• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوئے مر کے ہم جو رسوا

مشتاق احمد یوسفی

مجھے چہلم میں بھی شرکت کا اتفاق ہوا، لیکن سوائے ایک نیک طینت مولوی صاحب کے ،جوپلاؤکے چاولوں کی لمبائی اورگلاوٹ کومرحوم کے ٹھیٹ جنّتی ہونے کی نشانی قراردے رہے تھے، بقیہ حضرات کی گل افشانیِ گفتارکاوہی انداز تھا، وہی جگ جگے تھے، وہی چہچہے!

ایک بزرگوار، جو نان قورمے کے ہرآتشیں لقمے کے بعد آدھا آدھا گلاس پانی پی کر قبل ازوقت سیر، بلکہ سیراب ہوگئے تھے، منہ لال کر کے بولے کہ مرحوم کی اولاد نہایت ناخلف نکلی۔ مرحوم و مغفور شدومد سے وصیت فرماگئے تھےکہ میری مٹی بغداد لے جائی جائے، لیکن نافرمان اولاد نے ان کی آخری خواہش کا ذرا پاس نہ کیا۔اس پرایک منہ پھٹ پڑوسی بول اٹھے، ”صاحب! یہ مرحوم کی سراسر زیادتی تھی کہ انہوں نے خود تو تادِم مرگ میونسپل حدود سے قدم باہر نہیں نکالا، حد یہ کہ پاسپورٹ تک نہیں بنوایا۔ “

ایک وکیل صاحب نے قانونی موشگافی کی،“بین الاقوامی قانون کے بموجب، پاسپورٹ کی شرط صرف زندوں کے لیے ہے، مُردے، پاسپورٹ کے بغیر بھی جہاں چاہیں، جا سکتے ہیں۔ “

”لے جائے جاسکتے ہیں“مرزاپھرلقمہ دے گئے۔

”میں کہہ رہا تھا کہ یوں تو ہر مرنے والے کے سینے میں یہ خواہش سلگتی رہتی ہے کہ میرا کانسی کا مجسّمہ(جسے قدِ آدم بنانے کے لیے بسا اوقات اپنی طرف سے پورے ایک فٹ کا اضافہ کرنا پڑتا ہے ) میونسپل پارک کے بیچوں بیچ ایستادہ کیا جائے ۔ “

”اورجملہ نازنینانِ شہر،چارمہینے دس دن تک میرے لاشے کو گود میں لیے، بال بکھرائے بیٹھی رہیں“مرزا نے دوسرا مصرع لگایا۔

ہوئے مر کے ہم جو رسوا

”مگر صاحب! وصّیتوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ چھٹپن کا قصّہ ہے۔ پیپل والی حویلی کے پاس ایک جھونپڑی میں ایک افیمی رہتا تھا۔ ہمارے محتاط اندازے کے مطابق عمر 66 سال سے کسی طرح کم نہ ہوگی، اس لیے کہ خود کہتا تھا کہ پینسٹھ سال سے تو افیم کھا رہاہوں۔ چوبیس گھنٹے انٹاغفیل رہتا تھا، ذرانشہ ٹوٹتا تومغموم ہوجاتا۔ غم یہ تھا کہ دنیا سے بے اولادجارہا ہوں۔ اللہ نے کوئی اولاد ِدیرینہ نہ دی جو اس کی بان کی چارپائی کی جائز وارث بن سکے! اس کے متعلق محلے میں مشہور تھا کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے نہیں نہایا ہے۔ اس کو اتنا تو ہم نے بھی کہتے سنا کہ خدا نے پانی صرف پینے کے لیے بنایا تھا ،مگر انسان بڑا ظالم ہے۔

’’راحتیں اوربھی ہیں غُسل کی راحت کے سوا‘‘

ہاں تو صاحب! جب اس کا دم آخر ہونے لگا تو محلے کی مسجد کے امام کا ہاتھ اپنے ڈوبتے دل پر رکھ کر یہ قول و قرار کیا کہ میری میت کو غسل نہ دیا جائے، بس پولے پولے ہاتھوں سے تیمّم کراکے کفنا دیا جائے، ورنہ حشر میں دامن گیر ر ہوں گا۔ “

وکیل صاحب نے تائید کرتے ہوئے فرمایا، ”اکثر مرنے والے اپنے کرنے کے کام پسماند گان کو سونپ کرٹھنڈے ٹھنڈے سدھارجاتے ہیں۔ پچھلی گرمیوں میں دیوانی عدالتیں بند ہونے سے چند یوم قبل ایک مقامی شاعر کا انتقال ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے جیتے جی کسی فلمی رسالے نے بھی ان کی عُریاں نظموں کو شمندۂ طباعت نہ کیا، لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ مرحوم اپنے بھتیجے کو ایصالِ ثواب کی یہ راہ سُجھا گئے کہ بعد مُردن میرا کلام حنائی کاغذ پر چھپوا کر سال کے سال میری برسی پر فقیروں اور مدیروں کو بلا ہدیہ تقسیم کیا جائے۔

پڑوسی کی ہمت اور بڑھی ”اب مرحوم ہی کو دیکھیے۔ زندگی میں ہی ایک قطعۂ اراضی اپنی قبر کے لیے بڑے ارمانوں سے رجسٹری کرالیا تھا ،گوکہ بچارے اس کا قبضہ پورے بارہ سال بعد لے پائے۔ نصیحتوں اور وصیتوں کا یہ عالم تھا کہ موت سے دس سال پیشتر اپنے نواسوں کے، ایک فہرست حوالے کردی تھی، جس میں نام بنام لکھا تھا کہ فلاں ولد فلاں کو میرا منہ نہ دکھایا جائے۔ (جن حضرات سے زیادہ آزردہ خاطر تھے، ان کے نام کے آگے ولدیت نہیں لکھی تھی۔ )تیسری شادی کے بعد انہیں اس کا طویل ضمیمہ مرتب کرنا پڑا، جس میں تمام جوان پڑوسیوں کے نام شامل تھے۔ “

”ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ مرحوم نہ صرف اپنے جنازے میں شرکا کی تعداد متعین کرگئے، بلکہ آج کے چہلم کا ’مینو‘بھی خود ہی طے فرما گئے تھے۔ “وکیل نے خاکے میں شوخ رنگ بھرا۔

اس نازک مرحلے پرخشخشی داڑھی والے بزرگ نے پلاؤسے سیر ہو کراپنے شکم پرہاتھ پھیرا اور‘مینو‘کی تائید وتوصیف میں ایک مسلسل ڈکارداغی، جس کے اختتام پراس معصوم حسرت کا اظہار فرمایا کہ کاش !آج مرحوم زندہ ہوتے تویہ انتظامات دیکھ کر کتنے خوش ہوتے!

اب پڑوسی نے تیغ ِزبان کو بے نیام کیا ”مرحوم سداسے سُوء ہضم کے مریض تھے۔ غذا تو غذا، بچارے کے پیٹ میں بات تک نہیں ٹہرتی تھی۔ چٹ پٹی چیزوں کو ترستے ہی مرے۔ میرے گھر میں سے بتا رہی تھیں کہ ایک دفعہ ملیرےِ میں سرسام ہوگیا اور لگے بہکنے۔ بار بار اپنا سرمنجھلی کے زانو پر پٹختے اور سہاگ کی قسم دلا کر یہ وصیت کرتے تھے کہ ہر جمعرات کو میری فاتحہ، چاٹ اور کنواری بکری کی سری پر دلوائی جائے۔ “

مرزا پھڑک ہی توگئے۔ ہونٹ پرزبان پھیرتے ہوئے بولے ”صاحب! وصیتوں کی کوئی حد نہیں، ہمارے محلے میں ڈیڑھ پونے دو سال پہلے ایک اسکول ماسٹر کا انتقال ہوا، جنھیں میں نے عید بقرعید پر بھی سالم و ثابت پاجامہ پہنے نہیں دیکھا، مگر مرنے سے پہلے وہ بھی اپنے لڑکے کو ہدایت کر گئے کہ

پُل بنا، چاہ بنا، مسجدوتالاب بنا!

لیکن حضورابّا کی آخری وصیت کے مطابق فیض کے اسباب بنانے میں لڑکے کی مفلسی کے علاوہ ملک کا قانون بھی مزاحم ہوا۔ “

”یعنی کیا؟ “ وکیل صاحب کے کان کھڑے ہوئے۔

”یعنی یہ کہ آج کل پُل بنانے کی اجازت صرف پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کو ہے،اور بالفرضِ محال کراچی میں چار فٹ گہرا کنواں کھود بھی لیا تو پولیس اس کا کھاری کیچڑ پینے والوں کا چالان اقدام خودکشی میں کردے گی۔ یوں بھی پھٹیچر سے پھٹیچر قصبے میں آج کل کنویں صرف ایسے ویسے موقعوں پر ڈوب مرنے کے لیے کام آتے ہیں۔ رہے تالاب، توحضور! لے دے کے ان کا یہ مصرف رہ گیا ہے کہ دن بھر ان میں گاؤں کی بھینسیں نہائیں اورصبح جیسی آئی تھیں، اس سے کہں زیادہ گندی ہو کر چراغ جلے، باڑے میں پہنچیں۔ “

خدا خدا کرکے یہ مکالمہ ختم ہوا تو پٹاخوں کا سلسلہ شروع ہوگیا,”مرحوم نے کچھ چھوڑا بھی؟ “

”بچے چھوڑے ہیں!“

”مگردوسرا مکان بھی تو ہے۔ “

”اس کے کرایے کو اپنے مرزا کی سالانہ مرمت سفیدی کے لیے وقت کرگئے ہیں۔ “

”پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ بیاہتا بیوی کے لیے ایک انگوٹھی بھی چھوڑی ہے، اگر اس کا نگینہ اصلی ہوتا تو کسی طرح بیس ہزار سے کم کی نہیں تھی۔ “

”توکیا نگینہ جھوٹا ہے؟ “

”جی نہیں۔ اصلی ایمی ٹیشن ہے! “

”اوروہ پچاس ہزارکی انشورنس پالیسی کیا ہوئی؟ “

”وہ پہلے ہی منجھلی کے مہر میں لکھ چکے تھے۔ “

”اس کے بارے میں یار لوگوں نے لطیفہ گھڑرکھا ہے کہ منجھلی بیوہ کہتی ہے کہ سرتاج کے بغیرزندگی اجیرن ہے، اگر کوئی ان کو دوبارہ زندہ کردے تو میں بہ خوشی دس ہزار لوٹانے پرتیارہوں۔ “

”مرحوم اگرایسا کرتے ہیں تو بالکل ٹھیک کرتے ہیں۔ ابھی توان کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہوگا، مگر سننے میں آیا ہے کہ منجھلی نے رنگے چنے دوپٹے اوڑھنے شروع کردئیے ہیں۔ “

”اگر منجھلی ایسا کرتی ہے تو بالکل ٹھیک کرتی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ایک زمانے میں لکھنؤ کے نچلے طبقے میں یہ رواج تھا کہ چالیسویں پرنہ صرف انواع و اقسام کے، پرتکلف کھانوں کا اہتمام کیا جاتا، بلکہ بیوہ بھی سولہ سنگھارکرکے بیٹھتی تھی ،تاکہ مرحوم کی ترسی ہوئی روح کماحقہ مطمئن ہوسکے،’’مرزا نے ’ح‘ اور‘ ع‘صحیح مخرج سے ادا کرتے ہوئے مَرے پر آخری دُرّہ لگایا۔

واپسی پر راستے میں ،میں نے مرزا کو آڑے ہاتھوں لیا“جمعہ کو تم نے وعظ نہیں سنا؟ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ مَرے ہوئے لوگوں کا ذکر کرو تو اچھائی کے ساتھ۔ موت کو نہ بھولو کہ ایک نہ ایک دن سب کو آنی ہے۔ “

سڑک پار کرتے کرتے ایک دم بیچ میں اکڑ کر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا ”اگر کوئی مولوی یہ ذمّہ لے لے کہ مرنے کے بعد میرے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ لکھا جائے گا تو آج ہی۔ اِسی وقت، اِسی جگہ مرنے کے لیے تیاّرہوں۔ تمہاری جان کی قسم!“

آخری فقرہ مرزا نے ایک بے صبری کار کے بمپر پر تقریباً اکڑوں بیٹھ کر جاتے ہوئے ادا کیا۔

تازہ ترین