• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے کانوں میں آوازیں آتی ہیں۔’پاکستان کو ووٹ دو‘۔ ’ نکلو پاکستان کی خاطر‘ ۔
میں ڈھونڈتا ہوں۔ پاکستان تو کہیں امیدوار ہی نہیں ہے۔ پاکستان نے تو کاغذات نامزدگی داخل ہی نہیں کئے۔ کاغذات تو جاگیرداروں۔ زمینداروں۔ سرداروں۔ شہری مافیائوں۔ ارب پتیوں۔ کروڑ پتیوں نے داخل کیے ہیں۔ میرے پاکستان کے پاس تو کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی فیس بھی نہیں تھی۔ وہ تو پورے کا پورا قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، جنہوں نے اسے قرضوں میں ڈبویا ہے پھر وہی امیدوار ہیں۔
میں سالہا سال سے پاکستان کے انتخابات دیکھتا آرہا ہوں۔ باقاعدہ رپورٹنگ بھی کی ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ 2018کی انتخابی مہم کا معیار پست ترین تھا۔اکیسویں صدی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ گلوبلائزیشن۔ سوشل میڈیا کے دنوں میں انتخابی تقاریر جس سطح کی ہونی چاہئے تھیں ۔ کسی صوبے۔ کسی جماعت کی نظر نہیں آئیں۔ اس میں جو زبان استعمال کی گئی شرمناک تھی۔
عالمی سطح پر جو بھی ادارے یا افراد پاکستان پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔ یا پاکستان میں موجود سفارت کار اپنی حکومتوں کو جو جائزہ رپورٹس بھیج رہے ہوں گے ان میں ہمارے سیاسی قائدین کا کیا تصور ابھر رہا ہوگا۔ وہ اس ہر لمحہ سمٹتی ہوئی دنیا میں اس اہم حساس محل وقوع رکھنے والے ملک کو چلانے والوں کے بارے میں کیا رائے قائم کررہے ہوں گے۔ جو بھی الیکشن جیتے گا اسے 2023تک اس خطرناک اور مشکل ریاست کی قیادت کرنا ہے۔ جو دنیا سے الگ تھلگ نہیں ہے۔ جہاں دو بڑی طاقتوں امریکہ اور چین کے اربوں ڈالر بھی لگے ہوئے ہیں۔ ان کے مستقبل کے اقتصادی۔ عسکری اور علاقائی مفادات بھی وابستہ ہیں۔
بین الااقوامی میڈیا میں ہمارے انتخابات کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی۔ بی بی سی اور وائس آف امریکہ اپنی اُردو نشریات کے لیے کچھ کررہے ہیں مگر وہ نشریات تو ہمارے لیے ہی ہوتی ہیں۔ کچھ اخبارات میں اگر آبھی رہا ہے تو کالعدم تنظیموں کے الیکشن میں حصّہ لینے سے متعلق۔یوں سمجھنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامی دنیامیںیہ تاثر ہے کہ ان انتخابات سے اقتدار منتقل نہیں ہوگا۔ مقتدر جو ہیں وہی رہیں گے۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو پاکستان میں بھی یہی تاثر ہے کہ پارلیمنٹ معلّق رہے گی۔ قطعی اکثریت تو کیا کسی پارٹی کو سادہ اکثریت بھی ملتی مشکل نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جیسی انتخابی مہم ہوتی ہے۔ ویسے ہی انتخابی نتائج ہوتے ہیں۔
الیکشن قومی اور صوبائی قانون ساز اداروں کے ہورہے ہیں۔ لیکن میڈیا کے سینئر تجزیہ کار۔ ایڈیٹرز۔ ان مسائل کے حوالے سے تجزیہ کررہے ہیں۔ جو بلدیاتی اداروں کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کی طرف سے جب بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھین کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حوالے کردیے جائیں گے تو نتیجہ یہی ہونا ہے۔ پھر ہمارے سینئر اینکر پرسن شہر شہر کچرے میں ہی جمہوریت تلاش کریں گے۔
پاکستان کو اگر ہر لمحہ بدلتی۔ترقی کرتی۔سمٹتی۔ ایک دوسرے کے قریب آتی دنیا میں سر اٹھاکر جینا ہے تو ہمیں تعلیم۔ صحت۔ٹیکنالوجی۔ تحقیق۔ ٹرانسپورٹ۔ موسم کی تبدیلی۔ معیار زندگی کی بلندی کے حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ تینوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ(ن)۔ پی ٹی آئی۔ پی پی پی ۔ حکومت میں رہ چکی ہیں۔ دوران حکومت بھی ان بنیادی امور کے لحاظ سے ان کی کارگزاری قابل رشک نہیں ہے۔ پی پی پی ۔ مسلم لیگ(ن)کی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں ڈالر 130روپے کا ہوگیا ہے۔ اسے کوئی روک نہیں پارہا ہے۔ بہت ہی بیمار اور کمزور پاکستانی روپے کو سہارا دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔
آپ بھی انتخابی مہم پر غور کررہے ہوں گے۔ ٹاک شوز بھی دیکھتے ہوں گے۔ آپ میں سے کچھ جلسوں میں اپنے اپنے محبوب قائدین کی ایک جھلک دیکھنے بھی گئے ہوں گے۔ مجھے بتائیں کہ ان میں کسی نے 1۔ پانی کی بڑھتی ہوئی قلّت گلیشیئروں کے پگھلنے۔ ڈیم بنانے کے لیے اپنے دَور حکومت میں کچھ کیا اور اب اس سلسلے میں کوئی ٹھوس وعدہ کیا۔2۔معیشت کی ابتری۔ ڈالر کی اُڑان روکنے کے لیے کوئی نسخہ بتایا۔3۔ ریکوڈک میں تڑپتے سونے۔ تانبے کو نکال کر معیشت مضبوط کرنے کے لیے کوئی فارمولا بتایا۔4۔ سی پیک میں چین سے باقاعدہ معاہدے کرنے اور ہر علاقے تک اس کے ثمرات پہنچانے ۔ چین کے قرضے واپس کرنے کے طریقے بتائے۔5۔ہندوستان ہماری ترقی میں رکاوٹیں ڈالتا ہے یا نہیں کسی نے اپنی ہندوستان پالیسی دی۔6۔مقبوضہ کشمیر میں غاصب ہندوستان کے مظالم بڑھ رہے ہیں کسی نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے کچھ کہا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 60فی صد نوجوان آبادی دی ہے۔ کسی نے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی منظّم تجاویز دیں۔8۔ ملک میں انتظامی نا انصافی دور کرنے کے لیے نئے صوبوں کی تشکیل وقت کا تقاضا ہے۔ کسی نے اس پر جامع حکمتِ عملی دی۔9۔ ہم جنوبی ایشیا تعاون تنظیم سارک کے رکن ہیں۔ بھارت اس کے اجلاس نہیں ہونے دے رہا ہے۔ اس خطّے سے غربت دور نہیں ہورہی ۔ پڑوسی ممالک آپس میں برسر پیکار رہتے ہیں کسی نے سارک کا نام بھی لیا۔10۔ بلدیاتی ادارے۔ جمہوری نظام کی بنیاد ہیں۔ صوبائی خود مختاری کی بات کی جاتی ہے۔ ضلعی خود مختاری سلب کی جارہی ہے۔ ان کے اختیارات واپس کرنے کا وعدہ کسی نے کیا۔11۔ علاج معالجہ۔ سستی اور اچھی دوائوں کی فراہمی کی بات کسی نے کی۔12۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہم امریکہ کے اتحادی ہیں۔17سال سے اس اتحاد میں کیا نقصان کیا فائدے ہوئے۔ آئندہ یہ اتحاد جاری رکھنا ہے یا نہیں۔ 13۔ کسی نے اپنی افغان پالیسی بتائی۔14۔ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ کسی نے بتایا کہ ہر ایک پاکستانی کے لیے لازمی اور مفت پرائمری تعلیم کا کوئی پروگرام ہے۔15۔ بلوچستان۔ سندھ کے لا پتہ افراد کی بازیابی کا کسی نے وعدہ کیا۔
میں تو کئی دن سے یہ سارا جائزہ لینے کے بعد اس تشویش میں مبتلا ہوں کہ کیا 25جولائی 2018۔ہم 21کروڑ زندگیوں کو محفوظ ہاتھوں میں دے پائے گی کہ نہیں۔ قوم کو یہ تسکین تو ہوتی ہے کہ پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔ ہماری مسلّح افواج الرٹ بھی ہیں۔ جدید ترین اسلحہ بھی۔ تربیت بھی۔ پاکستان کے لئے سی پیک سب سے بڑی امید ہے کہ چین اپنے 60ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری اپنے منصوبوں کے تحفظ کے لیے پاکستان کو بیرونی اور اندرونی خطرات سے بچائے گا۔ لیکن اس الیکشن کے نتیجے میں اسلام آباد کا تخت سنبھالنے والی وفاقی حکومت۔ لاہور۔ کراچی۔ پشاور۔ کوئٹے کی راجدھانیاں حاصل کرنے والی حکومتیں کیا وہ ذمہ داریاں پوری کرسکیں گی جو آئین اور قانون کے ساتھ وقت کا تقاضا ہیں۔
سب سے اولین فیصلہ تو معیشت کا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں۔
ان تینوں پارٹیوں نے کسی متبادل حکومت اور ارکان کا اعلان نہیں کیا ہے۔ وزیر خزانہ۔ وزیر خارجہ۔ وزیر داخلہ۔ وزیر دفاع کون ہوگا ۔ دنیا کے اس مشکل ترین خطّے کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ان کی ترجیحات کیا ہوں گی۔ 2023تک بھارت چین ۔ دبئی۔ افغانستان۔ ایران۔ بنگلہ دیش۔ ترکی ۔ ملائشیا کہاں پہنچے ہوں گے۔ ہم جو اس وقت کئی سال پیچھے ہیں۔ اس دوڑ میں شامل بھی ہوسکیں گے یا نہیں۔ اب آپ سے الیکشن کے بعد گفتگو ہوگی ان شاء اللہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین