• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف:سب کی چھٹی لاڈلے کو کھلی چھٹی، ایسا نہیں چلے گا۔
عمران خان:الیکشن سے متعلق اچھی خبریں نہیں آرہیں۔
آج عوام کا عوام کے لیڈروں کو کتنا خیال ہے، عوام اس پری پول عزت افزائی اور پیار محبت پر اب اس طرح سے خوش نظر نہیں آتے جیسے پہلے ہوا کرتے تھے۔ شاید اب بکروں کو ہری گھاس دکھانے کے انجام کا علم ہو چکا ہے، سب ٹھیک تھا، لوگ غیب پر ایمان لاتے تھے، جمہوریت کا خرما بھی تھا ثواب بھی، چیزیں کسی کے بجائے قدرتی طور پر بگڑتی سنورتی رہتی تھیں، انتخابات کی خوشیاں گلی گلی محلے محلے سنائی جاتیں، دیگیں چڑھتی اترتی رہتیں، ’’وڈے لوگ‘‘ چھوٹے لوگوں کے دروازے پر بھکاری بن کر آتے تو غریب لوگ پورے 5برس کے لئے چارج ہو جاتے۔ حکومت بنتی ایک ہم رنگ حکومت اپوزیشن ہوتی، وعدے ہوتے وفا نہ کرنے کے لئے، ستم ظریفی ہوتی محبت کے روپ میں، میڈیا چند اخبارات تک محدود تھا، چینل ایک ہی تھا جسے پی ٹی وی کہا جاتا تھا، اسے صبح کی تلاوت سے ترانے تک دیکھا جاتا، فلمیں ایسی کہ شو ٹوٹتا تو سارے چہروں پر اس کی کہانی رقم ہوتی۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بڑی اسکرین پر ایک ہی شمیم آرا پوری قوم کے لئے کافی تھی، جن کی نظریں کھلے ڈلے لباس دیکھ دیکھ کر کمزور ہو جاتیں ایک ہی فلم دیکھ کر سکس بائی سکس ہو جاتیں، تب بھی کرپشن ہوتی تھی، لوگ رشوت بھی ہدیہ سمجھ کر دیتے، پولیس کی تو وردی ہی کافی تھی، کوئی یہ نہیں کہتا تھا ؎
کجھ شہر دی پلس وی ظالم سی
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
لاہور میں آج جتنی نیکی، مذہب پرستی اور حسینوں پر گھر سے نکلنے کی پابندی تھی اس کا دور دور تک نشان نہیں تھا، گناہوں اور عیبوں پر پردہ پڑا رہتا اور یوں چورتکے لے نہ سکے جیسا سماں تھا، مگر پھر اچانک یہ منظر ہی بدل گیا اور غریبی میں امیری کا مزا جاتا رہا، روشنی طبع، بلا بن گئی اور سب کچھ فنا کر گئی۔ جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ہم سب لاڈلے ہیں
تقریباً ہر اخبار، ہر بلیٹن کی ہیڈ لائن ہے:نواز شریف کا اوپن ٹرائل ۔
تھی خبر گرم کہ نواز شریف کا دیدار عام ہو گا
دیکھنے ہم بھی گئے تھے مگر گاڑی بکتر بند تھی
مقدمہ تو مقدمہ ہوتا ہے چاہے جیل میں چلے یا اوپن، حیرانی ہے کہ اتنی سی بات پر بھی اختلاف اپنی جگہ ایک مقدمہ بن گیا، ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر کوئی مجرم ہے یا ملزم، اسے ہمارے مجرم یا ملزم کہنے سے کیا کار عدالت میں مداخلت لازم نہیں آتی؟ میڈیا نے کچی نیند سے کچھ اس طرح بیدار کیا ہے کہ اب کسی کروٹ نیند ہی نہیں آتی اور جب ؎
انتخابات کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
جس قوم کو تعلیم عام کرنے کے ذریعے بیدار نہیں کیا گیا کیا اسے میڈیا آگہی دے پائے گا، اگر میڈیا سے بیداری پیدا ہوتی تو وہ بھی ہمارے ملک میں تو کوئی شہری آدھا گھنٹہ اپنے حلقے کی بری حالت بیان کرنے کے بعد یہ نہ کہتا کہ ووٹ پھر اسی عطار کے لونڈے کو دینا ہے، جس کے سبب حلقے کی یہ درگت بنی، ہم نے تصوف کی ایک کتاب میں پڑھا تھا:’’دوست وہ نہیں جسے تُو کہے چل وہ کہے کہاں‘‘ یہ بات ہم نے آج کے سیاسی ورکر میں دیکھی کہ اسے لیڈر چل کہتا ہے تو وہ راہ میں ہمالہ ہو یا آگے دوزخ ہو چل پڑتا ہے، یہ اور بات ہے کہ لیڈر ہی آگے نہ بڑھے، جنہوں نے کبھی زمیں پر قدم نہیں رکھا ہوتا، انتخابات کے موسم میں ان کی 5سالہ واک ہو جاتی ہے اور جو زمین پر چلتے چلتے قد چھوٹا کر بیٹھتے ہیں، مزید پائوں گھسا بیٹھتے ہیں، ان سب میں ایک لاڈلا ہے، باقی برادران یوسف، اور وہ لاڈلا بھی ایسا کہ ہر بار کنویں سے صحیح سلامت نکل آتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
جگت مسلمان ہو گئی !
کچھ عرصے سے ہمارا قومی بیانیہ جگت بازی کی شکل اختیار کر گیا ہے، قومی بیانیہ سے ہماری مراد آپس کی گفتگو ہے، کسی لیڈر ، قائد یا امیدوار کا سیاسی بیانیہ نہیں گھروں سے لے کر چوراہوں، محلات اور ایوان ہائے حکومت تک جو بھی گفتگو کرتے ہیں اس میں کسی نہ کسی طرح جگت نکال ہی لیتے ہیں او ریوں ہماری سنجیدہ نکتہ آفریں گفتگو فقط ایک جگت کی مار بن کر رہ جاتی ہے۔ شاید اسکی وجہ کوئی طویل ہجر کی رات ہے جسے ہم آنسوئوں سے بھگوتے چلے آ رہے ہیں اور وہ گھڑی کتنی قہقہہ آور ہوتی ہے جب محفل میں جگت کسی کو لگ جاتی ہے اور بعض اوقات تو وہی اس کا نام بھی ٹھہر جاتی ہے۔ اکثر لوگ جگت کی غیبت بھی کرتے ہیں مگر یہ شہد سے زیادہ میٹھی اور مقناطیس سے بڑھ کر جاذب ہوتی ہے اسلئے چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر کو لگی ہوئی، اگر آپ مزاح، طنز کی جڑیں کھو دیں تو ان میں بھی یہی جگت کا بیج دکھائی دے گا، اسلئے جگت بازی کو افعالِ بد میں شامل کرنا ہونٹوں سے رس چھیننے کے مترادف ہے۔ جگت، مزاح کی خام شکل ہے اور جو مزا کچی کلی میں ہے وہ پھول میں کہاں۔ آج کل چونکہ انتخابات کا موسم عروج پر ہے، اسلئے جگت کی نئی نئی جہتیں دریافت ہو رہی ہیں۔ ہر خطیب انتخابات اپنے خطبے میں کوئی نئی جگت ضرور پیش کرتا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ جگت غیراسلامی ہوتی ہے مگر ایک مذہبی برائے سیاسی اتحاد کے دو سرکردہ لیڈروں کی تقریر میں بھی جگت کو راستہ بناتے دیکھا تو دل خوش ہوا کہ کافر جگت بھی مسلمان ہو گئی۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جگت کوئی بری چیز نہیں اس سے برداشت اور تحمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ آج اگر کسی مزاح نگار کو جگت باز کہہ دیا جائے تو وہ بالکل اسی طرح ناراض ہوتا ہے جب کسی میراثی کو میر عالم کے بجائے میراثی کہہ دیا جائے، بہرصورت ہنسنے کا سامان جتنا زیادہ ہو کم ہے کیونکہ چینی کم ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
الزام تراشی سے جیب تراشی بھلی
٭ سیاستوں بس کریں او یار
ہکو الف مینوں درکار
زلف تراش کی دکان پر لکھا ہوتا ہے یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے اس لئے یہ زیادہ حقیقت پسندی ہے کہ آپ زلف تراش کو نائی کہہ دیں۔
٭حکومت پنجاب:نواز شریف کو الگ کمرہ دیدیا گیا۔
یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کمر کو کمرہ کہہ دے۔
٭کیا وجہ ہے کہ نواز شریف سے ان کے کارکن ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔
اس لئے کہ وہ شہباز شریف سے جڑ کر پیار کرتے ہیں۔
٭چوہدری نثار:نواز شریف کو کہا تھا عدلیہ مقدس، فوج ملکی سلامتی کی ضامن، محاذ آرائی درست نہیں۔
دوستی اور نصیحت، کھلا تضاد، یہی وجہ ہے شیر سے اتر کر جیپ میں سوار ہونے کی۔
٭ن لیگی رہنما کا الزام:عابد شیر علی نے ٹکٹ دلانے کے لئے 70لاکھ لئے۔
الزام دھرنے کی سزا اسلام میں 80کوڑے، اسی لئے تو اسلام کو نافذ کرنے کا نعرہ بلند کرنیوالے بھی نعرے کے بعد چپ کر جاتے ہیں۔ خدا کے لئے الزام تراشی چھوڑ دیں بھلے جیب تراشی شروع کر دیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین