عام انتخابات کے لیے 24 اکتوبرکی تاریخ کا اعلان کردیا گیا، انتخابات کا اعلان ہوتے ہی بے نظیر نے ملک گیر جلسے منعقد کرنے شروع کر دیے، جبکہ نواز شریف نے بھی جلسوں کا آغاز کردیا۔
الیکشن کا نتیجہ آیا تو اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) نے سائیکل کے انتخابی نشان پر 105 نشستیں حاصل کیں جبکہ پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس (پی ڈی اے) جس کا انتخابی نشان تیر تھا، صرف 44 نشستوں پر ہی کامیاب ہوسکی۔تیسرے نمبر پر حق پرست گروپ پتنگ کے نشان کے ساتھ 15 سیٹیں جیت کر تیسرے نمبر پر رہا۔
اس طرح زمام اقتدار میاں نواز شریف کے ہاتھ آیا اور وہ پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔
انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد4 کروڑ 72لاکھ 55ہزار 302 تھی،2کروڑ 13لاکھ 95ہزار 479ووٹ ڈالے گئے جن میں سے 2لاکھ 31ہزار 568 ووٹ مسترد کیے گئے، اس طرح ٹرن آؤ ٹ 45اعشاریہ 2 فیصد رہا۔
تاہم ایک بار پھر صدر غلام اسحاق خان جو کہ کبھی نوازشریف کے بہت بڑے ہمدرد تھے ان کے مخالف بن گئے ،انہیں آٹھویں آئینی ترمیم کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت منتخب پارلیمان اور حکومت کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل تھا،لہٰذا ن کی بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف حکومت سے بھی نہ نبھ سکی اور18 اپریل 1993ء میں نواز شریف حکومت اٹھاون ٹو بی کا شکار ہوگئی۔
صدرغلا م اسحق خان نے مبینہ کرپشن وبد عنوانی کی بنا پر میاں نواز شریف کی حکومت ختم کر دی۔ یوں غلام اسحٰق خان کی جانب سے بے نظیر بھٹو حکومت کے بعد برطرف کی جانے والی یہ دوسری حکومت تھی۔