ڈاکٹر رضوانہ انصاری،حیدرآباد
’’سیاسی قائدین نے نوجوانوں کو عدم برداشت، مخالفین پر لعن طعن اور غیر مہذب زبان استعمال کرنے کا درس سر عام دے کر انہیں مشتعل نوجوان بنادیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی بھی جماعت یا سیاسی راہ نما کے خلاف کوئی بات کی جائے تو سوشل میڈیا پر ایسی غیر اخلاقی، غیر شائستہ زبان پڑھنے کو ملتی ہے کہ شک گزرتا ہے کہ کیا یہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کی زبان ہے۔ اختلاف رائے کوئی جرم نہیں، یہ تو جمہوریت کا حصہ ہےلیکن زبان ایسی…‘‘
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے حیران ہوں،میں اس تماشے کی بات کررہی ہوں جو اُصولاًایک خاص مدت کے بعد باقاعدگی سے ہونا چاہیے، مگر بدقسمتی سے میرے پیار سے وطن میں مستقل ایسا ہوا نہیں، کبھی مارشل لاء اور کبھی وقت سے پہلے حکومتوں کی بر طرفی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ سمجھ گئے نا آپ، جی ہاں الیکشن تماشہ۔ اب 2018ء کا الیکشن تماشہ شروع ہوچکا ہے۔ ہر طرف ایک شور سا بپا ہے۔ گلیوں اور سڑکوں پر بینرز بہار دکھا رہے ہیں۔ پارٹی ترانے گونج رہے ہیں۔ کارنر میٹنگز کا آغاز ہوچکا ہے۔ جلسے جلوس اور ریلیوں کی شکل میں لوگ جمع ہورہے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کے خطاب اور بیانات کو سن کر کچھ ایسا احساس ہوتا ہے کہ صرف مخالفین کو نیچا دکھانا، دوسروں میں خامیاں نکالنا، الزام تراشیاں کرنا اور عورتوں کی طرح طعنے دینا ہی ان کا مقصد ہے۔ آپ خود کیا ہیں، کیا چاہتے ہیں، کیا کریں گے، اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں، بلکہ جس کی جتنی گندی زبان اور غیر اخلاقی الفاظ ہوتے ہیں، ان پر اتنی ہی تالیاں بجتی نظر آتی ہیں۔ اخلاقی دیوالیہ پن پورے معاشرے میں عروج پر ہے، وہ تقریر کا فن، وہ بات کرنے کا ہنر، وہ انداز گفتگو، وہ خطاب کا طریقہ، نہ جانے کس زمانے کی باتیں لگتی ہیں۔
سیاسی لیڈران پر نظر ڈالیں تو کوئی وزیراعظم بننے کے لیے تڑپتا نظر آرہا ہے، چاہے اس کے لیے اسے کچھ ہی کرنا پڑے، چاہے وعدے سے پھر جائو، مخالفین سے ہاتھ ملوالو، مگر وزیراعظم بنا دو، کوئی اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے اور اپنے گھر والوں کو مقدمات سے بچانے کے لیے ہر حد سے گزرنے کے لیے تیار ہے۔ تیسری طرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کر کے پس پردہ سازش کے جال پھیلائے جارہے ہیں، چاہے اس کے لیے کتنا ہی مظلوم بننا پڑے اور کچھ اپنی پارٹیوں کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، کچھ ناراضوں کا ٹولہ نئی پارٹی تشکیل دے رہا ہے۔انتخابی عمل کے آغاز میں ہی پارٹی ٹکٹوں کے معاملے پر ملک کی بڑی جماعتوں پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون میں ہڑبونگ، اراکین کا رنج وغصہ ،ناراضگی، دھرنا، نعرے بازی اور لڑائی جھگڑے، حتیٰ کہ خواتین کی مارکٹائی تک کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، جو پارٹیوں کی تنظیمی خرابیوں کا کھلا ثبوت ہیں۔ انتخابات 25 جولائی کو ہیں لیکن انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بڑی پارٹی نے پاکستان کو درپیش مسائل کے حل، عوام کی بہبود اور ملک کو ترقی دینے کے لیے کسی قابل عمل پروگرام کا اعلان نہیں کیا۔ خواب دکھانے اور پالیسی بنانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کو داخلی امور، امور خارجہ، مالیت، معیشت، دفاع، صحت اور تعلیمی وزارتوں کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے شعبوں میں قابل، ذہین، دوربین اور معاملہ فہم افراد کی ضرورت ہے۔ کیا جن لوگوں کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں، وہ ان کاموں کے اہل ہیں۔یا صرف ’’الیکیٹبلز‘‘ ہیںیہ ہم سب کو سوچنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں کا ہدف صرف اور صرف الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا اور حصول اقتدار ہے۔ سنجیدہ قومی امور پر اچھی اور جامع پالیسی سازی سے انہیں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا قومی مسائل پر سنجیدہ گفتگو اور سیاست دانوں کی اہلیت کے بارے میں ووٹرز کو آگاہ اور ایجوکیٹ کرنے کے بجائے ایسے پروگراموں پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جن میں سیاستدان یا ان کے ورکرز ایک دوسرے کو گالیاں دیتے، نیچا دکھانےاور ہاتھا پائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
نوجوانوں کا سیاست میں دلچسپی لینا انتہائی ضروری بھی ہے اور خوش آئند بھی۔ اگر سیاستدان چاہیں تو نوجوانوں میں بہترین لیڈرز تیار کر سکتے ہیں انہیں سکھا سکتے ہیں کہ تنقید کا سامنا کس طرح مدلل انداز میں جواب دے کر کیا جاسکتا ہے اور مخالفین کو کس طرح شائستگی سے خاموش کروا کر موافقین میں شامل کیا جاسکتا ہے، مگر افسوس کہ کسی کو خیال نہیں کہ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کیسے ہوگی ۔بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان خود اپنی تقاریر میں اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں، ایسے میں پھر ان کے جیالوں، جانبازوں اور لاڈلوں سے تہذیب کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ سیاسی قائدین نے نوجوانوں کو عدم برداشت، مخالفین پر لعن طعن اور غیر مہذب زبان استعمال کرنے کا درس سر عام دے کر انہیں مشتعل نوجوان بنادیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی بھی جماعت یا سیاسی راہ نما کے خلاف کوئی بات کی جائے تو سوشل میڈیا پر ایسی غیر اخلاقی، غیر شائستہ زبان پڑھنے کو ملتی ہے کہ شک گزرتا ہے کہ کیا یہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کی زبان ہے۔ اختلاف رائے کوئی جرم نہیں، یہ تو جمہوریت کا حصہ ہے۔ کسی کو قائل کرنا ہے تو منطقی دلائل سے کریں ناکہ لڑائی جھگڑے سے۔اب تمام پارٹیاں اپنے اپنے نشانات کی تشہیر میں لگی ہوئی ہیں۔کسی کا خیال ہے کہ اس کی ’’سائیکل پر بیٹھنے والا ہی ترقی کی جانب گامزن ہوسکے گا، جبکہ دونوں پہیوں میں ہوا بھی پوری نہیںہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ ’’بلے‘‘ سے ایسا چھکا بلکہ ستہ لگایا جائے کہ گیند سیدھی وزارت عظمیٰ کی کرسی کو چھو جائے، حالاں کہ اس وقت یہ بلا مخالفین کی دھلائی اور نافرمان اراکین کی دھنائی میں لگا ہوا ہے۔ کہیں ’’شیر‘‘ کی کھال پہن کر مخالفین کے شکار کا ارادہ ہے، مگر ابھی تک ’’شیر‘‘ کی چنگھاڑ سنائی نہیں دی۔ کوئی ’’شیر‘‘ سے اقتدار کے ھما کو شکار کرنا چاہ رہا ہے، مگر اس وقت وہ صرف طنز کے تیر ہی برسا رہے ہیں۔ کہیں ’’پتنگ‘‘ کے سنگ بہت آگے جانے کا ارادہ ہے، مگر ڈور میں کئی جوڑ لگ چکے ہیں۔ کہیں ’’ترازو‘‘ کے بل پر انصاف اور اقتدار حاصل کرنے کی خواہش ہے، مگر دونوں پلڑے ہی برابر نہیں ہیں۔ کہیں لوگوں کو مسائل اور آفات سے بچانے کے لیے ’’چھتری‘‘ پیش کی جارہی ہے تو کہیں آپ کے ووٹ سے وزارت کا ’’تالا‘‘ کھولنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کہیں کتاب پیش کی جارہی ہے کہ اس میں ہی تمام مسائل کا حل اور کامیابی کا راز تحریر ہے، جبکہ سارے صفحات خالی ہیں اور کہیں دعوی ہے کہ جیپ ہی کامیابی کی راہ پرگامزن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوسری پارٹیوں کے ناراض ارکان بلا شیر اور تیر چھوڑ کر جیپ پر سوار ہوتے نظر آرہے ہیں، تو کچھ لوگ پارٹیوں کے جھنجھٹوں سے بچنے کے لیے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الگ تھلک گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ اپنا ووٹ کس کو دیں، کیوں کہ بقول شاعر ؎
فرشتوں سے تو ہم اکثر ملے ہیں
ہمیں انسان سے کوئی ملا دے
پہلے انتخابات میں روٹی، کپڑا مکان اور نظام مصطفیٰ جیسے نعرے ہوا کرتے تھے، مگر اب لوگ باشعور ہوگئے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ان تمام چیزوں کا حصول حکومتی کوششوں کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت ہی ممکن ہے۔ اس لیے اب نعرے کی شکل بھی بدل گئی ہے۔ ووٹ کو عزت دو، ووٹر کو عزت دو ،کام کو عزت دو۔ … اور ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں تعلیم کو عزت دو۔ انسان کو عزت دو پاکستان کو عزت دو اور پاکستان کے وقار میں اضافہ کرو، یہ جب ہی ممکن ہے جب میں اور آپ اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔ لیکن بات پھر وہی کہ ووٹ کس کو دیں؟ کیوں کہ الیکشن کے موسم میں ہر بار ہوا کے رخ کے ساتھ وفا داری بدلنے والے ارکان پھر سے متحرک نظر آرہے ہیں۔ کوئی کسی پارٹی کو چھوڑ کر جارہا ہے تو کوئی نئی پارٹی میں شامل ہورہا ہے، بلکہ یہی چہرے بار بار مختلف پارٹیوں میں نظر آرہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر الیکشن سے پہلے ہوا کا رخ دیکھ کر عوام کے پاس جانے سے پہلے اپنے نئے سیاسی مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ عرف عام میں انھیں ’’لوٹا‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ہم میں سے اکثر انہیں ووٹ بھی دیتے ہیں، حالاں کہ یہ لوگ صرف جمہوریت کی بدنامی کا ہی نہیں بنتے بلکہ ووٹر کی تذلیل کا باعث بھی بنتے ہیں، جو ایک الیکشن میں ایک جماعت میں رہتے ہیں لیکن جیسے ہی انھیں کہیں دوسری جگہ مفاد اور کامیابی نظر آتی ہے یہ وفا داری بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ عوامی شاعر، حبیب جالب نے اسی لیے تو کہا تھا؎
پہلے پہلے غریب بکتے تھے
اب تو عزت مآب بکتے ہیں
شیخ واعظ وزیر اور شاعر
سب یہاں پر جناب بکتے ہیں
دور تھا انقلاب آتے تھے
آج کل انقلاب بکتے ہیں
تو سوچیں کیا ایسے لوگ عوام اور ملک سے وفادار ہوسکتے ہیں۔ پھر میں اپنا ووٹ کس کو دوں۔ ایک نظر پھر سے امیدواروں پر ڈالیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ ہم میں سے ہیں ہی نہیں، تو ہمارے نمائندے کیوں کر ہوسکتے ہیں۔ یہ سائیکل، موٹر سائیکل نہیں چلاتے، گندہ پانی اور ملاوٹ والی غذا استعمال نہیں کرتے، بسوں کے ڈنڈے پکڑ کر سفر نہیں کرتے، بغیر گیس، بجلی اور پانی کے زندگی نہیں گزارتے، خود کبھی پانی اور بجلی کے بل جمع نہیں کرواتے، کبھی پینشن کے لیے لائن میں نہیں لگتے، جنہیں فکر نہیں کہ مہینے کے آخری دنوں میں راشن کا انتظام کیسے ہوگا، جنہیں معلوم نہیں کہ گھر کا کرایہ کیسے دیا جائے گا، بچوں کی فیس کیسے ادا ہوگی اور بیماری کی صورت میں سرکاری اسپتال سے دوا کیوں کر حاصل کی جائے گی۔ آلودہ فضا میں سانس کیسے لیا جائے گا ،پھر یہ نمائندے میرے مسائل کو کیا جانیں…
الیکشن صرف تماشہ نہیںہار جیت کا کھیل نہیں، یہ میرا اور آپ کا، میرے اور آپ کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے… اس لیے الیکشن کے دن سستی نہ دکھائیں اور یہ نا سوچیں کہ، ایک ووٹ سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس ایک ووٹ سے ہی فرق پڑتا ہے اور تبدیلی آتی ہے۔ اس لیے ذمہ داری محسوس کریں اور وعدہ کریں کہ رنگ و نسل ذات برادری اور تعلقات سے ہٹ کر ہزار روپے کا نوٹ یا بریانی کی پلیٹ کے عوض اپنے ووٹ کا سودا نہیں کریں گے، کیوں کہ ووٹ صرف حق ہی نہیں بلکہ ایک امانت ایک شہادت، گواہی اور فریضہ بھی ہے، جو میرے اور آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ ووٹ اس بات کی گواہی ہوتا ہے کہ یہ نمائندہ جسے ہم نے ووٹ دیا ہے، اسے اقتدار نہیں بلکہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، جو یہ نبھائے گا، جبکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے، پھر وہی سوال کہ، میں اپنا ووٹ کس کو دوں اور کیوںدوں…؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب تم سیدھے راستے سے ہٹ جائو گے تو تم پر برے حکمران مسلط کردیئے جائیں گے… اس وقت ہمیں اپنا تجزیہ بھی کرنا ہوگا، خود کو تبدیل بھی کرنا ہوگا۔ شخصیت پرستی سے باہر نکل کر عقل اور شعور استعمال کر کے سوچ سمجھ کر صرف اس امیدوار کا انتخاب کرنا ہوگا جو میرے پاکستان کے لیے سچا اور وفادار ہو۔ جو علم کی دولت پر یقین رکھتا ہو، جو میرے وطن کے عزت وقار اور استحکام کوبڑھا سکے، خود کو تبدیل کیے بغیر یہ سوچنا کہ انتخابات کے ذریعے کوئی تبدیلی آجائے گی ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں؎
شامل ہو کوئی کیسے بھلا میرے رائے میں
پہلے تمیز کر تو لوں اپنے پرائے میں
یہ وقت ،وقت الیکشن بھی ہے اور وقت دعا بھی کہ، اے مالک کائنات ہماری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کو معاف فرمادے۔ ہمیں سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما … اور ہم پر برے حکمران مسلط نہ فرما۔
اے کائنات کے رب تو ہمیں قوت اور ہمت عطا فرما… دشمن کے خلاف مزاحمت میں ہماری راہنمائی فرما… اور ہمیں محبت، پانی، ہوا اور اس وطن سے محروم نہ کرنا۔آمین