• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو مجھے سیر کرانے اور میرا سیاسی موڈ بدلوانے کے لئے ڈاکٹر بگھیو اورحارث خلیق فیملیز، مری لے گئے تھے، وہی آج سے 50برس پہلے کا سا مال روڈ، پلاسٹک کے برتن اور کھلونے، چمچماتے کپڑے پہنے نوبیاہتا، آوارہ گردی کرتے نوجوانوں کے گروپ اور پھرسائیڈ بنچ پہ بیٹھے ہوئے مجھ جیسے بزرگ۔ میں یہ منظر دیکھ دیکھ کر بوڑھی ہوئی تھی۔ سوچا چلو ذرا غریب خوانچہ فروشوں، چھلیاں بھونتے بابوں اور ہتھ گڈی میں بیٹھے بچوں اور بوڑھوں سے ملوں ذرا ان کی کہانی تو سنوں، اسی تلاش میں چھوٹے چھوٹے ڈھابوں کی سمت نکل گئی، کہیں آلو چھولے کی چاٹ تھی، کہیں پکوڑے تو کہیں کشمیری چائے، کافی اور کولڈ ڈرنکس، ہر ڈھابے پہ باپ، چاچا، ماما اور محلے داروں کے چولہوں پر چڑھی کڑاھیوں میں سموسے، چپس اور پکوڑے نکالتے ہوئے، چابک دستی سے کام کرتے ہوئے بچے تھے، بچوں کو دیکھ کر ایک دم میرا پارہ چڑھ گیا، پوچھا ’’تم یہاں کام کیوں کررہے ہو، پڑھنےکیوں نہیں جاتے، سارے بچوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ہم پانچویں کلاس میں پڑھتے ہیں۔ اسکول سے واپس آکربابا کا ہاتھ بٹاتے ہیں، یہ سن کر میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’چلو پھر مجھے بھی پکوڑے کھلائو‘‘ ان بچوں نے اتنی مہارت اور سلیقے سے پھولے پھولے پکوڑے اور چپس نکال کر چھاننے میں گھی نچوڑ کر کاغذ کی پلیٹوں میں لاکر رکھدیئے، ہم نے ان بچوں کو معاوضے کے سوا بھی پیسے دیئے اور ہنستے ہوئے آگے نکلے، ابھی پوری طرح اندھیرا نہیں ہوا تھا، سفید بالوں والا ایک بابا، کچی دودھیا چھلیاں کوئلوں پر سینک کر اور لیموں مسالا لگاکر، لوگوں کے ہاتھ میں پکڑا رہا تھا، ساتھ بیٹھا بچہ بوری میں سے چھلیاں نکال کر انکے بال اتارکر بابا کو پکڑا رہا تھا، بابا نے فی پھلی ہم سے 30روپے مانگے، پوچھا ’’آپ روز کی کتنی چھلیاں یوں سڑک کنارے بیٹھ کر بیچ لیتے ہیں، بولتے کبھی سو تو کبھی پچاس، پھر میں بول پڑی ’’بابا آپ بچے کو پڑھاتے کیوں نہیں‘‘ بچہ اچک کر بولا ’’میں چوتھی کلاس میں پڑھتا ہوں، اسکول سے واپس آکر دادا کے ساتھ کام کرتا ہوں‘‘ اور تمہارے بابا کیا کرتے ہیں، ’’وہ ہتھ گڈی چلاتے ہیں ’’گھر کہاں ہے‘‘ نیچے گائوں میں۔
آرمی ہیڈ کوارٹر ساتھ تھا، گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی، وہاں سے مال روڈ تک بہت چڑھائی تھی میں اور رضیہ، دونوں عمر کو دھکا دینے کے باوجود اس ہتھہ گڈی پہ بیٹھ گئے، جب بہت چڑھائی کم ہوئی تو ہتھ گڈی والا نوجوان، ذرا رک گیا، پوچھا خیریت ہے! بولا ’’ذرا سانس برابر کر رہا تھا‘‘ ہمارے دونوں کے سینے میں چبھن محسوس ہوئی، بعد میں جب بہت اترائی تھی، پھر وہ ذرا دیر ٹھہرا، ہوگی کوئی چالیس برس عمر، فی سواری 50روپے لیتے ہو، تو دن میں کیا کما لیتے ہو، کبھی ہزار تو کبھی آٹھ سو، ’’ہتھہ گڈی تمہاری اپنی ہے‘‘ نہیں جی ڈیڑھ سو روپے کرایہ روز کا دیتا ہوں، پاس ہی سفید داڑھیوں والے بابے، ہتھ گڈی چلاتےنظر آئے، میں نے رک کر پوچھا ’’آپ تھک نہیں جاتے‘‘ ہم پہاڑی لوگ ہیں، روٹی تو کمانی ہے ، میں چپ ہوگئی، پوچھنے کی جرات نہیں ہوئی کہ اس عمر میں اولاد، روٹی نہیں کھلاتی ہے۔ ایک آدھ دکان کے علاوہ، کہیں عورت نہیں تھی اور وہ بھی خاندان کے بچوں کے ساتھ کڑھائی والے کپڑے فروخت کررہی تھیں۔ مری میں ہوٹل تو لاتعداد ہیں مگر ویٹر کے طور پر ہر جگہ بچے کام کررہے تھے، دو تین عورتیں جو مری کی نہیں لگتی تھیں، چادر پھیلائے بھیک مانگ رہی تھیں، ورنہ پوری مال روڈ پر اسلام آباد کی طرح بچے بوڑھے اور عورتیں بھیک مانگتے نظرنہیں آئے۔
ایکسپریس وے پر جاتے اور لوٹتے ہوئے بڑی سجاوٹ والے ہوٹل بھی نظرآئے۔ اونچی دکان پھیکا پکوان، سوچا اس خوبصورت ہوٹل میں ناشتہ کرکے واپس لوٹتے ہیں آرڈر دیا 8پراٹھے اور آٹھ انڈوں کا آملیٹ، جب صبر کی حد ہونے لگی تو انڈے پراٹھے معہ سترہ سو کے بل کے لائے گئے۔ ہماری پانچویں کلاس کی بچیاں بھی ان سے بہتر پراٹھے بنالیتی ہیں، باہر سے جلے اور اندر سے نرے کچے۔ پھرہمیں ڈھابے کی گرم گرم روٹیاں یاد آئیں، دل کرتا رہا واپس جاکر انہی ڈھابوں پہ بیٹھیں۔
میں پھر پچاس برس پہلے کا مری یاد کرتی رہی، لطیف کاشمیری تھے، تو جو کوئی ادیب آتا، اوپر لائبریری میں، وہ ان کے ساتھ شام مناتے تھے، لائبریری میں خوب رونق رہتی تھی، لوگوں کو معلوم تھا شام 5بجے، یہاں کوئی نشست ہوگی، کھنچے چلے آتے تھے، سیڑھیاں چڑھ کر سیمس تھا، وہاں ہفتہ اور اتوار کو ڈانس ہوتا تھا نہ کوئی آواز کستا تھا، نہ بے تحاشہ رش ہوتا تھا، اب وہاں ایک ریسٹورنٹ ہے ہر طرف کھا باہی کھا باہے، بس لائبریری کے نیچے وہی پرانی بک شاپ ہے جہاںعمیرہ احمد اور شہاب صاحب کی کتابوں کے علاوہ حسن نثار کے ’’کالے قول‘‘ بھی سامنے رکھی تھی، شاعری، تنقید یا افسانہ، نہیں تھا، لوگ سیر کرنے آتے ہیں، کھاتے اور گھومتے ہیں، نہ ہتھ گڈی والے کا احوال پوچھتے نہ بچوں کو کام کرتا دیکھ کر افسوس کرتے، ہاں ایک اور یاد۔ لنٹاٹس اس زمانے کا پوش ریسٹورنٹ تھا، جہاں ججز اور بڑے افسر بیٹھا کرتے تھے اور اب گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین