اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مقبولیت اور مسلم لیگی قیادت بالخصوص سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز جنہیں وہ اپنا غیر اعلانیہ سیاسی جانشین مقرر کر چکے ہیں کی سیاسی بقا کا انحصار جمعہ کو ان کے استقبال کیلئے آنے والے مسلم لیگی کارکنوں کی تعداد اور ان کے جوش وخروش پر ہوگا تو شاید یہ غلط نہیں ہوگا اور اس بات کا احساس اور اندازہ خود انہیں بھی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لندن سے مسلسل مسلم لیگی رہنمائوں سے رابطے میں ہیں اور انہیں مسلسل ہدایات دی جارہی ہیں کہ عوام کی جتنی بڑی تعداد کو استقبال کیلئے باہر نکال سکتے ہیں نکالیں جن رہنمائوں کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کیلئے ٹکٹس دی گئی ہے انہیں بھی اور یونین کونسل کے چیئرمینوں کو بھی اس بارے میں سختی سے ہدایات دی جارہی ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہی ٹاسک ان کی کارکردگی کا پیمانہ ہوگا اور آئندہ سہولتوں، مراعات اور بڑی ذمہ داریاں دیئے جانے کیلئے کسوٹی بھی جبکہ مسلم لیگی ذرائع کے مطابق استقبال کیلئے عوام کو باہر نکالنے میں جو لوگ مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اتریں گے ان کے خلاف کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے اپنی قیادت سے گفتگو کرنے کے دعویدار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اگر جمعہ کو لاہور میں استقبال کیلئے ایک لاکھ لوگ جمع ہوگئے تو اسلام آباد کا منظر اور سوچ تبدیل ہوسکتی ہے۔ تاہم اس بات کا جواب نہیں دیا جارہا کہ اگر یہ تعداد 20 سے 25 ہزار تک محدود رہی تو اس صورت میں کیا ہوگا؟
رکن قومی اسمبلی کیپٹن (ر) محمد صفدر جو پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کے اے ڈی سی اے تھے اور بعد میں ان کی فرزندی میں آگئے ایون فیلڈ ریفرنس میں مجرم قرار دیئے جانے کے بعد اتوار کو انہوں نے راولپنڈی میں ایک ’’سیاسی شو‘‘ کرکے گرفتاری پیش کی اور شہر کے گنجان آباد علاقوں میں ریلی کی قیادت کرتے ہوئے خطاب کرتے رہے۔ ابتداء میں مسلم لیگی کارکنوں کی تعداد کافی محدود تھی اور اگر نیب حکام چاہتے تو وہ بہ آسانی کسی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کر سکتے تھے لیکن اس وقت انہوں نے محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اُن کی گرفتاری کیوں نہیں کی یہ بھی ایک سوال ہے جس پر ایک طرف تو چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف بالخصوص پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن اس صورتحال پر خاصے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ راولپنڈی کی انتظامیہ اور نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو سیاسی شو بنانے کیلئے دانستہ ایسی صورتحال پیدا کی تھی۔ کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے سیاسی شو سے نہیں معلوم انہیں کتنا فائدہ پہنچا البتہ سینیٹر چوہدری تنویر نے اس صورتحال سے پوری طرح سیاسی فائدہ اٹھایا اور سارے شو کو اپنے نام کرلیا چونکہ شہر کے حلقہ NA-62 سے شیخ رشید کے مقابلے میں ان کے بیٹے دانیال چوہدری مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ ہولڈر ہیں چنانچہ بیٹے کی انتخابی مہم کیلئے اُن کے والد کا کردار اس موقع پر انتہائی اہم رہا۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دانیال چوہدری اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ، مریم نواز نے وزیراعظم ہاؤس میں جو سوشل میڈیا سیل بنایا تھا اُس میں دانیال چوہدری کا خاصا اہم کردار تھا اور شنید ہے کہ اسی بنیاد پر کئی لوگوں کو نظرانداز کرکے اُنہیں اتنے اہم حلقے میں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا۔ تاہم اگر وہ شیخ رشید کے مقابلے میں قریب قریب ووٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں تو اسے اُن کی کامیابی تصور کیا جائے گا لیکن اس کا کریڈٹ اُن کے والد چوہدری تنویر کو ہی جائے گا۔
پنجاب کے خطہ پوٹھوار کے بارے میں یہ ضرب المثل کسی زمانے میں بڑی مشہور تھی کہ ’’درخت پھلدار نہیں، زمین ہموار نہیں اور لوگ وفادار نہیں‘‘ حالیہ انتخابات کے تناظر میں اگر اس ضرب المثل کو دیکھا جائے تو کیا اس میں سے ایک بات کو تسلیم کرلیاجائے گاکہ واقعی ’’لوگ وفادار نہیں‘‘ کیونکہ فرزند راولپنڈی جو اب خود کو فرزند پاکستان دیکھتے ہیں وہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ایک قابل اعتماد ساتھی بن کر سامنے آئے تھے حالانکہ اس سے قبل وہ میاں نواز شریف کی طرح خود بھی ائیرمارشل (ر) اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال میں شامل رہ چکے ہیں لیکن ماضی میں ایک طالبعلم راہنما کی حیثیت سے شہرت حاصل کرنے والے شیخ رشید کو شہرت کے ساتھ ساتھ وزارتیں بھی میاں نواز شریف کی حکومتوں میں ہی ملیں اور پھر وہ میاں نواز شریف کے بدترین حریف کے طور پر سامنے آئے اور اُن کا یہ دعویٰ بھی درست ثابت ہوا کہ میں قومی اسمبلی میں ہوں گا اور نواز شریف اسمبلی سے باہر ہوں گے، صرف یہی نہیں بلکہ اُن کا یہ دعویٰ کہ 2018 کے الیکشن میں وہ ایک بار پھر قومی اسمبلی ہی نہیں بلکہ حکومت میں ہوں گے اور میاں نواز شریف اڈیالہ جیل میں ہوں گے، خاصی حد تک درست ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسی طرح چوہدری نثار علی خان کا تعلق بھی خطہ پوٹھوار کے علاقے چکری سے ہے۔ انہوں نے 1985 کے انتخابات میں اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز راولپنڈی سے ہی کیا تھا اور وہ مجموعی طور پر 9 مرتبہ اپنے حلقے سے انتخاب جیت کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ گو کہ غالباً دو مرتبہ اُنہیں شکست بھی ہوئی ہے لیکن اس مرتبہ وہ ایک مختلف اور مشکل صورتحال میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ایک نشست پر اُن کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجہ قمر السلام سے اور دوسری نشست پر غلام سرور خان سے ہے جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ راجہ قمر السلام تو صاف پانی سکینڈل میں زیر حراست ہیں اور اُن کی انتخابی مہم اُن کے دو کمسن بچے چلا رہے ہیں لیکن چوہدری نثار علی خان کا اصل مقابلہ اُن کے روایتی حریف سرور خان سے ہے۔ چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف سے اپنی 30 سالہ سیاسی رفاقت کو خیرباد کہہ کر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس طرح اُن کا شمار بھی پوٹھوار کے سیاسی بیوفاؤں میں کیا جارہا ہے۔ شیخ رشید 8 مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں گو کہ انہوں نے جنرل (ر) ٹکا خان جیسے شخصیت کو اپنے حلقے میں شکست دی لیکن جاوید ہاشمی اور حنیف عباسی نے شیخ صاحب کو اُن کے ہوم گراؤنڈ پر شکست دی اور اس مرتبہ ایک بار پھر حنیف عباسی اُن کے مقابل ہیں۔
انتخابی امیدواروں کو عدالتی احکام کے پیشِ نظر ایک نئی صورتحال کا خوف دامن گیر ہے ، ہر چند کہ یہ صورتحال تمام انتخابی امیدواروں کے لئے یکساں نہیں ہے لیکن ایک بڑی تعداد اس سے خائف نظر آتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات میں کامیابی کا نوٹی فیکیشن عدالتی فیصلے سے مشروط ہو گا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپیلٹ ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف ن لیگ کے امیدوار بلال اظہرکیانی کی درخواست کی سماعت کی۔ بلال اظہر کیانی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ بلال اظہر نے کاغذات جمع کرانے سے پہلے دہری شہریت چھوڑ دی تھی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ امیدوار ووٹر کو کہتے ہیں کہ میں پاکستانی ہوں، صرف شہریت چھوڑ دینے کا کہنا کافی نہیں ہوتا ۔ دوہری شہریت چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ سے اہلیت شروع ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے پہلے بلال کیانی نے دوہری شہریت چھوڑ دی تھی یا نہیں۔ وکیل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے پہلے 7 جون کو دوہری شہریت چھوڑ دی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا جاتا ہے سپریم کورٹ متنازع ہوتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ اگر متنازع ہوتی جارہی ہے پھر یہاں آتے ہی کیوں ہیں؟
سپریم کورٹ نے بلال اظہرکیانی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں کامیابی کا نوٹی فیکیشن عدالتی فیصلے سے مشروط ہو گا ۔۔ اپیلٹ ٹریبونل راولپنڈی کے جج جسٹس عبدالرحمان لودھی نے دہری شہریت پراین اے 66 اور پی پی 26 سے بلال اظہرکیانی کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے تھے ۔ بلال اظہر کیانی راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ جنرل (ر) اظہر کیانی کے صاحبزادے ہیں اور جہلم سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہیں۔
فاضل عدالت نے بلوچستان کے سابق وزیرامین عمرانی کی الیکشن لڑنے کی اجازت کے حصول کے لیےدرخواست مسترد کردی ہے جس کے بعد امین عمرانی بھی الیکشن دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں۔
امین عمرانی نے موقف اپنایا کہ وہ پی بی 12 سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن لڑنے کی اجازت دے جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کس بنیاد پر آپکو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیں۔ آپکی تو نظر ثانی کی اپیل بھی میریٹ پر نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے امین عمرانی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے میر شعیب نوشیروانی کی اپیل بھی جعلی ڈگری کی بنیاد پر مسترد کردی جس کے بعد شعیب نوشیروانی بھی الیکشن دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ڈسپلنری کمیٹی نے آپ کے خلاف فیصلہ دیا جو آپ نے چینلج نہیں کیا ۔ ڈسپلنری کمیٹی نے شعیب نوشیروانی کی ڈگری کو جعلی قرار دیا ہے۔ متعلقہ یونیورسٹی کی خفیہ برانچ کے کنٹرولر کا بیان بھی آپکے خلاف ہے جس کے بعد عدالت نے میر شعیب نوشیروانی کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔