میں سوچ رہا ہوں خوسے موجیکا کو پاکستان کا ایک دورہ ضرور کرنا چاہئے بلکہ ان کی اہلیہ لوسیا کو بھی ضرور پاکستان آنا چاہئے۔ ان کی حرکات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں علاج کی شدید ضرورت ہے اور اگر وہ فیس ادا کر سکیں تو ڈاکٹر فزیشن آصف علی زرداری نیورولوجسٹ میاں نواز شریف، فزیوتھراپسٹ عمران خان اور روحانی علاج کے لئے مولانا فضل الرحمن اور منور حسن سے رجوع کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے خوسے موجیکا یوراگوئے کے صدر ہیں اور انہیں یہ صدر امریکہ نے بنایا ہے نہ آئی ایم ایف نے اور نہ ہی ورلڈ بینک نے۔ وہ خاکی وردی اور بھاری بوٹ پہن کر بھی صدر نہیں بنیں ہیں انہیں ان کی عوام نے منتخب کیا ہے۔ بھلا ہے کوئی بات یہ مسٹر موجیکا اپنی تنخواہ (12500) کانوے فیصد خیراتی اداروں میں بانٹ دیتے ہیں اور باقی رقم جو پاکستانی 90,80 ہزار بنتی ہے میں اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ وہ تو ہیں ہی اللہ ماشاء اللہ ان کی اہلیہ لوسیا جو خود بھی سنیٹر ہیں ان سے دو ہاتھ آگے ہیں اور وہ بھی اپنی ساری تنخواہ غریبوں میں تقسیم کر دیتی ہیں لگتا ہے انہیں پروفیسر زرداری ڈاکٹر نواز شریف سے سیاست سیکھنی پڑے گی انہیں سیکھنا پڑے گا کہ غریبوں کی دلجوئی کیسے کی جاتی ہے۔ انہیں بلاول ہاؤس اور رائیونڈ محل میں قیام کرانا بہت ضروری ہو گیا ہے تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ غریبوں کے غم میں کیسے زندگی بسر کی جاتی ہے۔ یورا گوئے کا یہ حکمران جوڑا ایک کچے مکان میں رہتا ہے جس کے آگے میلوں پھیلا لان ہے نہ شاندار سوئمنگ پول وسیع و عریض بیڈ رومز ہیں نہ جہازی سائز ڈرائنگ روم یہ جوڑا اپنے گھر کھانا خود تیار کرتا ہے اور ایک سادہ سی لکڑی کی میز پر بیٹھ کر کھا بھی لیتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ جب وہ پاکستان کا دورہ کریں گے تو انہیں معلوم ہو گا کہ عوام کے حقیقی راہنما کیسے ہوتے ہیں۔ سرے محل، رائیونڈ فارمز اور اسلام آباد کی پہاڑیوں پر بنی خوبصورت جھگی دیکھ کر وہ تو شرم سے پانی پانی ہو جائیں گے کہ انہیں عوام سے بے لوث محبت کا یہ انداز معلوم ہی نہیں تھا۔ ان کے دماغ کی درستگی کے لئے فقط چند راہنماؤں کے بینک اکاؤنٹس دکھا دینے ہی کافی ہوں گے خوسے موجیکا اور ان کی اہلیہ کی کل جائیداد ایک پچاس سال پرانی کار ہے جس کی قیمت اتنی ہے جتنے میں ایک عام پاکستانی ایک موٹر سائیکل خرید سکے۔
یورا گوئے کا یہ حکمران جوڑا نہ جانے کونسی دنیا کا باسی لگتا ہے نہ جانے وہ کیسے حکمران ہیں نہ جانے وہ کیسے رہنما ہیں کہ جن کا نہ کوئی بینک اکاؤنٹس ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی بینک سے قرضہ لیا ہے۔ میں تو صاف کہوں گا کہ وہ ایک ناکام سیاستدان ایک نااہل حکمران اور ایک بدترین انسان ہیں۔ اگر انہوں نے دنیا میں عزت پانی ہے تو پاکستانی سیاستدانوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ 12500 تنخواہ کو ایک طرف رکھ کر 12 کروڑ ڈالروں کے پیچھے بھاگنا ہو گا۔ برٹش اور سوئس اکاؤنٹس بنانے ہوں گے کک بیگز لینی ہوں گی اپنی فانڈریاں اور کارخانے چلانے کے لئے کروڑوں کے قرضے لینے ہوں گے اور پھر انہیں دیوالیہ ظاہر کر کے معاف بھی کروانے ہوں گے۔ انہیں ایک سے ہزار کا کرنے کا فن آنا ہو گا ہر ادارے کو باپ کی جاگیر سمجھ کر تباہ کرنے کا ہنر آنا ہو گا انتخابات پر کروڑوں روپے خرچنے اور پھر ان کروڑوں کو اربوں روپے کی شکل میں واپس لینے کا آرٹ آنا ہو گا۔ وہ ایک کچے مکان میں رہ کر خود کو بہت طرم خاں سمجھتے ہیں انہیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ حکمران اور راہنما وہ ہوتا ہے جس کے محلوں سے کئی میل پہلے پولیس کے ناکے شروع ہو جائیں اور ان کے گھروں تک چڑیا بھی پر نہ مار سکے جس فوکسی گاڑی میں وہ بڑے اتراتے پھرتے ہیں انہیں یہ جاننا ہو گا کہ غریبوں کے بے تاج بادشاہوں کے کتے بھی اس میں سفر کرنا پسند نہیں کرتے لگتا ہے انہیں پروٹوکول اور پروٹوکول کے نام پر سڑکیں بند کر کے عوام کو اذیت دینے کے لطف کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ انہیں دیکھنا ہو گا کہ کیسے پاکستان کے محب وطن سیاستدان اور حکمران کروڑوں کی بلٹ پروف گاڑیوں میں عوام کی حفاظت کرتے پھر رہے ہیں۔ عوام بم دھماکوں ٹارگٹ کلروں کی گولیوں بھتہ خوروں کے خونی پنجوں بھوک اور ننگ سے مر رہی ہے اور پاکستان کے موجیکا موجیں کرتے پھر رہے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی حکمرانی ہوئی کہ خوسے موجیکا اور ان کی اہلیہ سنیٹر لوسیا سارا دن کام کرتے ہیں اپنے سرکاری فرائض انجام دیتے ہیں اور شام کو ایک کچے مکان میں سکیورٹی گارڈز کے بغیر خراٹے لیتے ہیں۔ لگتا ہے انہیں اپنی عوام سے کوئی محبت نہیں ورنہ حق کا تقاضا تو یہ ہے کہ انہیں اپنے ملک کی تمام ایجنسیوں کو پولیس فورس کو اور اگر تب بھی سکون نہ ملے تو غنڈوں کی شکلوں والے پرائیویٹ گارڈز کو اپنے گرد ایک ڈھال کی طرح کھڑا کر دینا چاہئے تاکہ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کو اگر آسان ٹارگٹ کی ضرورت پڑے تو وہ اپنی پیاری عوام کی طرف رخ کر سکیں۔ موجیکا نے خاک سیاست کرنی ہے ان کا تو اپنا گھر بارش میں ٹپکنے لگتا ہے۔ وہ ڈیرے داری کیا کریں گے انہیں کیا پتہ کہ ڈیروں پر مفروروں، قاتلوں کو پناہ دینے کا کتنا ثواب ملتا ہے انہیں چوہدریوں، وڈیروں، جاگیرداروں سے خدمت خلق کا یہ سبق سیکھنا ہو گا مجھے تو دکھ سنیٹر لوسیا پر ہے کہ وہ کیسی خاتون اول ہیں جو نہ کروڑوں کا نیکلس خریدتی ہیں نہ ہیروں سے مزین جوتیاں پہنتی ہیں نہ ہوش روبا شاپنگز کرتی ہیں قیمتی پوشاکیں خریدتی ہیں نہ منوں کے حساب سے جیولری۔ لگتا ہے لوسیا ایک مکمل خاتون نہیں ہیں انہیں ایک درد مند نیک سیرت خاتون اول بننے کے لئے پاکستان کی تمام اعلیٰ طبقے کی خواتین کا جائزہ لینا ہو گا۔ انہیں بڑے بڑے غیر ملکی شاپنگز آرکیڈز میں ”گواچی گاں“ کی طرح پھرنا ہو گا اور اپنے ساتھ سامان اٹھانے کیلئے ملازموں کی ایک فوج ظفر موج رکھنا ہو گی۔ یہ بھی کیا بات ہوئی کہ رہنا بھی خاتون اول اور حرکتیں پاکستان کی بدنصیب مجبور بے بس دکھیاری ماؤں جیسی کرنی۔
بقول موجیکا وہ اپنی صدارتی ٹرم پوری کر کے باقی زندگی اپنے گھر پر گزارنا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے انہیں آئین کے ساتھ کھیلنے والے جادوگروں کی خدمات میسر نہیں انہیں پاکستان کے عظیم رہنماؤں سے سبق سیکھنا ہو گا کہ کیسے اپنے اقتدار کو دوام بخشا جاتا ہے۔ کیسے ضمیروں کے سودے کئے جاتے ہیں کیسے ملکی مفادات کو اپنی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ کیسے اقتدار کی کرسی پر جمے رہنے کے لئے آئین کو ٹھوکریں ماری جاتی ہیں افسوس اس جوڑے کو تو کچھ بھی نہیں پتہ۔ حیرت ہے یورا گوئے کا یہ حکمران جوڑا پچاس سالہ پرانی فوکسی کار ایک کچے مکان اور اتنی تھوڑی تنخواہ کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ایک ایسی ہی باعزت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ شاید انہیں عزت کے مفہوم کا اندازہ نہیں ہے۔ اگر عزت دیکھنی ہو تو پاکستانی حکمرانوں کی زندگی کا ضرور مطالعہ کریں۔ انہیں اندازہ ہو گا کہ لوٹ مار، رشوت کک بیگز قرضوں کی معافی ٹیکس میں گھپلے ہیرے سونے جواہرات کی حرص تجوریاں بھرنے کی خواہش کے سامنے لفظ عزت ایک حقیر اور بے معانی چیز ہے۔ یہاں تو غریبوں کے رہنما اپنی حرص میں اتنے اندھے ہوتے ہیں کہ نہ انہیں بھوک سے بلگتے بچوں کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے نہ بم دھماکوں میں مر جانے والوں کی بیواؤں، دکھیاری ماؤں کی فریاد سنائی دیتی ہے۔ موجیکا اور لوسیا بہت خوش قسمت ہیں کہ صبح ہونے سے رات ہونے تک کروڑوں مجبوروں کی بددعائیں ان کا پیچھا نہیں کرتیں 12500 ڈالر میں انہوں نے آسودگی خرید لی ہے جو شاید ہمارے حکمرانوں رہنماؤں کو ان کے اربوں کے بینک اکاؤنٹس نہیں دے پا رہے میں فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں گھاٹے کا سودا کون کر رہا ہے۔