• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام اندازے ،قیاس آرائیاں اور دعوے غلط ثابت ہو گئے ،تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے نواز شریف نےاپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ پاکستان واپس آ کر گرفتاری پیش کر دی، نواز شریف نے جو کہا سچ کر دکھایا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی وطن واپسی سے بہت سوں کے ہاتھوں پاوں پھول گئے ، انہیں پس پردہ درخواست اور پیشکش کی جاتی رہی کہ پاکستان واپس نہ آئیں مقدمات اور سزاوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گالیکن نواز شریف اپنے ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے پر تلے ہوئے ہیں، مقتدر حلقوں کو آخری لمحات تک یقین نہیں تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز پاکستان واپس آئیں گےجس کا اعتراف وفاقی وزیر قانونان الفاظ میں کر چکے ہیں کہ نیب کی درخواست پر اڈیالہ جیل میں عدالتی ٹرائل کرنے کا نوٹیفکیشن عجلت اور رات میں اس لئے جاری کرنا پڑا کیونکہ نواز شریف کی واپسی کا یقین نہیں تھا۔ بے یقینی یا غلط فہمی کی اسی صورتحال کے باعث پنجاب کی نگراں حکومت نے نواز شریف اور مریم نواز سے اظہار یک جہتی کیلئے مسلم لیگ ن کے رہنماوں اور کارکنوں کو لاہور ائیرپورٹ پہنچنے سے روکنے کیلئے جو اقدامات کئے انہوں نے 12 مئی 2007 ءکے پرویز مشرف کے آمرانہ ہتھکنڈوں کو بھی مات دے دی۔ شخصی آزادی ،بنیادی حقوق اور اظہار رائے پر یقین رکھنے کا پرچار کرنے والے نگراں وزیراعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری کی قیادت میں پنجاب حکومت نے لاہور شہر کو جیسے سیل کیا اس پر سی این این جیسے عالمی میڈیا نے بھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ؛لاک ڈاون؛ کرنے جیسی ہیڈ لائن استعمال کی۔ صوبائی دارلحکومت کے داخلی راستوں کو بند کر دیا گیا، شہر میں جا بجا کنٹینر کھڑے کر دئیے گئے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی دس ہزار سے زائد اضافی نفری تعینات کر دی گئی، دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا، شہر کا کنٹرول رینجرز نے سنبھال لیا،سینکڑوں کارکنوں کا گرفتار کر کے حوالات میں بند اور اہم رہنماوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال بھی کیا گیا، دیگر صوبوں اور شہروں سے آنے والے قافلوں کو وہیں روک دیا گیا، بدترین سنسرشپ نافذ کردی گئی، نواز شریف اور مریم نواز کے سز ایافتہ ہونے کے باعث ان سے متعلق کوئی بھی خبر نشر کرنے یا ان کی تشہیرکرنے کو روک دیا گیا یہاں تک کہ ان کیساتھ آنیو الی ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے موبائل فونز میں بنائی گئی ویڈیوز کو بھی ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ لاہور ائیرپورٹ اور ریلی کے راستوں پر انٹر نیٹ اور موبائل سروس معطل کر دی گئی لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے جتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر جس جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا اس پر ریلی کیساتھ موجود سید طلعت حسین جیسے بے باک سینئر صحافی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ انہوں نے اپنی پوری صحافتی زندگی میں ن لیگی ورکرز کو اتنا چارجڈ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ملک کی تاریخ بدلنے کا عزم کرنے والے نواز شریف کے کارکنوں نے بلا شبہ پارٹی کی تاریخ تبدیل کردی ہے۔پارٹی کارکنان کے اس غیر معمولی ردعمل کا پارٹی صدر شہباز شریف سے لے کر دیگر رہنماوں کو بھی اندازہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ پارٹی قائد کی آواز پر لبیک کہنے والے کارکنوں نے پارٹی صدر شہباز شریف کو بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبورکر دیا ہے کہ نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ درست تھا اور وہ غلطی پر تھے۔ واقفان حال کے مطابق ہفتہ کو منعقدہ اہم پارٹی اجلاس میں شہباز شریف پارٹی قائد نواز شریف کے مقابلے میں اپنی مفاہمتی پالیسی کے بیانیے پر شرمندہ بھی نظر آئے اور انہوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ صرف پارٹی قائد نواز شریف کی طرف سے دیا گیا بیانیہ ہی اب مسلم لیگ ن کا واحد بیانیہ ہو گا۔ شہبا زشریف سمیت مسلم لیگ ن کے رہنماوں پریہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ انہوں نے جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی رکاوٹیں توڑ کر ائیرپورٹ پہنچنے کی کوشش کی تو تھوڑی تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ احتیاط پر مبنی یہ حکمت عملی عام انتخابات کے انعقاد کی وجہ سے اختیار کی گئی تھی تاکہ پارٹی امیدواروں اور کارکنوں کو بے جا مقدمات میں الجھنے سے بچایا جاسکے۔ شہباز شریف سمیت ن لیگ کے رہنمائوں کی طرف سے پر امن رہنے اور قانون کو ہاتھ میں نہ لینے کے باوجود ان کے خلاف اقدام قتل سمیت دہشت گردی کے مقدمات درج کر لئے گئے ہیں جس نے نگراں حکومت کی غیر جانب داری اور آئندہ الیکشن کی شفافیت پہ مزید سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے ارادوں کوتوڑنے کے لئے انہیں قواعد کے مطابق جیل میں سہولتیں فراہم نہ کرنے اور جیل ٹرائل کرنے جیسے ہر حربے کو آزمایا جا رہا ہے لیکن مریم نواز کی طرف سے عام قیدیوں کیساتھ رہنے جیسے اعلان نے ہر آنے والے دن کو منصوبہ سازوں کیلئے مشکلات سے بھرپور ہونے کا پیغام دے دیا ہے۔ نگراں حکومت کی طرف سے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اسکی سوائے بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کے کسی سیاسی جماعت نے مذمت نہیں کی جو جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں، دوسری طرف وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے والے عمران خان نے جس لب و لہجے میں نواز شریف کا استقبال کرنے کیلئے جانے والے سیاسی کارکنوں کو گدھا قرا دیا اس نے ایک بار پھر ان کی جمہوریت سے وابستگی اوران کے نزدیک سیاسی کارکنوں کی اہمیت کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اپنے خطابات میں علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے پاکستان کی باتیں کرنیوالے خان صاحب شاید بھول گئے ہیں کہ یہی سیاسی کارکن اور عوام تھے جن کو طاقت بنا کر قائد اعظم نے تشکیل پاکستان کی تھی، خود کو ملک کا سب سے بڑا سیاسی رہنما قرار دینے والے کھلاڑی کو تو یہ بھی ادراک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹوکو انہی سیاسی کارکنوں نے قائد عوام بنایا تھا، انصاف کے نام پر ٹیم بنانے والے کپتان کو توابھی تک اتنی سیاسی سمجھ بوجھ بھی نہیں کہ شہید بے نظیر بھٹو نے انہی سیاسی کارکنوں کی قوت سے آمریت کو شکست دی تھی ۔ خان صاحب جس کراچی کو فتح کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں وہ تو اسی کراچی پر تین دہائیوں سے زائد راج کرنے والے قائد تحریک کا انجام بھی بھول گئے جو سیاسی کارکنوں کی ڈھال ہٹنے کے باعث ہوا۔ ایمپائر کی انگلی پر بھروسہ رکھنے والے چیئرمین تحریک انصاف کو یاد رکھنا چاہئے کہ اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کاراستہ انہی سیاسی کارکنوں اور عوام میں سے ہو کر گزرتا ہے جسے انہوں نے گدھا کہا ہے۔ ابھی تو عوام کے کانوں میں ان کے نمائندہ ادارے پارلیمنٹ پر بھیجی گئی لعنت کی گونج ختم نہیں ہونے پائی تو اب وہ عام انتخابات سے محض دس دن قبل کی گئی اس تضحیک کو کیسے بھول جائیں گے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی غورکرنا چاہئے کہ جو رہنما دوسری جماعت کے سیاسی کارکنوں کو گدھا قرار دیتا ہے وہ ان کی پیٹھ پیچھے ان کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہوگا۔ 25 جولائی کا معرکہ اس سوچ کے درمیان بھی ہو گا جس میں ایک رہنما سیاسی کارکنوں کی طاقت سے ملکی تاریخ تبدیل کرنے پہ مصر ہے تو دوسری طرف انہی سیاسی کارکنوں کو گدھا قرار دینے والا رہنما نیا پاکستان بنانے کا دعویدار ہے۔

تازہ ترین