• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال نے کہا تھا:
اللہ کا ہاتھ ہے بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین، کار کشا، کار ساز
یہ اور بات ہے کہ انسان کے بندۂ مومن بننے اور اس کے ہاتھ میں مشیت ایزدی کی مدد منتقل ہونے تک کا سفر ایک عجیب سفر ہے۔ یہ اتنا طویل نہیں مگر اس پر رواں ہونے کے لئے وقت درکار ہے۔ وہ وقت ایک لمحہ بھی ہو سکتا ہے اور کئی دہائیاں بھی کیونکہ اس کا تعلق فیصلہ لینے سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں عمل سے زیادہ قوت فیصلہ اہمیت رکھتی ہے۔ ایک ایسا فیصلہ جسے حیات کا منشور بنا لیا جائے اور تمام عمر اس پر یوں عمل کیا جائے کہ اس کے برعکس خیال بھی ذہن میں داخل نہ ہو سکے۔ ارادہ کرنے کی قوت فیصلہ کرنے اور اس پر قائم رہنے کی مرہونِ منت ہے۔ جب ایک بار انسان درست ٹریک پر گامزن ہو جائے تو پھر زندگی اپنی تمام مہربانیاں اس کے راستے پر نچھاور کرتی رہتی ہے۔ سوچ اور توقع سے ماورا کامیابیوں کے وسیلے رہنمائی کے پلے کارڈ اٹھائے استقبال کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ آج میڈیکل کے حوالے سے ایک شخص ڈاکٹر پرویز چوہدری کا نام پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں گردش کررہا ہے۔ ان کے کارنامے بتانے سے قبل ضروری محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ پرویز چوہدری ہیں کون اور اس منزل تک کیسے پہنچے؟ بات کچھ یوں ہے کہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کا ایک چھوٹا سا گائوں ’’بہورچھ‘‘ جس کی حدیں اُس ’’لادیاں‘‘ گائوں کو چھوتی ہیں جسے میجر عزیز بھٹی شہید کی نسبت معتبر بناتی ہے۔ وہیں ان کے والد چوہدری بشیر احمد پیدا ہوئے۔ اس وقت ارد گرد کے دیہاتوں کے لوگ عموماً قریبی گائوں سے چہارم تک اور پھر لالہ موسیٰ شہر سے چھٹی تک تعلیم حاصل کر کے یا فوج میں بھرتی ہو جاتے یا زمینداری سے جڑ جاتے۔ چوہدری بشیر احمد کے والد حیات نہ تھے مگر ان کے بڑے بھائیوں جو فوج میں صوبیدار تھے نے انہیں 1944ء میں قیامِ پاکستان سے قبل واحد ملٹری کالج سرائے عالمگیر بھیجا جہاں سے انہوں نے بی۔ اے کی تعلیم حاصل کی۔ اُس وقت بی۔ اے کی تعلیم پورے علاقے میں اعزاز سمجھی جاتی تھی۔ 1956ء میں چوہدری بشیر احمد کو امریکن ایمبیسی میں ملازمت مل گئی اور پھر اسی سلسلے میں وہ 1974ء میں امریکہ چلے گئے۔ چوہدری بشیر احمد نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر پرویز چوہدری نے نشانِ حیدر عزیز بھٹی شہید ہائی سکول بہورچھ سے میٹرک کیا۔ ایف سی کینٹ سے کھاریاں سے ایف ایس سی کی اور پھر اپنے والد کے پاس میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے امریکہ چلے گئے۔ وہ ابھی زیر تعلیم تھے کہ 1988ء میں ان کے والد چوہدری بشیر احمد ایک حادثے میں خدا کو پیارے ہو گئے۔ یہ بڑا کڑا وقت تھا۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحب خود طالب علم تھے۔ سب سے بڑا بیٹا ہونے کے ناطے انہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ باقی بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت کو سرفہرست رکھا۔ ڈاکٹر بن جانے کے بعد کسی وقت بھی سیکھنے کا عمل ترک نہیں کیا بلکہ اپنے فیلڈ میں خوب سے خوب ترکی تلاش میں کئی ڈگریاں اپنے نام کیں۔ میڈیکل ان کا پروفیشن نہیں زندگی کا مقصد ہے، اوڑھنا بچھونا ہے، کھلی آنکھوں بھی وہ اسی حوالے سے منصوبے بناتے ہیں اور خواب میں بھی اسی شعبے سے متعلق بہتری کے نقشے دیکھتے ہیں۔ انسانیت کے درد کم کرنے کی فکر ان کے شب و روز کا وظیفہ ہے۔ کوئی اور کاروبار، گھر کی تعمیر حتیٰ کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور شادیاں بھی ان کے بھائیوں اور والدہ کی ذمہ داری ہے جسے وہ احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے ڈاکٹر صاحب کا آج تک کہیں بھی کوئی بینک اکائونٹ نہیں ہے، امریکہ میں بھی یہ ذمہ داری انہوں نے اپنے بھائی کو دی ہوئی تھی اور یہاں بھی ان کے چھوٹے بھائی ہی ان کے تمام اخراجات اور ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔ ان کے بٹوے میں آپ کو پیسے نہیں ملیں گے، لے دے کے کوئی کارڈ ہو سکتا ہے۔ ہم ان سے اکثر مذاق کرتے ہیں کہ آپ تو ہمیں چائے تک نہیں پلا سکتے۔ اپنی زمین سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں کسی بڑے شہر میں شفٹ ہونے کی بجائے اپنے گائوں میں رہتے ہیں اور وہیں 2000ء میں CBA کے نام سے ایک بہت بڑا رفاعی اسکول اور کالج بنایا جس کا افتتاح ان کی والدہ محترمہ نے کیا۔ یہ کالج ان کے والد کے نام پر ہے جہاں عمارت اور تعلیم دونوں جدید تقاضوں کے مطابق ہیں، سینکڑوں گاڑیاں روزانہ اِرد گرد کے گائوں سے بچوں کو لاتی لے جاتی ہیں۔ اس اسکول اور کالج کی بدولت اس علاقے کے ہزاروں طلبا اب ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔
کچھ عرصہ سے ڈاکٹر پرویز کے دِل میں پاکستان میں کام کرنے اور یہاں کے ڈاکٹروں کو تربیت دینے کی خواہش شدت اختیار کر گئی تھی۔ پچھلے دورِ حکومت میں بھی ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ان کی میاں شہباز شریف سے ملاقات ہو جائے کیوں کہ اس بات کا قوی امکان تھا کہ شہباز شریف ایسے ہیروں کی پہچان رکھتے ہیں اور جب وہ ان کے کام سے واقف ہوں گے تو انہیں پنجاب میں خدمت کا موقع فراہم کریں گے تاہم ایسا نہ ہو سکا۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب پنجاب میں 300بستروں کا دل کا ٹرسٹ اسپتال جی ٹی روڈ پر تعمیر کرنے کے لئے پرجوش تھے۔ ان کا وہ ارادہ اب بھی وقت کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ پھر انہوں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح وزیر آباد اسپتال چھ مہینے کے لئے ان کے حوالے کر دیا جائے تا کہ وہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو ٹریننگ دے کر تیار کر جائیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ اردگرد کے ممالک کے مریضوں کا بھی علاج کر سکے اور یوں پاکستان اس شعبے میں بھی زرِ مبادلہ کما سکے۔
پھر خدا نے انکی سن لی اور پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ نے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کیلئے ان کی خدمات طلب کر لیں۔ حکومت کے کئی وزراء اور سیکرٹری چل کر فریزنو، امریکہ گئے اور ان سے معاملات طے کئے۔ ڈاکٹر صاحب کا سب سے بڑا مطالبہ یہی تھا کہ مطلوبہ مشینری اور ماحول فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ وہ گزشتہ کئی مہینوں سے کراچی میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے Minimally Invasive Heart Surgery جس میں بغیر آپریشن کے صرف کٹ لگا کر دل کا آپریشن کیا جاتا ہے کے ذریعے کئی کامیاب آپریشن کئے ہیں۔ وہ لنگز ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں اور اب انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلا مکینیکل ہارٹ ٹرانسپلانٹ کر کے نئے کارِ خیر کا آغاز کیا ہے۔ جب وہ آپریشن کرتے ہیں تو اپنے اردگرد سیکھنے والے ڈاکٹروں کی ٹیم کو کھڑا کرتے ہیں۔ وہ اپنا علم پھیلانا چاہتے ہیں اس کے لئے انہوں نے ملکوں ملکوں سیمیناروں میں لیکچر دیئے ہیں۔ خدا نے انہیں اتنی جرأت دی ہے کہ وہ کام کرتے ہوئے نہ تھکتے ہیں نہ پریشان ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کرنا۔ ڈاکٹر پرویز چوہدری کی زندگی ایک مثال ہے کہ اگر انسان اپنے پیشے سے مخلص ہو تو ا س پر قدرت کیسے کرم کرتی ہے؟ لیکن ضروری ہے کہ جیب کی بجائے دل کی طرف توجہ کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی تمام تر محنت اور کامیابی کو اپنی والدہ کی دعائوں اور خدا کے کرم سے منسوب کرتے ہیں۔ خدا کرے پاکستان میں کچھ اور ڈاکٹر بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین