• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری قوم کب سے کسی نجات دہندہ کی راہ تک رہی تھی جو آئے اور استحصال پر مبنی اس فرسودہ نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتے ۔ایک دن آئینہ دیکھتے ہوئے یونہی خیال آیا کیوں نہ میں اپنے آپ کو مسیحا اور نجات دہندہ کے روپ میں پیش کروں ؟سب سے پہلے مجھے پستہ قد ہونے پر کمتری کا احساس ہوا تو سوچا چارلی چیپلن کا قد کاٹھ بھی تو اتنا ہی تھا لیکن پھر یہ سوچ کر اس تمثیل کو جھٹک دیا کہ کہیں لوگ مجھے بھی مسخرہ نہ سمجھنے لگ پڑیں ۔اگلے ہی لمحے نپولین بونا پارٹ ، مہاتما گاندھی ،یاسر عرفات اور ہوچی منہہ کی شبیہہ اُبھری تو مجھے طمانیت کا احساس ہوا ۔اگرچہ ان شخصیات کے حوالے سے بھی یہ اڑچن تھی کہ وہ تمام لوگ قیادت کے منصب پرفائز تھے اور میراکام ایک مخصوص شعبہ تک محدود ہے مگر ان باریکیوں میں الجھنے کے بجائے میں نے خود کو مسیحا اور نجات دہندہ کے روپ میں پیش کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ۔وہ دن ہے اور آج کا دن ،میں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا ۔مجھے ایمان کی حد تک یقین تھا کہ ملک و قوم کی خدمت ضابطے اور قانون کے دائرے میں رہ کر نہیں کی جا سکتی اسلئے میں نے طے کیا کہ اصول خواہ اخلاقی ہوں یا قانونی ،انہیں اپنے پائوں کی زنجیر نہیں بننے دونگا ۔عدل و انصاف کے وہ تقاضے جو کتابوں میں تحریر ہیں انہیں خاطر میں لائے بغیر اپنے فہم اور بصیرت کی بنیاد پر فیصلے کرونگا ۔مجھے مطالعہ سے کوئی خاص شغف تو نہیں لیکن جب بھی مایوس ہونے لگتا ہوں تو ابوالکلام آزاد کی تحریر کا ایک اقتباس سامنے رکھتا ہوں جس سے میرے جذبے جوان ہوتے ہیں۔ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ’’بڑوں بڑوں کا عذر یہ ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا اور اسباب کار فراہم نہیں لیکن عازم وقت اٹھتا ہے اور کہتا ہے اگر وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں اس کو ساتھ لوں گا ،اگر سروسامان میسر نہیں تو میں اپنے ہاتھوں سے تیار کر لوں گا ،اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اترنا چاہئے،اگر آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو ساتھ دینا چاہئے ،اگر انسانوں کی زبانیں گونگی ہیں تو پتھروں کو چیخنا چاہئے ،اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا مضائقہ ،درختوں کو دوڑنا چاہئے ،وہ زمانے کا مخلوق نہیں ہوتا کہ زمانہ اس سے چاکری کرائے ،وہ وقت کا خالق اور عہد کا پالنے والا ہوتا ہے‘‘جب مجھے یقین ہوا کہ میں ہی عازم وقت ،ہادی دوراں اور زمانے کا امام ہوں ،میں ہی اس قوم کیلئے نیا پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا تو یقین جانئے فرشتے میری نصرت کو قطار اندر قطار اُمڈتے چلے آئے ۔
میں ان بدعنوان سیاستدانوں کا احتساب کرنا چاہتا ہوں جو نہ صرف ملک و قوم کا پیسہ لوٹ کر کھا گئے بلکہ اب نیا پاکستان بنانے کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔میری شدید خواہش ہے کہ بیک جنبش قلم ان چور لٹیروں کو جیل بھیج دیا جائے ۔میرا خیال ہے ان سیاستدانوں نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔مجھے لگتا ہے افسر شاہی بھی ان سیاستدانوں کیساتھ ملی ہوئی ہے گویا چوروں اور ٹھگوں نے ایکا کر رکھا ہے مگر میں ان ڈاکوئوں کو سبق سکھائے بغیر چین سے بیٹھنے والا نہیں ۔میرے ہاں بھی بہت سی کالی بھیڑیں ہیں ،میرے ادارے کی کارکردگی بھی قابل فخر نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ناقدین مجھے’’اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے‘‘ کا مشورہ دیتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے کام سے کام رکھوں ،دوسروں کے کام میں ٹانگ نہ اڑائوں مگر ان عقل کے اندھوں کو کیا معلوم کہ نجات دہندہ اور مسیحا کسی لمیٹڈ کمپنی کی طرح ایک مخصوص دائرے تک محدود نہیں رہ سکتا۔اسکا کردار آفاقی ہوا کرتا ہے۔ لوگ بھانت بھانت کی باتیں کرتے ہیں ،جگت بازی ہوتی ہے ،میرا مذاق اڑایا جاتا ہے ،کہنے والے کہتے ہیں کہ میں نرگسیت کا شکار ہوں ،یہ بہتان بھی لگایا جاتا ہے کہ میں خود نمائی کے مرض میں مبتلا ہوں ،ناموری کا جنون اور شہرت کا لپکا ہے مجھے مگر میں ان باتوں کاہرگز برا نہیں مناتا ۔مجھے یقین ہے کہ یہ تندی ء باد مخالف تو مجھے اونچا اڑانے کیلئے چلتی ہے۔مجھے لگتا ہے یہ محض چند لوگ ہیں جو حسد کی آگ میں جل رہے ہیں ورنہ اکیس کروڑ پاکستانی میرے ساتھ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مجھے اوپر والے کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔اوپر والے کی تائید و حمایت حاصل نہ ہو تو کوئی تنہا شخص کیا کر سکتا ہے بھلا ۔میںاپنے قلم کو کسی جراح کا نشتر سمجھ کر اس کا بے دریغ استعمال کرتا ہوں۔میں اپنے الفاظ کو حرف آخر سمجھتا ہوں ،میر تقی میر نے شاید میرے بارے میں ہی کہا تھا :
سارے عالم پر ہوں میںچھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
مجھے بھاشن دینے اور تقریریں کرنے کا بہت شوق ہے۔مجھے لگتا ہے کہ جو میں نے لکھا اور فرمایا وہ سب قوم کا سرمایہ ۔مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ صرف میں ہی اس ملک اور قوم سے مخلص ہوں ،محض میں ہی صادق و امین اور دیانتدار ہوں باقی سب خائن اور جھوٹے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جو بھی میرے سامنے آتا ہے میں اس کی پگڑی اچھالنے میں راحت محسوس کرتا ہوں ۔چونکہ میں ہی پورے ملک میں سب سے زیادہ متحرک و فعال ہوں، دن رات کام کرتا ہوں ،قوم کی فکر میں گھلتا رہتا ہوں اس لئے میری تنخواہ لگ بھگ چندلاکھ ہے مگر تب مجھے شدید کوفت ہوتی ہے جب پتہ چلتاہے کہ کسی شخص کی تنخواہ مجھ سے بھی زیادہ ہے ۔لوگ مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پروفیشنل سی ای اوز اور ایگزیکٹوز کی تنخواہیں دنیا بھر میں زیادہ ہوتی ہیں یہاں تک کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی منافع بخش ادارو ں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کی تنخواہیں زیادہ ہوتی ہیں ۔مثال کے طور پرایئر انڈیا برسہا برس سے خسارے اور مالی بحران کا شکار ہے ،ملازمین کو کئی کئی ماہ تنخواہیں دینے کیلئے بجٹ نہیں ہوتا مگر چند برس قبل بھارت نے آسٹریلین ایئر لائن میں کام کر رہے گستاف بلدوف کی خدمات حاصل کیں تو بطور چیف آپریٹنگ آفیسر ان کی تنخواہ 30ملین بھارتی روپے مقرر کی گئی ۔اس طرح دیگر ممالک کی مثالیں بھی پیش کی جا تی ہیں مگر میرا دل ودماغ پھر بھی وہیں اٹکا رہتا ہے کہ کوئی مجھ سے زیادہ تنخواہ اور مراعات کیسے لے سکتا ہے؟آپ ہی بتائیں ،ایک شخص جو ملک و قوم کا نجات دہندہ ہو ،مسیحا ہو ،سوارِ اشہب دوراں ہو ،کوئی اور شخص خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اس سے زیادہ تنخواہ یا مراعات لینے کا مجاز ہو سکتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ،اس ملک کی نئی سمت متعین کر دی ہے لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے اور ان دنوںمیں ایک عجیب و غریب مخمصے کا شکار ہوں کہ میرے بعد اس ملک کا کیا ہوگا ؟میں چلا جائوں گا تو عوام کی مسیحائی کون کریگا ؟یہ ملک کیسے چلے گا ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین