• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ایک حکایت، ایک سبق: ایک شخص نے ایک غلام خریدا...

ایک شخص نے ایک غلام خریدا۔ غلام نے اس سے کہا، میرے آقا ،میری تین شرائط ہیں:

1) ۔یہ کہ آپ مجھے ادائیگی نماز سے نہیں روکیں گے، جب نماز کا وقت ہو جائے۔

2 ۔ دن کے دوران جو چاہیں مجھے حکم فرمائیں، مگر رات کے وقت کوئی حکم نہ فرمائیں گے۔

3 ۔ میرے واسطے گھر کے اندر ایک کمرہ علیحدہ کر دیں، اس میں میرے علاوہ دوسرا کوئی نہ داخل ہو۔

خریدار نے تمام شرائط منظور کر لیں، پھر کہا کہ کمرے دیکھ لو، غلام نے ایک خراب و خستہ حال کمرہ پسند کیا۔ مالک نے بوسیدہ کمرہ پسند کرنے کا سبب پوچھا تو غلام نے جواب دیا، آقا، کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ٹوٹا پھوٹا کمرہ بھی یادِ خدا کی وجہ سے باغ بن جایا کرتا ہے۔پس وہ غلام دن کے دوران آقا کی خدمت بجا لاتا اور رات کو عبادت الٰہی میں مصروف رہتا۔ عرصہ گزر گیا ، ایک شب مالک اپنے گھر میں چلتا چلتا غلام کے کمرے میں چلا گیا، دیکھا کہ کمرے میں روشنی ہے۔ غلام سجدے میں پڑا ہواہے، اس کے سر کے اوپر زمین اور آسمان کے درمیان میں ایک روشن قندیل لٹک رہی ہے۔ غلام اللہ تعالیٰ کی عبادت و مناجات میں مصروف تھا۔ وہ نہایت آہ و زاری سے دعا مانگ رہا تھا۔

یا الٰہی، تو نے میرے آقا کا حق اور دن کے دوران اس کی خدمت بجا لانا مجھ پر لازم فرمایا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں دن رات تیری عبادت میں مصروفِ عمل رہتا۔ یا الٰہی میرے عذر کو قبول فرما۔ مالک نے اسے دیکھ لیا تھا، جب دن ہوا ،وہ قندیل غائب ہو گئی اور مکان کی چھت بدستور مل گئی۔ اگلی رات وہ اپنی اہلیہ سمیت وہاں آیا۔ کمرے کے دروازے میں آ کر اپنی بیوی سے یہ واقعہ بیان کیا۔ دوبارہ آ کر دیکھا کہ غلام سجدے میں ہے اور اس کے سر پر لٹکتی ہوئی قندیل اسی طرح روشن ہے۔ یہ دونوں دیکھ دیکھ کر رو رہے تھے۔جب دن چڑھا تو انہوں نے غلام کو طلب کیا اور اسے کہا کہ فی سبیل اللہ تم ہماری طرف سے آزاد ہو، تا کہ تم عبادت الٰہی کے لئے بالکل فارغ ہوجاؤ۔ یہ سن کر غلام نے آسمان کی طرف دیکھ کر یوں کہا:”اے صاحبِ راز، اب راز افشاء ہونے کے بعد مجھےزندگی کی طلب نہیں ہے۔پس وہ غلام اسی وقت زمین پر گر پڑا اور مر گیا۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد امام غزالی ؒ لکھتے ہیں کہ نیک آدمیوں،اللہ کے برگزیدہ بندوں اور حق کو چاہنے والوں کے حالات ایسے ہی ہیں۔(مکاشفتہ القلوب، امام غزالیؒ )

اس حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ والے اپنی عبادت بھی دنیا سے چھپ کر کرتے ہیں کہ کہیں لوگوں پر ہمارا راز افشاں نہ ہوجائے۔ اُن کی عبادت کا عروجِ کمال ہی اس وقت ہوتا ہے ،جب وہ خود کو دنیا سے کنارہ کر کے اللہ کے حضور جھکا دیتے ہیں۔ عبادت کا سرور ہی تب ہے، جب معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہو۔

تازہ ترین
تازہ ترین