• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ کا پہلا بم دھماکا ’14جولائی1987‘

پاکستان کی تاریخ کا پہلا بم دھماکا’14جولائی1987‘

25 جولائی 2018 کو پاکستان میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں مگر اس سے قبل ہی الیکشن 2018ء کی انتخابی سرگرمیوں پر 7دن میں 4دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں۔ جن میں 125 افراد جاں بحق اور 180 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

جولائی کا مہینہ جہاں انتخابات کے حوالے سے اہم ہوگیا ہے ۔ وہیں دوسری طرف پاکستان کی تاریخ کا پہلا دھماکہ بھی اسی جولائی کے مہینے میں ہواتھا جس میں متعدد لوگ جاں بحق ہوئے تھے ۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا بم دھماکا’14جولائی1987‘

14 جولائی 1987 کو پاکستان کی تاریخ میں پہلا دھماکہ ہو ا جس کے نتیجے میں 87 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 100 سے زائد افراد اس دلخراش واقعے میں زخمی ہوئے ۔

کراچی کے علاقے صدر بوہری بازار میں شام کے وقت لوگ شاپنگ میں مصروف تھے کہ اچانک زوردار دھماکا ہوا ،جس کےبعد ہرطرف لاشیں اور زخمی بکھرے پڑے تھے۔

اس دھماکے میں کئی لوگ ایسے بھی جاں بحق ہوئے جو ایک ہی خاندان کا حصہ تھے، کوئی باپ اپنی بیٹی کو کھلونے دلوانے کے لیے آیا ہوا تھا تو کوئی ماں اپنے بچوں کے اسکول کے لیے کتابیں اور بستے خریدنے آئی ہوئی تھی ، سب لوگ اپنی اپنی پسند کی چیزیں خریدنے میں مصرو ف تھے ، ہر طرف گہما گہمی تھی کسے پتا تھا کہ اب سے کچھ دیر بعد یہاں موت کا راج ہونے والا ہے ، بازار میں کھڑی گاڑیوں کے اندر نصب 2ٹائم بم پھٹے تھے کہ اچانک درجنوں افراد کی موت واقع ہوگئی اور سینکڑوں لوگ اس حادثے میں زخمی ہوگئے تھے ۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا بم دھماکا’14جولائی1987‘

پاکستان میں شہریوں میں دہشت پیدا کرنے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا دھماکہ تھا۔

اس وقت کی حکومت نے ان دھماکوں کا الزام افغانستان کی خفیہ ایجنسی’خاد‘ پر لگایا تھا ۔

اس وقت کے وزیر اعلی’سید غوث علی شاہ‘ نے دھماکے کے بعد جب اسپتالوں کا دورہ کیا تو انہیں عوام کے شدید غم وغصے کا سامنا کرنا پڑا ایک موقع پر کسی نے ان پر کچرے کی بالٹی بھی دے ماری تھی ۔

اس واقعے کی یادیں آج بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں، ہم نے کچھ لوگوں سے اس حوالے سے بات چیت کی ہے جس کا احوال انہوں نے کچھ یوں بتا یا ۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا بم دھماکا’14جولائی1987‘

سینئر سیاست داں اور اس وقت کے وزیر اعلی سندھ غوث علی شاہ نے دھماکے کے حوالے سے اپنی یادوں کے بارے میں بتا یا کہ بوہری بازار میں ہونے والے دھماکے اس وقت شہر کا امن تباہ کر نے کی ایک گھنا ئونی سازش تھی ، اس وقت کراچی پرا من شہر ہوتا تھا ، کسی کو بھی شہر کے حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔

انہوں نے بتایا کہ جب یہ دھماکے ہوئے تو میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ خود اسپتالوں میں جاکر زخمیوں کی عیادت کی تھی اور ان کے لواحقین کے ساتھ کھڑا ہوکر انہیں دلاسے دیئے تھے اور انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہم سب آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔

شہر کا امن برقرا ر رکھنے کے لیے ہم نے ہر ممکن اقدامات کیے تھے اور لوگوں سے بھی تعاون کرنے کا کہا تھا ،ہاں شہری غم و غصے کی کیفیت میں تھے ، میں نے بطور وزیراعلیٰ انہیں تسلی دی تھی۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا بم دھماکا’14جولائی1987‘

ڈاکٹر فیاض عالم کراچی کے ایک ذمہ دار شہر ی ہونے کے ساتھ سماجی ورکر بھی ہیں، اس سانحے کے بارے میں اپنی یادیں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب یہ دھماکا ہوا اس وقت ہم اسٹوڈنٹ تھے اور جناح میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے ۔

انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد جناح اسپتال میں جب زخمیوں کو لایا گیا تو ہر طرف’ لہو‘ بکھرا نظر آرہا تھا، اس وقت زخمیوں کو جلدی جلدی ایمر جنسی وارڈ میں منتقل کیا جارہا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسپتال کے باہر جمع تھے جو رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کررہے تھے ۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا بم دھماکا’14جولائی1987‘

ڈاکٹر فیاض عالم کے مطابق جناح میڈیکل کالج کے تمام طالب علم زخمیوں کی مدد کے لیے وہاں موجود تھے ، فرش پر خون بکھرنے کی وجہ سے پھسلن بہت ہورہی تھی اور کئی لوگ بے یارو مددگارنظر آرہے تھے ۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس دھماکے کے بعد جو شہر کے لوگوں میں جذبہ انسانی نظر آیا وہ بھی قابل تعریف تھا، انہوں نے بتایا کہ اس موقع پر کراچی کا ہر شہری سوگوار نظر آرہا تھا اور ہر شہری اپنی بساط سے بڑھ کر زخمیوں کی مدد میں آگے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاتھا ،لوگوں نے اس وقت اپنی جیب میں موجود تمام رقم نکال کر باہر رکھ دی تھی اور ہر شخص اپنی جیب سے دوائیاں خرید خرید کر لارہاتھا ۔

please wait while file is uploading on server

امیر جماعت اسلامی سندھ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جب بم دھماکے ہوئے تو اس وقت وہ ڈائو میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم تھے۔

انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد شہر کے تمام سرکاری اسپتال زخمیوں اور لاشوں سے بھر چکے تھے ہر طرف خون ہی خون بکھرا نظر آرہا تھا ، 14 جولائی 1987 کی وہ شام کراچی والوں پر قیامت بن کر گزری تھی، جس میں اس شہر کے خاصے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔

ڈاکٹر معراج الہدیٰ کے مطابق جب یہ دھماکا ہوا تو ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر تھا، لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ، مگر لوگوں میں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ نظر آرہا تھا، اس وقت کراچی کے نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں اور لاشوں کو اسپتال منتقل کرنا شروع کردیا تھا ۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا بم دھماکا’14جولائی1987‘

انہوں نے بتایا کہ میرے خود کے کپڑے خون میں بھیگ گئے تھے کیونکہ ہم سول اسپتال میں مریضوں کو منتقل کررہے تھے کسی زخمی کو ایمبولنس میں ڈال رہے تو کسی کو اسٹریچر پر لٹاکر ایمرجنسی وارڈ میں لے کر جارہے تھے ۔

ڈاکٹر معراج الہدی نے بتایا کہ مستونگ میں ہونے والے واقعہ کو دیکھ کر میرے سامنے 1987ء میں کراچی میں ہونے والے دھماکوں کی یادیں تازہ ہوگئی ہیں، اللہ تعالی تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ملک پاکستان کو دہشتگردوں کے مذمو م عزائم سے بچائے ۔

جب یہ دھماکے ہوئے تو3 دن تک شہر میں سوگ کا سماں تھا کیونکہ کراچی کے ہر علاقے سے جنازے اٹھ رہے تھے ، کسی گھر سے 3 جنازے اٹھے تو کسی گھر سے5 لوگوں کے جنازے اٹھے، پورا شہر سوگ میں ڈوبا ہوا تھا، ہر طرف آہ و بکا مچی ہوئی تھی ، کسے خبر تھی کہ 14 جولائی 1987 کی وہ شام کراچی کے شہریوں پر قیامت بن کر گزری تھی ہر آنکھ اس دن اشکبار تھی لوگ بہت جذبات میں نظر آرہے تھے ۔

تاریخ میں 14 جولائی 1987 کا دن سیاہ حرو ف سے لکھا جائےگا۔

تازہ ترین