• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرعمران خان کےسب سےبڑےسیاسی مخالف نوازشریف 13جولائی کوپی ایم ایل(ن) کےحق میں حالات نہیں بدلتےتوعمران خان کےپاس انتخابات 2018کوجیتنےکایہ بہترین موقع ہو گا۔ عمران خان اپنےمخالف کوان حالات تک لے جانےکاکریڈٹ لےسکتےہیں جہاں وہ نہ صرف نااہل ہوچکےہیں بلکہ مجازعدالت نےانھیں سزابھی سنادی ہے۔کیاقیدی نوازشریف وزیراعظم نواز شریف کے مقا بلےمیں زیادہ خطرناک ہوسکتےہیں؟ 13جولائی کےنتائج یا اثرات اور 25جولائی کےبعدکےحالات سےقطع نظر،ا نتخا با ت میں عمران کی جیت کے اچھے امکا نا ت ہیں۔ پی ایم ایل(ن)کتنی اچھی یابری کارکردگی دکھائےگی اس کاا نحصار بھی بعد میں رونما ہونے والے واقعات پرہوگا۔ عمران کے پاس بہترموقع ہےکیونکہ ان کے دیگر سیاسی مخالف آصف زرداری اور پی پی پی بھی کم مقبول ہیں جبکہ ایم کیوایم کےختم ہونےسے بھی ان کی پارٹی کو خلا پُرکرنےکیلئےکافی زیادہ جگہ ملی ہے۔ وہ یہ کرسکتے ہیں یا نہیں اس کاانحصاران کےکام اورحیثیت پرہے۔ لہذاان کیلئےسٹیج سج چکاہےاوراس سےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کےنقادکیاکہتےہیں حقیقت یہ ہےکہ گزشتہ 10سالہ سیاست اورپچھلی دوپارٹیوں پی پی پی اورپی ایم ایل (ن)کی سیاست نےپی ٹی آئی تیسر ے متبا د ل کےطورپرابھاراہے۔ یہ پی پی پی کا سانحہ تھاکہ وہ بے نظیر بھٹوکے قتل سے نکل نہ سکی اور یہ عمران خان تھے نہ کے آصف زرداری جنھوں نے نواز شریف کے مرکزی سیاسی مخالف کی حیثیت اختیار کی۔ پی پی پی نےالیکشن 2013کابھی غلط اندازہ لگایا کیونکہ اس کا ووٹ بینک پی پی پی سے پی ٹی آئی کو منتقل ہوگیا، اوراپنے پانچ سالہ دور کےدوران وہ ’دیوار پرلکھا‘ دیکھ نہیں سکے جس طرح یہ سب ان کی پنجاب میں سیاست سے نظر آرہاتھا۔ یہ درست ہےیاغلط، وہ خود کو بچانےکیلئےاپنافرینڈلی اپوزیشن کاٹیگ ختم نہ کرسکے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان نے پی ایم ایل(ن) حکومت کو اس کی پانچ سالہ مدت کے دوران سخت اپوزیشن کاسامنا کرایا۔ 2014سے 2016تک نواز شریف حالات سے غلط طورسے نمٹے جس کےباعث ایسے حالات پیدا ہوئے ایک جانب عمران خان نے اپنی اپوزیشن جاری رکھی اور دوسری جانب شریف نےزرداری اور پی پی پی کا اعتماد اور یقین کھودیا۔ یہ سب عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت میں گیا۔ کیونکہ پہلی بار انھوں نے کے پی میں حکومت بنالی، تنقیدکےباوجود ان کی حکومت کا کوئی بڑامالی سکینڈل منظرعام پرنہیں آیا۔ اپریل 2016 اہم موڑ تھا جب چند دنیا بھر کےبڑےناموں کی آف شورکمپنیوں کےبارے میں ’پانامہ لیکس‘ خبروں کی زینت بنی ان میں کچھ ریاستوں کے سربراہان بھی شامل تھے۔ انہی میں میں نواز شریف کےبچوں کانام بھی تھا۔ اس سےعمران کونئی زندگی ملی جوالیکشن 2013 میں دھاندلی پربنےجوڈیشل کمیشن کےبعد سےکم ہوگئے تھے کیونکہ کمیشن نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی اورنواز شریف کے دعویٰ کوجائز قراردیاتھا۔ انھوں نےکبھی واپس مُڑکرنہیں دیکھااور نواز شریف خود’جال‘ میں پھنس گئے۔ اپنے خود باہر نکال سکتے تھے۔ اول، اگروہ استعفیٰ دےدیتے، اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئےیا اپوزیشن اور پی پی پی کی بات مان کر پارلیمنٹ کا رخ کرلیتے۔ اپریل 2016سے28جولائی 2017تک ہونےوالے واقعات جب سپریم کورٹ کےلارجربنچ نے انھیں انتخابی سیاست سےتاحیات نااہل کردیا، اس سے عمران خان کو حقیقی ابھارملا۔ یہ وہ وقت تھاجب شریف نے نافرمانی والا راستہ اختیار کیا لیکن بالآخرقانونی جنگ ہار گئے اور گزشتہ ہفتےمجرم قرارپائے۔ ان کے ’بیانیے ‘کےدوران نکئی دیگر حلقے بدل گئے، یہ سب بلوچستان بحران، چیئرمین سینٹ الیکشن اور پی ایم ایل(ن) سےالیکٹیبلز کی علحیدگی کی وجہ بنا۔ 2002تک سیاست اور اکثریت میں عمران خان کا پاکستان کے سیاسی میدان میں کوئی وجود نہیں تھا، وہ اسے سیاست میں ناکامی مانتے تھے۔ 1997میں پاکستان تحریک انصاف بننے کے ایک سال بعد ہی الیکشن لڑنے کاان کا فیصلہ ایک تباہی تھا۔ انھیں خود تمام حلقوں سےذلت آمیزشکست ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کرکٹ اور سیاست دونوں میں اپنے آغاز میں ہی ناکام ہوئےتھے، وقت گزر نے کےساتھ ساتھ انھیں کامیابی اور عروج ملا۔ کرکٹ چھوڑنے کے بعد انھوں نے زیادہ وقت شوکت کانم کینسرہسپتال کودیا جو ان کی والدہ کے نام پربناہے کیونکہ 1992میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتنےوالی ٹیم کاکپتان ہونےکےناطے انھیں تمام حلقوں سےبہت اچھا ردعمل اور عطیات ملے۔ جبکہ عمران خان کو ابھی بھی یاد نہیں ہے لیکن 14است 1993میں ہی کچھ حلقوں نے ’اچھےلوگوں‘ کی ایک پارٹی پرکام شروع کردیاتھا۔ انورکاظمی کے مطابق جو ایدھی ٹرسٹ فائونڈیشن کے ملازم تھے، ان کے مطابق یہ آئی ایس آئی کے سابق سر بر اہ جنرل حمید گل تھے جنھوں نےمرحوم مولانا عبدا لستارایدھی اور عمران خان کو اپنےپارٹی کے ایجنڈےکی حمایت کرنے کاکہاتھا، جو ایسے لوگوں پر مشتمل ہوجن کی ساکھ اچھی ہے۔ گل بے نظیراور نواز شریف دونوں سے ہی نالاں تھے۔ تاہم عمران خان کی جانب سے حمایت ملنےکےبعد انھوں نے خودکودوررکھا۔ 1996میں زمان پارک میں تقریباً15لوگوں نے پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی۔ لیکن پارٹی زیادہ کچھ نہ کرسکی کیونکہ لوگ انھیں سننے کی بجائے صرف عمران خان کو دیکھنے آتے تھے۔ پہلی شکست کے بعد انھوں نے میانوالی سے 2002میں اپنی سیٹ جیت لی جو ان کا اپنا شہر تھا۔ انھوں نے1992سے2002تک جنرل مشرف کی حمایت کی لیکن جب انھیں پتہ لگا کہ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہےتوبعد میں پیچھے ہٹ گئے۔ 2008میں ان کی پارٹی پی ایم ایل(ن) اور جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کا حصہ تھی اور انھوں نے مشرف کے ماتحت ہونے والے انتخا با ت کا بائیکاٹ کیا۔ 2011تک پی ٹی آئی ایک حقیقی طاقت بن کر ابھری اور اس وقت تک ان کی سیاست سٹیٹ کی بنیاد پر نہیں تھی۔ 2013کےنتائج پی ٹی آئی کیلئے اچھے ثابت ہوئے اور اس نےجےآئی کی مددسےکےپی میں حکومت بنالی۔ پی ٹی آئی 1997سے آگے بڑھ رہی ہے لیکن اس بار انتخابات جیتنے او ر مر کز میں حکومت بنانےکاان کےپاس اچھا موقع ہے۔ اگروہ جیت جاتے ہیں تو یہ عمران خان کیلئے ایک خواب پورا ہونے کے برابر ہوگا۔ یہ عمران خان کےپاس وزیراعظم بننےکابہترین اورغالباًآخری موقع ہے انھیں صرف آخری رکاوٹ ہٹانی ہےجو نااہلیت اور سزاکےباوجود ابھی تک نواز شریف ہیں۔

تازہ ترین