حکومت کی جانب سے منشیات کی روک تھام کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر متعدد ادارے قائم ہیں ، جن پر منشیات کی اسمگلنگ ، خرید وفروخت کی روک تھام کی ذمہ داری عائد ہوتی ہےلیکن مذکورہ ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ثابت ہوئے ہیں اور انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ بننے والی نشہ آور اشیاء، گٹکا، پان پراگ،،سٹی، ون ٹو ون اوراسمگل شدہ و مقامی سطح پر تیار ہونے والے گٹکے کے نام پر کھلے عام فروخت ہورہی ہے،جس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، جس کے باعث اس گھنائونے کاروبار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ان اشیاء کے استعمال سے ہماری نوجوان نسل پر انتہائی بداثرات مرتب ہورہے ہیں اور وہ مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ان خطرناک مضر صحت نشہ آور مصنوعات کے استعمال سے منہ،حلق، گلے ، معدے کے کینسر سمیت دیگر بیماریاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں بچوں سے لے کر بڑی عمر تک کے مرد اس موذی نشے کے عادی ہونے کے بعد خطرناک امراض میں مبتلا ہوکر نہ صرف اپنی جانوں سے ہاتھ دھوکر نہ صرف خود دنیا سے چلے جاتے ہیں بلکہ اپنےزیرکفالت افراد اور عزیز و اقارب کو کو بھی جدائی کا دکھ دے جاتے ہیں۔ سابق آئی جی سندھ، اے ڈی خواجہ نے اس گھنائونے کاروبار کی روک تھام کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے اور تمام ضلعی پولیس افسران کو پابند کیا کہ وہ منشیات فروشوں اور اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کریں ۔ ان کے احکامات پر پولیس کی کارروائیوں کے بعد بڑی حد تک اس کاروبار میں کمی آئی، خاص طو رپر سکھر جو کہ ان نشہ آور مصنوعات کی بڑی منڈی بن چکا تھا، یہاں پولیس نے چند سالوں کے دوران بھرپور کریک ڈائون کئے اورمتعدد افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ اپریل 2018میں ایس ایس پی سکھر، امجد شیخ کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ کروڑوں روپے مالیت کی اسمگل شدہ نشہ آور منصوعات جن میںپان پراگ گٹکا شامل ہے ، چمن سے براستہ سکھر ،کراچی لے جائی جارہی ہیں جس پر ایک خصوصی پولیس پارٹی تشکیل دی گئی اور پہلی بار بھاری مقدار میں نشہ آور مصنوعات پکڑی گئیں جن میں 260بوریاںگٹکے کی شامل تھیں جن کی مالیت اڑھائی سے تین کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔
ماضی میں پولیس کے نشہ آور مصنوعات فروخت کرنے والوں خلاف بھرپور کریک ڈائون کے باعث اس مذموم کاروبار میں کمی آگئی تھی اور لوگوں میں اس کا استعمال بھی بڑی حد تک کم ہوگیا تھا لیکن ایک مرتبہ پھر سکھر نشہ آور مصنوعات خاص طور پراسمگل شدہ اور مقامی طور پر تیار ہونے والے گٹکے اور پان پراگ کی بڑی منڈی بن گیا ہے۔ یہ مصنوعات کوئٹہ سے ٹرین اور مسافر بسوں کے ذریعے سکھر لائی جاتی ہیں، جب کہ لاہور سے بھی بھاری مقدار میں گڈز ٹرانسپورٹ کے ذریعے سکھر کی منڈیوں میں پہنچائی جاتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مختلف شہروں کے لئے ریلوے کی بکنگ آفس یا گڈز ٹرانسپورٹ سے مصالحہ جات کے نام پر نشہ آوراشیاء بک کرائی جاتی ہیں، تاہم اس کی بکنگ میں متعلقہ عملہ مبینہ طور پر ملوث ہوتا ہے۔
ماضی میں کئی مثالیں ایسی ملتی ہیں جس کے دوران ڈسٹرکٹ پولیس اور ریلوے پولیس نے ٹرینوں میں بک کی گئی ان نشہ آور مصنوعات کے بوروں کی بڑی تعداد کو پکڑا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ریلوے کی ٹرینوں کے ذریعے بھی یہ نشہ آور مصنوعات مختلف شہروں میں بھیجی جاتی ہیں، سکھر اس وقت نشہ آور مضر صحت مصنوعات کی بڑی منڈی بن چکا ہے، جہاں کوئٹہ اور لاہور سے اسمگل شدہ نشہ آور مصنوعات لائی جاتی ہیں اور یہاں سے اندرون سندھ کے دیگر شہروں میں بھیجی جاتی ہیں۔ شہر کے وسط اور گنجان آبادی والے علاقوں نشتر روڈ، ریشم گلی، ڈھک روڈ، گھنٹہ گھر چوک، بیراج روڈ سمیت دیگر علاقوں میں ان نشہ آور مصنوعات کے تھوک بیوپاری روزانہ لاکھوں روپے مالیت کے گٹکے کے خرید وفروخت کررہے ہیں،اس کاروبار کی تھوک مارکیٹ، تھانہ بی سیکشن سےکے قریب جب کہ تھانہ اے سیکشن سے صرف چند گز کے فاصلے پر ہے، لیکن دونوں تھانوں کے پولیس حکام نے اس کاروبار کی جانب سے چشم پوشی اختیارکی ہوئی ہے۔
علی الصباح، مختلف مال بردار گاڑیوں میںیہ اشیاء اسمگل کرکے ہول سیل منڈی میں لائی جاتی ہیں جہاں سے ان کی ترسیل سندھ کے دیگر شہروں میں کی جاتی ہے۔، لاکھوں روپے مالیت کی نشہ آور اشیاء کا سکھر کی مارکیٹوں میں آنا اور یہاں سے مختلف شہروں میں ترسیل کرنا، محکمہ کسٹم ، انٹیلی جنس ، محکمہ ایکسائز ، پولیس سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔
اسمگل شدہ نشہ آور مصنوعات کے ساتھ ساتھ سکھر میں مقامی سطح پر زہریلا مضر صحت اور نشہ آور گٹکا گھروں میں تیار کیا جاتا ہے، پرانا سکھر، تیر چوک، نصرت کالونی سمیت بعض دیگر علاقوں میں خواتین اجرت لے کرگٹکے کی پیکنگ کرتی ہیں اور گھنٹہ گھر پان منڈی میں موجود ہول سیلر مقامی سطح پر تیار ہونے والا یہ گٹکا شہر کے تمام علاقوں کے پرچون فر وشوں، پان سگریٹ کے کھوکھوں، جنرل اسٹور سمیت مختلف دکانداروں کو فراہم کرتے ہیں جو کھلے عام یہ زہریلا نشہ آور فروخت کرتے ہیں۔ فوڈ لیبارٹری سکھر کے سابق انچارج ڈاکٹر عبدالخالق جتوئی کے مطابق گٹکا انتہائی خطرناک اور مضر صحت ہے۔ اس میں ممنوعہ اشیاء کے ساتھ ساتھ چونا کتھا، خراب چھالیہ اور کیمیکل بھی استعمال کیا جاتا ہے جس سے گلے اور معدے کے کینسر سمیت پیٹ کی دیگر بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہےجب کہ طبی ماہرین کے مطابق نشہ آور پان پراگ، گٹکے ، گلے، منہ کے کینسر کا باعث بنتے ہیں۔
یہ نشہ آور مصنوعات عام نشہ آور اشیاء سے بھی انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ یہ معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، ہماری نوجوان نسل ، ہمارا مستقبل اس نشے کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حکومت ، پولیس اور متعلقہ اداروں کی اس جانب خاطر خواہ توجہ نہ ہونے اور اس دھندے میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی نہ کئے جانے کے باعث اس دھندے میں دوبارہ تیزی سے اضافہ ہورہا ہے،نوجوان نسل کو تباہی سے دوچار کرنے والے اس نشہ آور ،ز ہریلی ،مضر صحت گٹکے کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ محکمہ کسٹم، کسٹم انٹیلی جنس ، پولیس افسران کی غفلت اور کوتاہی کا نوٹس لیں کہ ان کی موجودگی کے باوجود بھاری مقدار میں یہ اشیاء سیکڑوں کلویمٹر کا سفر کرکے سکھر کی منڈیوں تک کیسے پہنچتی ہیں؟۔شہری، عوامی، سماجی ، مذہبی حلقوں نے موجودہ آئی جی سندھ جناب امجد جاوید سلیمی سے اپیل کی ا ہے کہ اس گھنائونے دھندے کی روک تھام کے لئے ٹھوس بنیادوںپر اقدامات کئے جائیں اور تمام اضلاع خاص طور پر سکھرکے تمام پولیس افسران کو جرائم کے ساتھ ساتھ ان معاشرتی برائیوں کی بیخ کنی کا پابند بنایا جائے تاکہ نوجوان نسل کو تباہی سے بچایا جا سکے۔