• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا اوورسیز پاکستانیوں کے کوئی حقوق نہیں؟

الیکشن لڑسکتے ہیں ، نہ ووٹ دے سکتے ہیں،دعا ہے جمہوری عمل جاری رہے

جاپان میں مقیم چند پاکستانیوں کا اظہار خیال

کیا اوورسیز پاکستانیوں کے کوئی حقوق نہیں؟

جیسے جیسے پاکستان میں عام انتخابات کا وقت قریب آتا جارہا ہے ،ویسے ویسے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں بھی جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے ۔یوں تو جاپان میں مسلم لیگ ن سے لے کر پیپلزپارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت بہت سی جماعتیں ہیں ،لیکن اس دفعہ پاکستان تحریک انصاف کے چاہنے والوں میں بڑا جوش و خروش دیکھا جارہا ہے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے عمران خان کے چاہنے والوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ اگلا وزیر اعظم عمران خان کو ہی بننا ہے لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گاکہ کس کی امیدیں پوری ہوتی ہیں اور کس کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں ، تاہم جاپان میں مقیم پاکستانیوں سے بات چیت کا سلسلہ گزشتہ بار کی طرح آگے بڑھاتے ہیں ، اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر رانا عابد حسین کا کہنا ہے کہ درحقیقت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بیرون ملک ہی رہنا ہے اور انھیں تو ووٹ کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے، ہم لوگ تو سالانہ بیس ارب ڈالر بھیج کر پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ہیں،کیاہمارے ملک پر کوئی حقوق نہیں ہیں ۔اگر کوئی پاکستانی دوہری شہریت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو اسے نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے یعنی کہ ہم نے صرف ملک کو ذرمبادلہ بھیجناہے ، اپنے حکمرانوں کی کرپشن پر خون کے آنسو بہانے ہیں اور پاکستان کو منفی سمت سفر کرتے دیکھنا ہے ،عابد حسین کا مزیدکہنا ہے کہ مجھے برطانیہ کے مسلم لیگ ن کے رہنما زبیر گل کی حالت زار دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے جس نے میاں نواز شریف کے کہنے پر سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے اپنی برطانیہ کی شہریت منسوخ کرادی اور پھر اسے ایک منصوبے کے تحت سینیٹ الیکشن میں ہرا یا گیا جس میںاس کی پارٹی کے اپنے ہی شامل تھے اور اب وہ بے چارہ برطانیہ جانے کے لیے بھی ویزے کا محتاج ہوگیا ہے جبکہ برطانوی حکومت نے زبیر گل کو ویزہ دینے سے بھی انکار کردیا ہے جس کے بعد اب وہ پاکستان میں پھنس کر رہ گیاہے جو انتہائی افسوس کی بات ہے ۔تویا ما سے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ظہیر اشرف چہل کا کہنا ہے کہ ملک سے باہر بیٹھے پاکستانیوں کو پاکستان کی سیاست بہت بہتراندا ز میں سمجھ میں آتی ہے اور اس وقت صاف نظر آرہا ہے کہ پوری ریاستی طاقت کس چیز پرخرچ ہورہی ہے ۔ ملک میں افراتفری پھیل رہی ہے لوگوں میں بے چینی ہے پاکستان کی معیشت تنزلی کا شکار ہے ڈالر ایک سو روپے سے بڑھ کر ایک سو پچیس روپے کا ہوگیا ہے ۔اسٹاک مارکیٹ ڈوب رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ ہزاروں میل دور بیٹھے پاکستانیوں کو نظر آرہا ہے تو ریاستی اداروں نے کیوں آنکھیں بند کررکھی ہیں ۔

ظہیر اشرف چہل نے نگراں حکومت ، فوج اور عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ ملک میں انصاف اور برابری کی بنیاد پر انتخابات کا انعقادکریں اور تمام سیاسی جماعتوں کو برابر کا موقع دیں اس کے بعد عوام جسے منتخب کریں اسے حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے ،اسی میں پاکستان کی بہتری ہے ، جاپان کے شہر ہکائدو میں مقیم سینئر پاکستانی عمیر شفیق کا کہنا ہے کہ، پاکستان اس وقت ایک مشکل سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت کے تیسرے الیکشن ہونے جارہے ہیں اور بلاشبہ لنگڑی، لولی جمہوریت اچھی آمریت سے لاکھ درجے بہتر ہے، لہذا تمام جماعتیں اور ادارے اپنی حدود و قیود کا خیال رکھیں ،تاکہ عام انتخابات خوش گوار ماحول میں ہوسکیں اور نئی حکومت کو مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے ، جبکہ ناانصافی کی شکایت کرنے والی جماعتوں کی شکایتوںکا بھی خیال رکھا جائے تاکہ پاکستان میں سیاسی استخکام پیداہو جو ملکی معیشت کے لیے بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔سینئر پاکستانی رحیم آرائیں نے کہا کہ اس وقت کوئی بھی جماعت پاکستان کے بارے میں سوچتی نظر نہیں آرہی ہے ہر جماعت میں خود غرضی کا عنصر نمایاں ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام جماعتیں سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر اتفاق کرتیں اور پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور معیشت کے استحکام پر متفق ہونے کے بعد الیکشن میں جاتیں، تاکہ پاکستان میں نہ ہی جمہوریت کو اور نہ ہی معیشت کو خطرہ پیدا ہوتا لیکن ان کی لڑائیوں سے پاکستان میں جمہوریت بھی خطرے میں ہے اور معیشت کو بھی شدید مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ آخر کب تک پاکستانی عوام ایک غریب قوم کی طرح زندگی گزارتے رہیں گے ۔کب تک ہماری قوم دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ دور میں بھی صدیوں پرانی غربت کے ماحول میں زندہ رہ سکیں گے ، آج بھی ہمیں پانی ،بجلی اور گیس کی کمی کا سامنا ہے ، سڑکیں ہماری خراب ہیں ، تعلیم ہمارے پاس نہیں ہے ،شعور ہمارے پاس نہیں ہے ، جبکہ سیاستدانوں کو دیکھ لیں تو کسی نے فرانس میں محل بنایا ہوا ہے تو کسی نے لندن میں عمارتیں کھڑی کی ہوئی ہیں تو کسی نے دبئی میں محلات خرید رکھے ہیں جبکہ ان سب کی پاکستان میں بھی اربوں کی جائیدادیں ہیں ۔افسوس تو اس وقت ہوتا ہے کہ پچیس سے تیس کروڑ کے بنگلے کو ہمارے سیاستدان بیس لاکھ اور پچیس لاکھ کا ظاہر کرتے ہیں عوام کو اس سے زیادہ بے وقوف بنانے کے لیے کیا ہوسکتا ہے جب اربوں کی جائدادوں کو لاکھوں کا بتایا جائے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کراچی میں پانچ مرلے یا ایک سو بیس گز کا مکان بھی ایک کروڑ سے کم کا نہیں ہے لیکن ہمارے عوام کو ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دینا ہے ان کے لیے ماریں کھانی ہیں، ان کے لیے جیلیں بھرنی ہیں ،افسوس کا مقام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسی قوم ہوتی ہے اس پر حکمران بھی ویسے ہی مسلط کیے جاتے ہیں اور شاید ہماری قوم ایسے ہی حکمرانوں کے لائق ہے لیکن پھر بھی پر امید ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی پاکستان کے حالات بدلیں گے ۔ اچھی حکومت قائم ہوگی۔ پاکستان ترقی کی منازل طے کرے گا ۔ پاکستانی قوم بھی ایک ترقی یافتہ قوم کہلائے گی اور بیرون ملک پاکستانی اپنے ملک پاکستان پر فخر کرسکیں گے ۔

تازہ ترین