سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی دختر مریم اور داماد کیپٹن (ر) صفدر جیل چلے گئے ہیں۔ گزشتہ چار سال سے یہی پلان تھا کہ ہرصورت معزول وزیراعظم کو جیل میں بند کرنا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ایک جج صاحب نے بھی کوئی دو سال پہلے وزیراعظم نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے جوش خطابت میں کہا تھا کہ اڈیالہ جیل میں ان کیلئے ابھی کچھ جگہ خالی ہے۔ نوازشریف اور مریم جیل جانے سے بھاگے نہیں ہیں بلکہ خود فیصلہ کرکے کال کوٹھڑی میں بند ہونے لندن سے پاکستان آئے۔ یہ طرہ امتیاز کم ہی سیاستدانوں کے حصے میں آتا ہے اور آمر تو ایسے حالات میں ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگتے رہتے ہیں جس کی تازہ ترین مثال پرویز مشرف کی ہے ان کے پاکستان نہ آنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے جیل کا ڈر۔ اڈیالہ جیل میں تین بار جمہوری طور پر منتخب ہونے والے وزیراعظم کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے تاکہ کچھ لوگوں کی انا کو تسکین مل سکے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو کوٹ لکھپت جیل میں غیر انسانی انداز میں رکھا گیا تو یہی مائنڈ سٹ کارفرما تھا یعنی چالیس سال گزر گئے ہیں مگر اس میں رتی بھر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ پہلے نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے باہر پھینکا گیا، پھر ان کے الیکشن لڑنے پر زندگی بھر کی پابندی لگا دی گئی، پھر ان کو نون لیگ کی صدارت سے ہٹا دیا گیا، پھر انہیں گیارہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور اب جیل میں وہ سلوک کیا جارہا ہے جو ان قیدیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جو کہ انتہائی گھنائونے جرائم میں ملوث ہوں۔ کئی ہفتوں کے غور وخوض کے بعد نوازشریف نے جو فیصلہ کیا کہ وہ برطانیہ سے واپس سیدھا جیل جائیں گے تو انہیں بخوبی علم تھا کہ ان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں کس قسم کا سلوک کیا جائے گا اور ان کا پالا کن لوگوں سے پڑے گا جنہیں پروا نہیں ہے کہ وہ 70 سال کے ہیں اور دل اور شوگر کے مریض ہیں جنہیں ہر وقت ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب 13جولائی کو وہ لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو عجیب تماشا رچایا گیا۔ نہتے باپ اور بیٹی جو خود گرفتاری دینے آئے کیلئے درجنوں باوردی لوگ موجود تھے اور ایک طوفان کھڑا تھا جیسے کہ نوازشریف، مریم اور ان کے حمایتیوں کی طرف سے بہت بڑی مزاحمت ہوگی اور کوئی دہشتگرد آ گیا ہے۔ انہوں نے بھلا مزاحمت کیا کرنی تھی جو خود ہی گرفتار ہونے واپس آئے۔ پھر جس انداز میں ان کو راولپنڈی لایا گیا اور اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا اس نے بھی بہت سے سوال پیدا کیے۔ ان ہتھکنڈوں کا مقصد صرف اور صرف سابق وزیراعظم کو ’’بریک‘‘ کرنا ہے لیکن ان کے ٹارمنٹرز فرسٹریشن کا شکار ہیں کہ ان کے مقاصد پورے نہیں ہورہے۔ نوازشریف کو ویلکم کرنے کیلئے نون لیگ نے کافی موبلائزیشن کی اور ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ لاہور کی سڑکوں پر تھے جبکہ دوسرے شہروں سے آنے والے قافلوں کو وہاں آنے ہی نہیں دیا گیا۔ سب پنجاب کی نگران حکومت کو لعن طعن کرتے رہے کہ انہوں نے کیا تماشا کھڑا کیا ہے مگر انہیں معلوم ہوگا کہ یہ بیچاری تو نہ صرف آنکھوں سے بلکہ عقل اور دانش سے بھی عاری ہے جس کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں ہے ہاں البتہ مختلف ڈرامے کرنے کیلئے نام اس کا استعمال ہوتا ہے۔ ہمیں حیرانی کیئرٹیکر وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک پر ہوئی جو اس سارے کھیل میں خاموش رہے حالانکہ قانون اور آئین کے تحت انہیں اختیار حاصل ہے کہ وہ اس میں کافی اہم رول ادا کرسکتے تھے مگر وہ بھی ڈمی ہی بنے رہے ایسا کر کے انہوں نے اپنی شہرت کو ہی ٹھیس پہنچائی ہے۔ جہاں تک نون لیگ کے شو کا تعلق ہے تو اس کا انداز بھرپور تھا اور یہی اس کا سب سے بڑا کمپین ایونٹ تھا کیونکہ ویسے تو اس کی انتخابی مہم میں بہت رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے اس کا کمپین بہت بھر پور نہیں ہوسکا تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ووٹر فیصلہ کر چکا ہے کہ اس نے کس کی حمایت کرنی ہے لہٰذا اسے انتخابی مہم کی بہت زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے۔
مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف کے ساتھ یہ سب کچھ کرنے سے پاکستان کے مسائل حل ہوگئے ہیں، کیا معاشی حالت بہت بہتر ہوگئی ہے، کیا سیاسی استحکام پیدا ہوگیا ہے، کیا سابق وزیراعظم غیر مقبول ہوگئے ہیں، کیا ان کے مخالفین بہت پاپولر ہوگئے ہیں، کیا پاکستان اب بہت مضبوط ہوگیا ہے، کیا ملک کے تعلقات اپنے ہمسائیوں اور دوسرے ممالک خصوصاً امریکہ سے بہتر ہوگئے ہیں، ان کی غیر موجودگی میں دہشت گردوں جن کی کمر توڑ دی گئی تھی دوبارہ کیوں اپنی کارروائیوں میں زور وشور سے مصروف ہیں، کیا پاکستان کا نام دنیا میں بہت روشن ہوگیا ہے، کیا میڈیا بہت آزاد ہوگیا ہے اور کیا قوم اخلاقی اور معاشرتی طور پر بہت بہتر ہوگئی ہے۔ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ آج پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر بہت بدحال ہے، سیاست میں گندی زبان جس کی موجد پی ٹی آئی ہے کا استعمال بہت عام ہوگیا ہے، آج بھی سیاسی طور پر نوازشریف کی مقبولیت سے ان کے سیاسی اور دوسرے مخالفین اتنے ہی خوف زدہ ہیں جتنے وہ چار سال قبل تھے اور آج بھی ایک ہفتے بعد ہونے والے انتخابات کیلئے بدترین دھاندلی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے الیکشن کے نتائج کو کوئی نہیں مانے گا اور ملک افراتفری کا شکار ہوگا۔ پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا تو سخت ترین سنسر شپ کا شکار ہے جو کہ مارشل لا کے ادوار میں بھی نہیں ہوتی تھی مگر ان پابندیوں کے بارے میں جو کچھ بین الاقوامی اخبارات اور رسائل میں چھپ رہا ہے وہ اصل حالات کو اجاگر کر رہا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان میں لگاتار ’’پھوک‘‘ بھری جارہی ہے کہ ان کی جماعت الیکشن جیت جائے گی اور وہ آئندہ وزیراعظم ہوں گے اسی وجہ سےیہ واحد پارٹی ہے جو کہہ رہی ہے کہ انتخابات بڑے منصفانہ اور شفاف انداز میں ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازع الیکشن ہونے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں صرف اور صرف خرابی ہی ہوگی اور پاکستان کی جمہوریت کئی سال پیچھے چلی جائے گی۔ نون لیگ، پیپلزپارٹی اور باقی تمام جماعتیں شور مچا رہی ہیں کہ پری پول ریگنگ زوروں پر ہے اور خوف زدہ ہیں کہ پولنگ ڈے کوئی بہت بڑا دھاندلی کا تماشا ہونے جارہا ہے مگر ان کی کوئی نہیں سن رہا ۔ عمران خان بھول گئے ہیں کہ جنہوں نے انہیں پمپ مار مار کر بہت پھلا دیا ہے وہی اس غبارے کو پنکچر کریں گے یہ ان کیلئے بالکل مشکل نہیں ہوگا کیونکہ ان کی اسٹینڈنگ ان عناصر کو معلوم ہے۔ پھر یہ موصوف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے کیونکہ ان کی جماعت کے 90 فیصد لوگ وہ ہیں جو کہ اپنی مرضی سے اس میں نہیں آئے بلکہ انہی عناصر کی ’’پراڈنگ‘‘ کی وجہ سے اس کا حصہ بنے ہیں۔ جتنا بہترین ماحول عمران خان کیلئے پیدا کیا گیا ہے اگر اب بھی پی ٹی آئی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکتی تو پھر یہ کبھی بھی اس قابل نہیں ہوگی کہ وہ کسی بھی الیکشن میں کوئی بہتر کارکردگی دکھا سکے۔ بہت سے لوگ تو خوف زدہ ہیں کہ پاکستان کی تصویر دنیا میں کیا بنے گی جب عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے نہ انہیں اپنی زبان پر کنٹرول ہے بلکہ وہ بے شمار اسیکنڈلز جن کا علم ہر ایک کو ہے کا شکار ہیں۔ انہوں نے چار سال میں پاکستان کے سیاسی کلچر کو تباہ برباد کر دیا ہے اور سیاست میں اتنی زیادہ دشمنی اور تلخی پیدا کر دی گئی ہے جو پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایسے وزیراعظم کے ہوتے ہوئے ملک کیا ترقی کرے گا اور کیا سیاسی استحکام آئے گا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)