• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سے باہر بسنے والےپاکستانیوں کو تو ’’اوورسیز پاکستانی‘‘ قرار دیکر پاکستانی نظام کے تمام ’’مالکان‘‘ نے مشترکہ طور پر انہیں ’’لاوارث اور محکوم‘‘ اور قرار دیکر صرف ایک خاموش تماشائی کی حیثیت عطا کررکھی ہے۔ ان کا پاکستان کے نظام میں صرف اتنا حصہ لازم ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن کے تمام اچھےاور ناقص قوانین کے بارے میں کچھ بولے بغیر ان کی مکمل تعمیل کریں۔ سیاستدان اور فیصلہ ساز پاکستان کی معیشت اور سلامتی کے ساتھ جو بھی کھیل رچائیں ۔ چاہے اسلام آباد والے حرص اقتدار سے بھرپور انتقامی سیاست اور غلط معاشی فیصلوں سے پاکستانی روپے کی ڈالر سے شرح تبادلہ کو تاریخی پستی میں لے جاکر 60 روپے فی ڈالر کی شرح کو 130 روپے فی ڈالر میں تبدیل کر ڈالیں۔ یہ ’’اوورسیز پاکستانی‘‘ کوئی سوال پوچھے بغیر اور کوئی مطالبہ کئےبغیر صرف یکطرفہ طور پر پاکستانی معیشت کو ہر سال اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ فراہم کرنے کی ڈیوٹی جاری رکھیں۔ صرف یہی نہیں ’’اوورسیز پاکستانیوں‘‘ کے ’’فرائض‘‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ پاکستان کے سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کو بھی ’’فنڈز‘‘ فراہم کریں۔ 25 جولائی کو ہونے والےانتخابات میں بھی کتنے ہی انتخابی امیدواروںکو ’’اوورسیز پاکستانیوں‘‘ نے غیرملکی کرنسیوں میں انتخابی فنڈز فراہم کئے ہیں، یہ تفصیل بھی بڑی دلچسپی کا باعث ہے۔ لیکن اوورسیز پاکستانیوں کو یہ حق بالکل نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے سیاستدانوں اور پارٹیوںسے اپنے فراہم کردہ فنڈز کا کوئی حساب مانگ سکیں یا کوئی سوال کرسکیں۔ پاکستانی سیاست میں جمہوریت، احتساب اور تبدیلی کا منشور لئے تحریک انصاف کو انتہائی خلوص اور محنت سے صرف امریکہ سے ہی کئی ملین ڈالرز جمع کرکے بھیجنے والے دو ’’فدائیان تحریک‘‘ اپنے خرچ پر پاکستان جاکر اس بارے میں سوال کرنے پر اپنے ہی لیڈروںکے ہاتھوں  دھکے الزامات اور بے رخی کا سامنا کرچکے ہیں کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کی ڈیوٹی صرف ڈالرز کی فراہمی اور یکطرفہ خاموشی سے خدمت کرنا ہے، سوال کا حق نہیں ہے۔ان کا کام اپنی کمائی سے پاکستان میںسرمایہ کاری کرنا جائیداد خریدنا ہے اور پھر اسی پر بااثر ’’قبضہ مافیا‘‘ کے غیرقانونی قبضے اور دھمکیوں کےخلاف صرف مقدمہ دائر کرکے اگلے 30 سال تک انصاف ملنے کی توقع پر سماعت کی تاریخوں اور انصاف کے حصول کیلئےپاکستان کا بار بار سفر کرنا بھی ان کے فرائض حب الوطنی کا حصہ ہے۔ یہی اوورسیز پاکستانی پھر بھی آبائی وطن پاکستان کیلئے خیرخواہی، خدمت اور خلوص کےساتھ پاکستان کی سلامتی، بہتری اور خوشحالی کی خواہش لئے 25 جولائی کے انتخابات سے پاکستان کیلئے مثبت اور مستحکم نتائج کی توقعات لگائےہوئے ہیں حالانکہ نہ تو ان کو ووٹ کا حق ہے اور نہ ہی یہ پاکستانی نظام کا حصہ ہیں۔ بیرونی ملکوں میں آباد یہ پاکستانی انتہائی تعلیم یافتہ، پروفیشنلز اور انتہائی محنت کش طبقات پر مشتمل ہیں۔ یہ آج کی دنیا کے ’’گلوبل ولیج‘‘ کے ماحول میں رہتے ہیں جہاںیہ موجودہ دنیا کے ماحول اور تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں۔پاکستان سے باہر کے عالمی ماحول میں یورپ اور امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کو ان بیرونی خطرات سے آگاہی اور تشویش بھی جو پاکستانی انتخابات کی موجودہ منفی فضا اور الیکشن کےبعد کے منفی حقائق سے صاف جھلک رہے ہیں۔ لیکن ہمارے فیصلہ سازوں اور حرص اقتدار کے مارے سیاستدانوںکو اس کی قطعاً کوئی پروا نہیں ہے۔ (1) خود ہماری ہی داخلی سیاست اور انتخابی بخار نے پاکستانی قوم کو اس قدر ’’پولرائز‘‘ اور متحارب کردیا ہےکہ ہر سیاسی اور انتخابی فریق خود کو معصوم اور ہر منفی رول سے مبرا اور تمام نقائص اور خطرات کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال رہا ہے۔ پولنگ کے آغاز اور نتائج سے قبل ہی ہر انتخابی فریق نے اپنی ممکنہ ناکامی کے جواز کا سامان تیار کررکھا ہے۔ (2) عدالتی فیصلوں کی ٹائمنگ نے جو تاثر پیدا کیا ہے بیرونی ممالک کے پاکستانیوں میں بھی اس بارے میں  متنازعہ تاثر پایا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی اسے انصاف، پی پی پی کے حامی خاموش اور مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوںسے ہمدردی رکھنے والے ناانصافی اور ایک پارٹی کے ہاتھ باندھ کر دوسرے فریق کو کھلی چھٹی اور مراعات دینے کی شکایت کرتے ہوئے اسےپری پولنگ دھاندلی قرار دے رہے ہیں۔حنیف عباسی کے خلاف سات سالہ پرانے مقدمہ کے فیصلے کو رات کے وقت اور الیکشن سے چند روز پہلے نااہلی اور عمر قید کا فیصلہ بھی بہت سے تحفظات پیدا کرگیا ہے۔ اسی طرح آصف زرداری کو الیکشن کے بعد تک کی رعایت اور نوازشریف کو جیل میںڈالنے کی عجلت نے بھی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور پاکستان مخالف بیرونی حلقوں کوتنقید کا خاصا سامان فراہم کردیا ہے۔ ان حلقوںکا کہنا ہے کہ جب اتنے سالوں کی کرپشن اور لوٹ مار کو برداشت کیا جاتا رہا ہے تو پھر چنددنوں کیلئے ان سیاستدانوں کو عوام کے احتساب کے ذریعے مسترد کردیئے جانےکا انتظار کرنے میں کیا ہرج تھا؟یعنی انتخابات کے ذریعے عوام کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف مقدمات کے فیصلے سنائے جاتے تو عوامی مینڈیٹ اور فیصلوں میں ایک ربط اور تسلسل ہوتا۔ آخر الیکشن کے نام پر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو بھی تو عدالتی حکم سے مہلت کی رعایت دی گئی ہے۔یہ صورتحال نہ تو انتخابات کی غیرجانبداری کیلئے اچھا تاثر اور نہ ہی انتخابات کےبعد کے پاکستان کیلئے مناسب ہے۔بلکہ بیرونی پاکستان مخالف عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کا عمل ہے۔ یہ وقت پاکستانی نظام اور اداروں کو مضبوط و مستحکم کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ (3) مخدوش معیشت اور انتخابی نتائج بارے ہر انتخابی فریق کی تنازعات اٹھانے کی تیاری اور تصادم کے ماحول نے الیکشن کے بعد کی صورتحال کو مزید خطرات سے بھردیا ہے۔ (4) بھارت اور دیگر پاکستان مخالف قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے مذکورہ صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں اور مزید اٹھائیں گے۔ (5)  انتخابات کے ان ایام میں دہشت گردی کے سنگین واقعات نہ صرف تسلسل کے ساتھ ہورہےہیں بلکہ دہشت گردوں نےبلوچستان اور خیبر پختونخوا کے چھوٹے صوبوں میں اپنی چوائس کے مقامات اور اہم سیاسی شخصیات کو ٹارگٹ کرکے پی ٹی آئی کے اکرام اللہ گنڈا پور، ہارون بلور، سراج رئیسانی سمیت تین سو پاکستانی شہریوں سے زیادہ افراد کو شہید اور زخمی کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ بیرونی پاکستان مخالف قوتوں کے تعاون سے دہشت گرد اب بھی فعال ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
(6) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے اپنی تقریر میں جو سنگین الزامات و انکشافات کئے ہیں اس کے داخلی صورتحال پر اثرات اپنی جگہ بیرونی دنیا نے بھی اس بات کا نوٹس لیا ہے ۔ 25جولائی کے انتخابات کے بارے میں یہ بیان ایک تازہ مہلک اضافہ ہے ۔
اب آیئے ان ممکنہ خطرات کی جانب جو الیکشن کے بعد پاکستان کو درپیش ہو سکتے ہیں۔ (1) پاکستانی طالبان اور بعض دہشت گرد گروپ انتخابات کی نہ صرف مخالفت کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردی کے تازہ واقعات کی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینے والی بعض سیاسی پارٹیاں بھی انتخابی میدان کی ناہمواری جانبدارانہ ماحول اور پری۔پولنگ دھاندلی کی شکایت کر رہی ہیں۔ امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹنگ بھی نہ صرف یہی تاثر لئے ہوئے ہے بلکہ بڑے سیاسی بحران کے امکانات بھی بتائے جا رہے ہیں۔ بگڑی ہوئی معیشت اور انتخابی جانبداری اور دھاندلی کے الزامات کا ماحول انتخابات کے بعد کے ایام میں بھی کوئی بڑا بحران پیدا کر سکتا ہے۔ (2) بعض بیرونی قوتیں ایٹمی پاکستان کے خلاف سرگرم چلی آ رہی ہیں وہ پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس صورتحال کو کسی بڑے بحران میں تبدیل کر کے وہ اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کریں گی۔ جنوبی ایشیا میں بھارتی بالا دستی امریکی اسٹرٹیجی کا حصہ بھی ہے۔ انتخابی پاکستان میں بھارتی ایجنسیاں سرگرم ہیں اور امریکہ سمیت بیرونی دنیا میں پاکستان کو تنہا اور مسائل زدہ کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ لہٰذا الیکشن کے دوران اور اس کے بعد بھی پاکستان کیلئے داخلی اور علاقائی سطح پر بحران سے دوچار کرنے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کسی ایک پارٹی کی واضح جیت نہ ہونے اور پارلیمنٹ معلق ہونے سے پاکستان کےغیر یقینی صورتحال اور مزید عدم استحکام کی سمت رخ کرنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ ایرانی صدر اور صدر ٹرمپ کے درمیان دھمکیوں کے تازہ تبادلے نے بھی خطے میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔ افغانستان، بھارت اور ایران سے ملنے والی پاکستانی سرحدوں کی ایک انچ بھی دوستانہ نہیں رہی۔ 25جولائی کے الیکشن اور اس کے بعد کے حالات سے نمٹنا پاکستان کی سیکورٹی فورسز کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ داخلی طور پر قوم سیاسی ’’پولرائزیشن‘‘ کا شکار ہو کر منقسم بھی ہے اور بداعتمادی کا شکار بھی ہے۔ ایسی صورت میں قومی سلامتی اور امن و امان کے چیلنجز بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستانی قوم کو تحمل اور پاکستان کے فیصلہ سازوں کو تدبر سے کام لیکر مل جل کر ملک کو بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ تاریخی اور بحرانی انتخابات کو غیر جانبدارانہ طور پر مکمل کر کے پسند اور ناپسند سے بالا ہو کر عوامی فیصلے کو تسلیم کریں اور مینڈیٹ حاصل کرنے والوں کے ہاتھ مسائل زدہ پاکستان کی باگ ڈور حوالے کر دیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین