اسلام آباد (ممتاز علوی) یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ تجربہ کار شاہ محمود قریشی ہی تھے جنہوں نے ہفتہ کو دو کامیابیاں حاصل کیں، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان گزشتہ کئی ہفتوں سے جن دو انتہائی متنازع ایشوزکی گرفت میں تھے۔ اگر شاہ محمود قریشی بروقت انٹراپارٹی الیکشن غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کرکے پارٹی آرگنائزرز کی اپنے عہدوں پر بحالی کے بجائے اس مسئلے کے حل کے لئے پینل کی تجویز نہ دیتے تو تحریک انصاف کو دور رس نتائج کا سامنا کرنا پڑتا۔ شاہ محمود قریشی نے بالکل آخری لمحات میں یہ تجویز دی ورنہ چیئرمین تحریک انصاف کی طرف سے انٹراپارٹی الیکشن کا التوا اور پارٹی آرگنائزرز کو اپنے عہدوں پر بحال کرنے کا اعلان متوقع تھا۔ پارٹی الیکشن کے حوالے سے عمران خان اورپارٹی کے الیکشن کمشنر کے درمیان جماعتی انتخابات کے طریقہ کار پر شدید اختلافات ہیں۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کی قیادت نے خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن ایکٹ میں ترامیم کی رپورٹس کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا تھا۔ عمران خان اور ان کی ٹیم صرف اپنا اور پارٹی کے دیگر تمام حلقوں اور یونین کونسلز کے صدور کا انتخاب چاہتے ہیں۔ دوسری طرف تسنیم نورانی کی سربراہی میں پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن پارٹی کے تمام عہدوں پرانتخابات کے لئے اصرار کرتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نامزدگیاں الیکشن کے تصور کو نقصان پہنچائیں گی۔ اگر تسنیم نورانی کو وہ طریقہ کاراپنانے پر مجبور کیا گیا جس کی انہوں نے سختی سے مخالفت کی تھی تو وہ اپنا کام روک سکتے ہیں۔ قریشی نے اس بات کی نشاندہی کی تھی پارٹی کے چیف الیکشن کمشنرکا استعفیٰ جماعت کے عام کارکن کے نزدیک اچھا نہیں ہوگا۔ پارٹی کے مخالفین خاص کر حکمراں ن لیگ جس نے کے پی کے احتساب سربراہ کے استعفیٰ پر پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، صورتحال کو بگاڑ سکتی ہے۔ پارٹی کے ایک سینئر رکن نے ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے بعض جو عمران خان کے قریب ہیں، کو یہ خوف لاحق ہے کہ براہ راست الیکشن کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن دوبارہ حاصل نہ سکیں۔ چنانچہ وہ انتخابات کے لئے صرف چیئرمین عمران خان اور صوبائی، ڈویژن، ضلع اور تحصیل کی سطح پر صدور کے عہدوں پر الیکشن چاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی تجویز پر حامد خان، اسد عمر، چوہدری سرور اور شاہ فرمان پر مشتمل کمیٹی قائم کردی گئی ہے جس کا اجلاس منگل کو ہوگا جس میں وہ اس ایشو کے حل کے لئے کوئی قابل عمل راستہ نکالنے پر غور کریں گے جس نے پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اگر بہت محدود الیکشن منعقد کئے گئے تو اس میں الیکشن کمیشن کا کردار مشکل ہی سے ہوگا پی ٹی آئی کے کئی افراد کا خیال ہے کہ یہ خالصتاً پارٹی کا استحقاق کہ وہ یہ ہدایت دے کہ انتخابات کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے۔ بنی گالا میں عمران خان کی طرف سے بلائے گئے ہنگامی اجلاس میں شریک ایک پارٹی ممبر نے اس نمائندے کو بتایا کہ صوبائی احتساب کمیشن میں تبدیلیوں کے نتیجے میں اس کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان کے استعفے کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس ایکٹ میں ترامیم بے رحم احتساب کے ہمارے پالیسی موقف کے بالکل برعکس ہے جس کی بنیاد پر ہم سندھ حکومت کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور اب ہم نے خود ہی اپنے احتساب قانون میں تبدیلی کردی ہے۔ اجلاس کے دوران قریشی کی طرف سے ایک خط کی نقول بھی شرکاء میں تقسیم کی گئیں جس میں کہا گیا تھا کہ احتساب ایکٹ میں ترامیم نے پارٹی کے نظریئے، ویژن اور کرپشن کے خلاف اس کے بیانیئے کو مجروح کیا ہے۔ پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما سیف اللہ نیازی نے پوچھا کہ صوبائی اسمبلی کے سیشن کے اجلاس کے انتظار کے بجائے ایک آرڈیننس کیوں نافذ کیا گیا؟ خیبر پختونخوا کے وزیر شاہ فرمان کے سوا کسی نے اس کا جواب نہ دیا جن کا کہنا تھا کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ آخر میں ترامیم پر نظرثانی کے لئے ماہرین پرمشتمل ایک پینل بنانے اور اس آرڈیننس کوممکنہ طور پر اسمبلی میں لے جانے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں انٹراپارٹی الیکشن اور خیبرپختونخوا احتساب ایکٹ میں ترامیم پر بحث کی گئی۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق نے اس نمائندے کے رابطہ کرنے پردرج بالا تفصیلات کی تائید کی ہے۔