناکارہ ہوچکے ہیں۔
قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی بہت عرصے تک یہ لائبریری اہلِ علم کا مرکز رہی۔ یہاں مختلف تقاریب بھی منعقد ہوا کرتی تھیں، جب1950 ء میں حسرت موہانی پاکستان تشریف لائے، تو ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے اُن کے اعزاز میں ڈینسو ہال کی لائبریری ہی میں تقریب منعقد کی۔ بعض شواہد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لائبریری ستّر کی دہائی تک قائم تھی اور لوگ مطالعے کے لیے بھی آیا کرتے تھے، پھر نہ جانے اس پر ایسی کیا قیامت گزری کہ تقریباً ایک صدی تک علم کی روشنی پھیلانے والی یہ شمع بجھ گئی۔ قدیم لائبریری تھی، تو کتابیں بھی قدیم ہی ہوں گی، مگر وہ کہاں گئیں؟ کسی کی ذاتی لائبریری کی زینت بنیں یا کسی کباڑیے کو فروخت کردی گئیں؟ یقیناً یہاں اخبارات، خاص طور پر مقامی اخبارات کا بھی اچھا خاصا ریکارڈ ہوگا، وہ کہاں غائب ہوگیا؟ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ دراصل، ڈینسو ہال میں مختلف بلدیاتی محکموں کے دفاتر کام کرتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے لائبریری سکڑتے، سکڑتے ختم ہی ہوگئی۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہاں واٹر بورڈ کے دفاتر قائم تھے، جس کے سبب اس تاریخی وَرثے کا حلیہ ہی بگڑ گیا۔ 24 اکتوبر 2009 ء کو’’ کے ای ایس سی‘‘(موجودہ کے الیکٹرک) اور’’ ہیریٹیج فاؤنڈیشن، پاکستان‘‘ کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دست خط ہوئے، جس کے مطابق دونوں ادارے ڈینسو ہال کی بحالی کے لیے مل کر کام کریں گے اور سٹی گورنمنٹ اس ضمن میں تمام ضروری سہولتیں فراہم کرے گی۔
پھر سندھ حکومت نے بھی2010 ء میں اس عمارت کو’’ ثقافتی وَرثہ‘‘ قرار دے دیا۔ اور یوں اب ڈینسو ہال کو اصل حالت میں بحال کرنے کا کام جاری ہے۔ چوں کہ یہ عمارت، کے ایم سی کے پاس رہی ہے، تو یہاں موجود قدیم کُتب اور اخبارات کا ریکارڈ بھی اسی کے پاس ہونا چاہیے، لہٰذا ڈینسو ہال کی عمارت کی بحالی کے ساتھ اس تاریخی ریکارڈ کو بھی تلاش کیا جانا ضروری ہے۔ نیز، آج کل ڈینسو ہال کے اطراف بڑے پیمانے پر تجاوزات قائم ہیں، جس نے عمارت کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ یہاں تک کہ ان تجاوزات نے اس کے مرکزی دروازے تک کو بند کردیا ہے۔ سو، ان تجاوزات کے خاتمے کے بغیر اس تاریخی ہال کو اصل شکل میں بحال کرنا ممکن نہیں، مگر اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ یہ دکانیں اور پتھارے، کئی دہائیوں سے ڈینسو ہال کے اطراف قائم ہیں، جنھیں ختم کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک ایسی جامع پالیسی کی ضرورت ہے، جس سے ایک طرف تو ان تجاوزات سے چھٹکارا پاکر ڈینسو ہال کی تاریخی حیثیت بحال کی جاسکے، تو دوسری طرف، متاثرین کے نقصانات کا بھی ازالہ ہو سکے۔
کراچی کا اصل نام…؟؟؟
ہم شہرِ قائد کو’’ کراچی‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں، جس کے انگریزی ہجّے ’’karachi‘‘ ہیں۔ تاہم خالقدینا ہال میں قائم کتب خانے میں ایک صدی پرانی ایسی کتب موجود ہیں، جن پر نیٹیو جنرل لائبریری کی مُہروں میں کراچی کے انگریزی ہجّے’’ kurrachee‘‘ درج ہیں، جن کا اُردو تلفّظ کَرَاچی کی بجائے’’ کُرّاچی‘‘ بنتا ہے۔ دراصل، کراچی کا نام مختلف زمانوں میں بدلتا رہا ہے۔ ایک زمانے میں اسے’’ کلاچی‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا، پھر اسے کوراچی اور کُرّاچی بھی کہا گیا۔ بہرحال، موجودہ’’ کَرَاچی‘‘ نے انہی ناموں سے جنم لیا ہے۔
ڈینسو یا ڈینشو…؟؟
ڈینسو ہال کے حوالے سے ایک الجھن ہے۔ وہ یہ کہ اگر یہ ہال، میک ڈینسو کی یادگار کے طور پر بنایا گیا تھا اور یقیناً ایسا ہی ہے، کیوں کہ عمارت پر اُنہی کا نام کندہ ہے، تو اس کے انگریزی ہجّے Densoہیں، جب کہ ایڈلجی ڈینشو کے ہجّے Edulji Dinshawہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دو الگ افراد تھے یا دونوں ایک ہی شخص کے نام ہیں…؟؟ اسے ڈینسو لکھا جائے یا ڈینشو…؟؟ یہ فرق بول چال کی وجہ سے آیا ہے؟ یا پھر کوئی عرفیت وغیرہ کا معاملہ ہے ؟ دراصل، یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں اور بعض لکھاریوں کو ملتے جلتے ناموں کی وجہ سے مغالطہ ہوا ہے۔ ایڈلجی( اسے ادولجی بھی لکھا جاتا ہے) ڈینشو نے 8 مئی 1914 ء کو انگلینڈ جاتے ہوئے مصر کی پورٹ سعید کے قریب بحری جہاز میں وفات پائی اور وہیں اُن کی میت کو سمندر بُرد کردیا گیا۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ 1886ء میں اُن کی یاد میں ڈینسو ہال تعمیر کروایا گیا ہو۔
تاریخی کتبہ…؟؟؟
پُرانی کتب میں خالقدینا ہال کے باہر آویزاں کیے گئے ایک کتبے کا ذکر ملتا ہے، مگر اب اس نوعیت کا کوئی کتبہ وہاں موجود نہیں ہے۔ اُس کتبے پر یہ عبارت درج تھی’’ 09جولائی 1921ء کو تحریکِ خلافت کے جلسے میں مولانا محمّد علی جوہر نے ایک قرار داد منظور کروائی کہ افواجِ برطانیہ میں مسلمانوں کی بَھرتی خلافِ شرع ہے۔ اس جرم میں مولانا اور اُن کے رفقاء پر حکومتِ برطانیہ نے بغاوت کا مقدمہ اسی عمارت میں چلایا تھا، مگر مقدمے کی پوری کارروائی کے دَوران مولانا کا موقف یہ رہا؎ ہم کو خود شوقِ شہادت ہے، گواہی کیسی… فیصلہ کر بھی چُکو، مجرم اقراری کا۔
اگلے 5 ماہ میں ڈینسو ہال کو اصل شکل میں لے آئیں گے، یاسمین لاری
’’ہیریٹیج فاؤنڈیشن پاکستان‘‘ اِن دنوں تاریخی ڈینسو ہال کو محفوظ کرنے کے ساتھ اِس کی بحالی کے کام میں بھی مصروف ہے۔ ہال سے متعلق، فاؤنڈیشن کی سربراہ، معروف آرکیٹیکٹ اور کراچی پر کئی حوالہ جاتی کتب کی مصنّفہ، یاسمین لاری نے بتایا، ’’ ڈینسو ہال گوتھک فنِ تعمیر کی عکّاسی کرتا ہے۔ گو عمارت سادہ ہے، لیکن اس کی کشش دوسری تاریخی عمارات سے کسی طور کم نہیں۔ اس ہال کی تعمیر میں گِزری کا پتھر استعمال کیا گیا ہے، جو اُس دَور میں تعمیر ہونے والی دیگر عمارات میں بھی لگایا گیا۔ دراصل یہ پتھر چمک اور پائیداری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔‘‘ ڈینسو ہال کس حال میں ملا؟ اس سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ’’ بتایا تو یہی جاتا ہے کہ عمارت کی دوسری منزل پر واقع ہال کا فرش بھی انتہائی خُوب صورت پتھروں سے بنایا گیا تھا، لیکن ہم تک پہنچتے پہنچتے سب کچھ تباہ ہوچکا تھا اور فرش اُدھڑا پڑا تھا۔
نچلی منزل کے کمرے بھی انتہائی خستہ حالت میں تھے، جب کہ چھتیں بھی گرنے کے قریب تھیں۔ اسی لیے ہم نے سب سے پہلے عمارت کو محفوظ بنانے کے اقدامات کیے، تاکہ اسے مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔ یہ مرحلہ کام یابی سے مکمل ہو چکا ہے۔ دوسرے مرحلے میں عمارت کو اس کے اصل رُوپ میں بحال کرنے کے اقدامات جا ری ہیں۔ اس ضمن میں ہماری کوشش ہے کہ کھڑکیوں، دروازوں اور بالکونیوں وغیرہ کو نئے سِرے سے بنانے کی بجائے، وہاں موجود لکڑی اور دیگر قدیم اشیاء کو استعمال میں لاتے ہوئے اس کا سابقہ حُسن بحال کیا جائے، یقیناً یہ ایک خاصا دشوار ٹاسک ہے، مگر اُمید ہے کہ ہم یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ہمیں عمارت کی بحالی کے کام میں ابتدائی طور پر کے۔ الیکٹرک کا تعاون حاصل رہا، مگر اب اپنے طور ہی پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جو انشا اللہ رواں برس نومبر تک مکمل کرلیا جائے گا۔‘‘ عمارت کی بحالی کے بعد اگلا منصوبہ کیا ہے؟ اس سوال پر یاسمین لاری کا کہنا تھا کہ’’ ہماری خواہش ہے کہ ڈینسو ہال کو کراچی پر تحقیق کا مرکز بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے یہاں کراچی سے متعلق تحقیقی ریکارڈ رکھا جانا چاہیے تاکہ محقّقین کو ایک چھت تَلے وہ سب کچھ مل جائے، جس کے لیے اُنھیں جگہ جگہ کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ اِس ضمن میں متعلقہ حکّام سے بھی رابطے کی کوشش ہے، تاکہ ڈینسو ہال کو تحقیقی مرکز بنانے میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوسکیں۔‘‘