• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف اور مریم نے دوسروں کو آزمائش میں ڈال دیا

اسلام آباد (تجزیہ / انصار عباسی) نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نے سیاست میں اپنی بقا کا دشوار گزار راستہ چنا ہے۔ لیکن جواب میں انہوں نے دیگر کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ نگراں چاہے پنجاب میں ہوں یا وفاق میں ان کی پہلی آزمائش گزشتہ جمعہ کو ہوئی جب نواز شریف اور مریم وطن واپس آکر گرفتار ہوئے اور جیل پہنچا دئیے گئے۔ گو کہ باپ اور بیٹی افسر دہ تھے لیکن وہ مسکراتے اور پرسکون دکھائی دئیے۔ چہروں سے کوئی تشویش یا پریشانی ظاہر ہونے نہیں دی۔دوسری جانب نگراں بوکھلائے نظر آئے۔ نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک اور نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب حسن عسکری اپنی اچھی شہرت کے باوجود وہ جس بات کا زندگی بھر پرچار کرتے رہے۔ اس کے برخلاف عمل کرتے دکھائی دئیے ایک مخصوص پارٹی کی پر امن ریلیوں کو روکنے کے لیے انتظامی اقدامات ، سیاسی کارکنوں کی گرفتاری، کریک ڈائون پنجاب بھر میں سڑکیں بند، راستوں پر رکھے کنٹینرز اور میڈیا پر کنٹرول ہر چیز سابق چیف جسٹس اور پروفیسر کے ماضی میں کہے کے خلاف تھی۔ جو بنیادی حقوق، جمہوریت اور فئیر پلے کے بارے میں وہ کہتے رہے ہیں۔ ان کے کچھ وزرا نے زیادہ مایوس کیا۔ کسی ایک وزیر نے بھی ایک سیاسی جماعت کو ہدف بنائے جانے کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ جو پہلے ہی اطراف سے حملوں کی زد میں ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں کئی کرداروں کی موجودگی میں ایک سیاسی جماعت کو ہدف بنائے جانے کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھی۔ قومی میڈیا میں آزاد آواز کو دبادیا گیا۔ اس طرح لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے شو کا مکمل بائیکاٹ رہا۔ سینئر اینکر پرسنز نے اپنے پروگرام اور انٹرویوز (نواز شریف) کو سنسر کئے جانے کی شکایت کی۔ سوشل میڈیا ہی معلومات اور اطلاعات کا واحد ذریعہ رہا۔ متعدد آزاد آوازوں نے نگرانوں خصوصی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پر تنقید کی ہے۔ اکثر کی نظروں میں انہوں نے اپنی وقعت کھودی ہے۔ پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نگرانوں کے رویوں سے اس قدر دل شکستہ ہیں کہ انہوں نے نگراں نظام کو بری طرح ناکام قرار دیا اور کہا کہ جتنا جلد ہو، اس نظام کو لپیٹ دیا جانا چاہیے۔ دانشوروں اور اہل علم کے ایک گروپ نے پروفیسر عسکری کے نام ایک خط میں بدترین تشدد آمیز اقدامات شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی امیدواروں کو دھمکیوں، ہراساں اور بلیک میل کئے جانے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا اگر آپ آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی نہیں بناسکتے تو اپنے منصب چھوڑ دیں۔ ان معاملات پر نگراں وزیر اعظم کی خاموشی پر ایک سینئر بیورو کریٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا جسٹس (ر) ناصر الملک نگراں وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے آئین کے دفاع اور اسے بالا تر رکھنے کا حلف اٹھایا ہے۔ لیکن لگتا ہے وہ وزیر اعظم ہائوس ہی کے نگراں ہیں۔ غیر جانبداری اور اپنی منصفانہ حیثیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکامی پر جہاں نگراں سوشل میڈیا پر ہدف تنقید ہیں وہیں الیکشن کمیشن کو آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے طاقت ور بنانے کی سعی کی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع میسر ہوں لیکن اپنی پہلی ہی آزمائش 2018کے عام انتخابات کے لیے اپنی آزاد اور طاقت ور حیثیت باور کرانے میں ناکام رہا ہے۔ اکثر سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے تحفظات دور کرنے کے لیے اقدامات نہیں کئے۔ میڈیا ہی کے دبائو پر الیکشن کمیشن نے نیب کو انتخابات میں فریق بننے سے روکا۔ اب تمام تر نگاہیں اعلیٰ عدلیہ پر مرکوز ہیں۔ جو نواز شریف ، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں کی سماعت کرے گی۔ وہ جو قانون کو جانتے اور عدالتی کارروائی سے واقف ہیں، ان کے خیال میں احتساب عدالت کا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے حوالے سے فیصلہ ناقص ہے۔ حتیٰ کہ نواز شریف کے شدید مخالف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اسے مسترد کردیا اور کہا کہ سزا کی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ قبل از انتخابات سیاسی انجینئرنگ اور مداخلت کے بھی الزام لگائے جارہےہیں ۔ فوجی ترجمان اپنے طور پر اسے مسترد کرچکے ہیں ۔ لیکن اس صورتحال کا کوئی حل نکالنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم قانونی اور آئینی طورپر نگراں وزیر اعظم سے لے کر چیف الیکشن کمیشن حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز اس وقت ملکی معاملات چلا رہے ہیں لہٰذا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ جس میں کسی سیاسی رہنما اور جماعت کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ 

تازہ ترین