مرزایاسین بیگ
ووٹر سیاست دانوں کی ایسی سوتیلی اولاد ہے جو اسے صرف اپنے کڑے وقت پر یاد آتی ہے۔ووٹر کا صرف ایک دن ہوتا ہے،باقی تمام پانچ سال جیتنے والے کے۔پاکستانی ووٹر کا شمار دنیا کے مظلوم ترین ووٹرزمیںہوتاہے۔ووٹرکی پرورش علم،ترقی اور عیش و عشرت سے دور رکھ کر کی جاتی ہے۔اسے صرف چند مخصوص نعرے ،جھنڈے اور لیڈرز کے نام رٹائے جاتے ہیں،جنھیںوہ زندہ باد کے لاحقوںکے ساتھ زورزورسے ساری زندگی گاتارہتاہے۔
ووٹرنے خدا نہیں دیکھاہوتاہے،مگر اپنا لیڈر زندگی میں ایک بار کہیں دور سے دیکھاہوتاہے۔وہ جب بھی سنتاہے،یہی سنتاہے کہ اس کا لیڈر،اس کی غربت دور کرنے کے لیے کام کرہاہے۔وہ اسی بات سے فاقوںکے درمیان بھی نہال رہتاہے۔وہ اپنی سخت محنت کی زندگی میں سے وقت نکال کر،سردی وگرمی کی پروا کئے بغیر،اپنے لیڈرکے لیے دریا بچھاتا،کرسیاںرکھتا اور قناتیںلگاتاہے۔اسے اپنی بیوی سے زیادہ ،اپنےلیڈر پر بھروساہوتاہے۔بیوی اگر کسی غیر مرد سے دومنٹ بات کرلے تو وہ طوفان کھڑاکردیتا ہے اور لیڈر دشمن کی گود میں بھی جابیٹھے تو اسے اس کی دانش مندی سمجھتاہے۔ووٹر اپنی پارٹی کی وجہ سے لیڈر کو پسند نہیں کرتا ،بلکہ لیڈر کی وجہ سے اسے پارٹی اچھی لگتی ہے۔اسے اس بات کی الجھن نہیں ہوتی کہ اس کی زندگی میں خوشحالی کیوں نہیں آرہی بلکہ وہ اس بات سے خوش رہتا ہے کہ اس کا لیڈر حکومت کے کام چھوڑ کر،روزانہ اس کے لیے تی وی شوز میں وقت نکالتا ہے اور یہ بتاتاہے کہ وہ اپنے ووٹر کے لیےکون کون سے منصوبے تیار کررہاہے۔ووٹر کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس کا لیڈر اس کے لیے صرف کاغذی منصوبے کیوںبناتاہے؟
سمجھا جاتا ہے کہ ووٹر کے منہ میں زبان نہیں ہوتی ،حالاںکہ ہوتی ہے،مگر صرف بیوی ،بچوں پر دھاڑنے کے لیے ۔لیڈر کے سامنے یا پیچھے اس کی زبان ہی نہیں کُھلتی ،وہ سمجھتا ہے کہ مذہبی کتابوں کے بعد ،جو سب سے مقدس چیز دنیا میں اتاری گئی ،وہ اس کا لیڈر ہے۔وہ اپنے لیڈر کے بارے میں دوسروں کے منہ سے بھی کوئی تنقید سننا نہیں چاہتا۔ووٹر اپنے لیڈر کے لیے ستائشی زبان اور غیر کے لیے آتشی کمان رکھتاہے۔
ووٹر کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہیں ۔وہ اسے اپنے لیڈر کی امانت سمجھتاہے اور بلاتکلف ہر بار لیڈر کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔اسے اپنے لیڈر سے یہ پوچھنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ بر سہابرس سے میں آپ کو ووٹ دے رہا ہوں ،آپ مجھے کیا دے رہے ہیں؟آپ میرے سامنے سنگل پتی تھے اور آج ارب پتی ہیں،میں کل غریب تھا ،آج مفلس ہوں ،آخر کیوں؟آپ ہم پر صرف زبانی رحم کھاتے ہیںاور اکیلے بیٹھ کر اربوںکی امداد کھاجاتے ہیں،ایسا کیوں؟میرابچہ چائے کے کھوکے میں اور آپ کا بچہ یوکے میں،کیوں؟
ووٹر کی دنیا بھر میں بڑی عزت ہے،سوائے پاکستان کے ۔ہمارے ووٹر اگر ووٹ کی اہمیت سمجھ لیں تو ان کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوسکتاہے۔لیڈر پوجنے کے لیے نہیں ،منتخت کرنے کے لیے ہوتے ہیں،جو آپ کو کچھ نہ دیں،انھیںکچرے دان میں ڈال دیں۔تب ہی آپ اپنی کمائی ،اپنے ملک کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔اچھالیڈر وہی ہوتاہے ،جو اپنی اولاد اورووٹر سے یکساں محبت کرتاہو۔جب اولاد برے باپ کو ٹھوکر مارسکتی ہے تو ووٹر برے لیڈر کو کیوں نہیں ؟جب تم برے لیڈر کو پیروںپر رکھوگے ،تب ہی اچھا لیڈر تم کو سر پر بٹھائے گا۔قسمت پانچ سال میںایک باردستک دیتی ہے۔اچھی قسمت چنو،برالیڈرنہیں۔
ووٹنگ کا دن ووٹ ڈالنے کے لیے ہوتاہے۔آرام کرنے کے لیےنہیں۔جو قوم ووٹنگ کے دن آرام کرتی ہے۔وہ اگلی مدت تک بے آرام رہتی ہے۔جو لیڈر صرف ووٹ لینے اپنے حلقے میں آئے،اس کے ساتھ وہ سلوک کرو کہ اسے لینے کے دینے پڑجائیں۔طاقت،لیڈر میں نہیں،ووٹر ز میں ہوتی ہے،جو اسے لیدر بناتی ہے۔لیڈر من مانی کے لیے نہیں،بلکہ اپنے ’’ووٹرجانی‘‘کے لیےہوتاہے۔لیڈر کو سمجھادو،وعدہ توڑہ گے تو ہم ناتاتوڑیںگے ۔لیڈر حکومت کرتاہے،عوام کے لیے ،اپنے لوحقین کے لیے نہیں۔لیڈر کو تقریرسے نہیں،عمل سے پہچانو۔