• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمومی طور پر پنجاب کے سیاسی رجحانات کے بارے میں دو مقبول بیانیے ہیں۔ ایک بیانیہ تو پنجاب سے باہر دوسرے صوبوں میں پایا جاتا ہے جس کے مطابق پنجاب ایک غالب اور غاصب علاقہ ہے جو دوسرے صوبوں کے عوامی حقوق کو دباتا ہے۔ دوسرا بیانیہ پنجاب کے اندر ہے جس کے مطابق وہ نظام کیخلاف جدوجہد میں رہنما کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو دونوں بیانیوں میں کافی حد تک سچائی ہے کیونکہ پنجاب نے دوسرے صوبوں کیخلاف سخت رویوں کی حمایت بھی کی اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میںچالو نظام کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت سب سے بڑی اور طاقتور تحریک کا جنم بھی پنجاب (بالخصوص وسطی پنجاب) میں ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں شہید بھٹو کیلئے خود جلاؤ کی تحریک بھی لاہور میں شروع ہوئی اور ضیاء الحق کیخلاف مزاحمت کرتے ہوئے شایدپنجابیوں نے سب سے زیادہ کوڑے کھائے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج بھی پنجاب میں یہ دہرا رجحان جاری و ساری ہے یا اب بنیادی تبدیلی آرہی ہے جس میں پنجاب میں دوسرے صوبوں کی طرح ریاستی جبر کیخلاف مزاحمت جنم لے رہی ہے۔
پنجاب کی مختصر تاریخ دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی تک وہ تقریباً سویا ہوا تھا۔ہندوئوں اور سکھوں پر مشتمل پنجاب کی تعلیم یافتہ شہری آبادی ہندوستان کی طرف نقل مکانی کر چکی تھی اور 85 فیصد لوگ دیہی علاقوں میں رہتے تھے۔ اسلئے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ریاست کی باگ ڈور جاگیرداروں اور یو پی سے آنیوالی اشرافیہ کے ہاتھوں میں تھی۔ ریاست کے سیاسی ، سماجی اور قانونی ادارے بہت نحیف تھے۔صرف فوج اور پولیس مضبوط ادارے تھے جنہوں نے سیاسی خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔ نظریاتی سطح پر ایک مذہب اور ایک زبان کا منتر وجود میں آیا جس کا مسلمان بنگالیوں اور سندھیوں سے بنیادی ٹکراؤ تھا۔ یو پی کی اشرافیہ کی قیادت میں مذکورہ نظریاتی بیانیہ پنجاب میں بھی مقبول ہوا۔ اسی بیانیے کے خلاف مشرقی پاکستان میں لسانی تحریک چلی اور مرکز کے خلاف نفرت نے جنم لیا۔
ساٹھ کی دہائی تک آتے آتے پنجاب میں خواندگی کی سطح بلند ہو چکی تھی اور اسکے شہری طبقات کافی حد تک مستحکم ہو چکے تھے۔ ریاست کے مختلف اداروں میں پنجابیوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی اور یوپی سے آنے والوں کی تعداد گھٹ رہی تھی۔ساٹھ کی دہائی کے آخر تک ملک کی نوکر شاہی میں پنجابیوں کی تعداد کافی بڑھ چکی تھی اور چونکہ سیکورٹی اداروں میں پہلے ہی پنجابی اکثریت میں تھے لہٰذا ہر طرح کے ریاستی جبر کی شناخت پنجابیوں سے ہونے لگی۔ لیکن اس کیساتھ ساتھ پنجاب کے غیر جاگیرداری وسطی علاقوں میں منصفانہ نظام کیلئے ایک لاوا پک رہا تھا جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی روٹی کپڑے اور مکان کی تحریک کی صورت میں سامنے آیا۔ پنجاب میں 1970ءکے انتخابات میں ایک پر امن انقلاب برپا ہو چکا تھا جس کی گہرائی کو آج تک سمجھا نہیں گیا۔ اس انتخابی انقلاب نے ذات، برادری، فرقہ پرستی اور اونچ نیچ کے نظام کی مکمل نفی کردی تھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی سندھ میں بھی انتخابات جیتی تھی لیکن وہاں زیادہ تر جاگیر دار ہی فتح یاب ہوئے تھے جبکہ پنجاب میں عام درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے لوگ جیت کر سامنے آئے تھے۔ اگر 1970ءکے بعد کے زمانے کو دیکھا جائے تو بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں معاشی ترقی اور منصفانہ نظام کا وعدہ کرنے والی پارٹیاں جیتتی رہی ہیں۔
اگرچہ پنجاب میں 1970ءکے انتخاب کے ذریعے انقلاب تو آچکا تھا لیکن نظریاتی سطح پر ریاست کا مروجہ بیانیہ غالب تھا۔ اسی لئے جب مشرقی پاکستان میں آپریشن ہواتو عام پنجابیوں نے بھی ریاستی طرز عمل کو درست سمجھتے ہوئے اس کی حمایت کی۔ المیہ یہ ہے کہ ملک کے دولخت ہونے کے بعد بھی پنجاب میں دوسرے صوبوں کے خلاف ہونیوالے اقدامات کی خاموش تائید جاری رکھی گئی۔لیکن یہ بھی زیر نظر رہے کہ پنجاب میں منصفانہ تبدیلی کیلئے کوششیں جاری رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں شخصیتوں کے بجائے پارٹی پروگرام اور معاشی ترقی کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ پنجاب میں شخصیتوں اور الیکٹ ایبلز کو مبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے ساہیوال سے لیکر راولپنڈی تک اور اب پورے پنجاب میں ایک ہی سیاسی لہر ہوتی ہے جس میں ایک ہی پارٹی غالب رہتی ہے۔ غرضیکہ پنجاب بنیادی سیاسی تبدیلیوں میں ترقی پسند کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اب بھی پنجاب پرانے نظام کو الٹ پلٹ کرنے کیلئے تیار ہے۔
تاریخ سے نا آشنابہت سے نام نہاد لکھاری اور میڈیا اینکر یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ پنجاب کا کیا ہے وہ تو ہمیشہ چڑھتے سورج کی پوجا کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بارھویں صدی سے ستارہویں صدی تک شمال سے آنے والے حملہ آور پہلے پنجاب کو فتح کرتے تھے اور پھر آگے بڑھتے تھے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس حملہ آور کو پنجاب نہیں روک سکا اس کو کس نے روکا ہے؟ اور یہ بھی سچ ہے کہ یہ پنجاب ہی ہے جس نے رنجیت سنگھ کی شکل میں شمال سے آنے والے حملہ آوروں کا ہمیشہ کے لئے راستہ بند کر دیا۔ مغربی سامراج ہندوستان کے جنوب اور مغرب سے پرتگالیوں کی سربراہی میں اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہوا تھا۔ مغربی سامراج کے خلاف بھی پنجاب فتح ہونے والی آخری ریاست تھی۔اور اگر زمانہ حاضر پر آجائیں تو 1970 میں پنجاب نے سب سے پہلے پورے نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے خلاف بھی پنجابیوں نے مزاحمت کی ایک شاندار تاریخ رقم کی۔ ماضی قریب میں عدلیہ بحالی کی تحریک، جس نے ڈکٹیٹر جنرل مشرف کا خاتمہ کیا، پنجاب سے ہی شروع ہو کر مقبول ہوئی۔
یہ بات درست ہے کہ پنجابی باقی پسے ہوئے صوبوں کے حقوق کی تحریک کا پوری طرح ساتھ نہیں دے سکے لیکن اس وقت جو پنجاب میں مزاحمت جنم لے رہی ہے وہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کر سکتی ہے۔ اگر پنجاب کے پچھلے چالیس سال کے رجحان کو دیکھا جائے تو بعید نہیں کہ الیکشن 2018 میں بھی اسی مزاحمتی روایت کو دہرایا جائے جس کا اظہار 1970میں ہوا تھا۔ موجودہ مزاحمتی بیانیہ بہت کمزور اور محدود ہے اس لئے اس کی پسپائی کے امکانات بھی کافی زیادہ ہیں لیکن پنجاب میں جو لاوا پک رہا ہے وہ آخر کار کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین