• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاہی قلعہ لاہور . . .

قلعہ جس کے لغوی معانی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں، فوجی مقاصد یا شاہی رہائش گاہ کے لیے دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں کئی قلعے تعمیر ہوئے۔ مثلاً روہتاس، رانی کوٹ، قلعہ اٹک، قلعہ دراوڑ اور شاہی قلعہ لاہور وغیرہ۔ دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر ایک محفوظ مقام کواس قلعہ کے لیے منتخب کیا گیا، یہ دراصل ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا جولاہور شہر کی سطح سے کافی بلندتھا۔

قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔گو کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1556ء تا 1605ء) نے کروائی جبکہ اکبر کی آنے والی نسلیں بھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہٰذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

پہلے یہاں ایک کچا قلعہ ہوا کرتاتھا۔ 1566ء میںشہنشاہ اکبر نے اسے گرا کر اس جگہ نئے سرے سے ایک عالیشان پختہ قلعہ بنوایا،جس کی تعمیر میںرہائشی مقاصد کے ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ قلعہ کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370 میٹر ہے۔ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کی چنائی مٹی کے گارے سے کی گئی ہے۔ ان دیواروں پر بندوقچیوں کے لیے سوراخ ہیں،جن سے وہ محاصرہ کرنے والی فوج پر گرم پانی اور گولیاں برساستے تھے۔ اس کے آثار مشرقی دیوار میں اب تک موجود ہیں۔

قلعہ کا بیرونی حصہ پچی کاری کے نہایت ہی خوبصورت نمونوں سے مزین ہے ،جس پر جا بجا انسانوں، گھوڑوں اور ہاتھیوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔

قلعے کے اردگرد ایک اونچی فصیل ہے جس کے تین بڑے دروازے ہیں، ایک مشرق کی سمت، دوسرا جنوب کی سمت، اور تیسرا شمال مغرب کی جانب ہے۔ شمال مغربی دروازے سے بادشاہ اور بیگمات ہاتھی پر سوار ہو کر گزرتے تھے، اس دروازے پر شاہ جہاں کا نام بھی کندہ ہے۔ یہ دروازہ انگریزوں کے حکم پر بند کر دیا گیا تھا مگر 20نومبر 1949ءکو سابق گورنر پنجاب نے پورے تین سو سال بعد اسے دوبارہ کھلوادیا۔قلعے کے اندر ایک دیوان ہے جس کی چھت ستونوں کے سہارے کھڑی ہے، اسے دیوان عام کہتے ہیں۔ اس میں ایک جھروکا بنا ہوا ہے جہاں بیٹھ کر شاہ جہان رعایا کو اپنا دیدار کراتا تھا۔

دیوان خاص بادشاہ کا شاہی دربار تھا، جہاں وہ اپنے وزیروں مشیروں، شہزادوں اور دوسرے راجائوں مہاراجوں سے ملاقات کیا کرتا تھا اور سلطنت کے بارے میں صلاح مشورہ لیتا تھا۔ قلعے کے اندر ایک شیش محل ہے جو فن تعمیر اور فن نقاشی کا بہترین نمونہ ہے، اس کی دیواریں اور چھتیں رنگ برنگے شیشوں اور پچی کاری کے کام سے مزین ہیں، ان کی چمک دمک آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ اب بھی شیش محل کے کسی کمرے میں دیا سلائی روشن کی جائے تو تمام کمرہ جھلمل کرنے لگتا ہے، کہتے ہیں کہ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔

شیش محل کے قریب ہی موتی مسجد ہے، یہ بھی فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے، اسے جہانگیر نے شاہی بیگمات کے لیے تعمیر کروایا تھا تاکہ وہ اس مسجد میں باپردہ نماز ادا کر سکیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنےدورِ حکومت میں اس قلعہ پر قبضہ کیا تو اس نے موتی مسجد کا نام بدل کر ”موتی مندر“ رکھ دیا تھا، اگرچہ سکھوں نے مسجد سے قیمتی ہیرے جواہرات نکال کر اس کی خوبصورتی کو سخت نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود اس کی عظمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔

قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں بہت سی نادر اشیاءمحفوظ ہیں، بہت سی الماریوں میں پرانے زمانے کے اوزار، اسلحہ، تصویریں اور لباس وغیرہ بڑے قرینے سے سجائے گئے ہیں۔ اتنی مدت گذر جانے کے باوجود بھی ان چیزوں کی سج دھج اور شان و شوکت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

ملکی و غیر ملکی سیّاح ہر سال کثیر تعداد میںاس قلعہ کو دور دور سے دیکھنے آتے ہیں، خصوصاً طلباءکو ان کی دلچسپی کی کئی چیزیں یہاں مل سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ صرف بحیثیت طالب علم ہی یہاں آئیں ، اپنی فیملی کو لائیں اور اپنے بچوں کو بھی بتائیں کہ مغل بادشاہوںنے برصغیر پر کس شان و شوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی اور فن تعمیر پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین