انقلاب ِ اقبال کی وعیدیں سنانے والے شہباز شریف نے کہا ہے ”یہ اقبال کا پاکستان نہیںیہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے“۔جی ہاں یہ علامہ اقبال کانہیں، شریف خاندان کا، زرداریوں کا ،چوہدریوں کا اور جرنیلوں کا پاکستان ہے ۔
اقبال کا پاکستان تو اُس شاہین کی سرزمین تھی جس کی فطرت میں ذخیرہ اندوزی ہے ہی نہیں ۔جسے جاتی عمرہ اور سرے محل تو کجازمین پرکارِ آشیاں بندی بھی چوہوں کا کام لگتاہے جس کا نشیمن وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے گنبد نہیں سیاچن کے برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں ہیںجو آخری سانس تک عالمی بنکوں کے مردار بدن سے زندگی کی خیرات نہیں مانگتا۔جس کے لئے پلٹنا،جھپٹنا،جھپٹ کر پلٹنا ، لہو گرم رکھنے کا بس اک بہانہ ہے ۔جس نے کسی امریکہ سے کبھی اپنی غیرت کا سودا نہیں کیا۔جو زمین پرپرواز سے تھک کرکبھی نہیں گرا۔جس کی درویشی میں کوئی عیاری نہیں ۔جس کی قلندری میںکسی فضل اللہ یافضل الرحمن کی ملائیت نہیں چھپی ہوئی ۔جس کی خوداری اخباروں کی شہ سرخیوں تک محدود نہیں اور جس کی بے نیازی چور دروازوں سے اقتدار کے ایوانوں میں کبھی داخل نہیں ہوئی، افسوس یہ اقبال کے شاہنیوں کی سرزمین کرگسوں کی دھرتی بن گئی ہے ہم راہ و رسم شاہبازی بھول گئے ہیںیہ پاکستان واقعی اب اقبال کانہیں صحرامیںآخری سانسیں لیتے ہوئے بھوکے پیاسے مسافر پر منڈلاتے ہوئے کرگسوں کا پاکستان ہے۔امریکی تماش بینوںمیں گھری ہوئی ڈالروں کی طلب گارطوائف ہے ۔طالبان سے کوڑے کھاتی ہوئی آوارہ لڑکی ہے۔کتھک کرتی ہوئی مادھوری کے پاﺅں میںکشمیر رکھتا ہوا عیاش ہے ۔طلبِ زر کی قربان گاہ سے ملحقہ قبرستان ہے۔اب یہ اقبال کے نغموں اورزمزموں کی نہیں آہوں ، کراہوں اور چیخوں کی بستی ہے ۔یہاں صبحِ عید بھی شامِ محرم لگتی ہے۔ اب یہ پاکستان سلالہ کے شہیدوں کا ماتم کدہ ہے۔ملالہ کے سر سے گرتی ہوئی گولی کا نام ہے ۔اب یہاں بس زندگی کی شامِ غریباں بپا ہے ۔سسکیوں اور سسکاریوں کاشور ہے۔بین کرنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔انقلابِ اقبال کہاں رہ گیا ہے ۔جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی ۔اس کھیت کے ہر خوشہ ءگندم کو ۔۔۔کب جلایا جائے گا۔ مزدوروں ، مجبوروں،دہقانوں اوربے روزگاروں کا لہو سوزِ یقین سے کون گرمائے گاجن کے اوقات بہت تلخ ہیں ،سرمایہ داری اور جاگیرداری کے نقشِ کہن کو مٹانے والے کہاں ہیں۔یہ اربوں روپے کی تعمیر کردہ کوٹھیاں یہ کاخ ِ امرا کے درودیوار آخرکب گرائے جائیں گے۔جمہور کی سلطانی کا دورِمنور کہاں گم ہوگیا ہے۔کیوں غربت سے رہائی کا جذبہ اک شوخ علم نہیںبن رہا۔کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ۔سونے کے قفس کی کڑیوں کو مجبور کیوں نہیں توڑ رہے ۔ہم کب تک روزِ مکافات کے منتظر رہیں گے ۔وہ جو مرمر کی سلوں سے ناخوش و بیزار ہے ۔اس کےلئے مٹی کا حرم بنانے والے ۔۔ اے دیدہِ امکان کو فروغ دینے والے۔ اے وقت کے گھوڑے کے سوار۔۔ آ۔ انتظاروں کے بین کرتے ہوئے نین پتھرا گئے ہیں
اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا
اے فروغِ دیدہ¿ امکاں بیا
آ کہ اقبال کا کہنا ماننے والے ، خودداری کے سائے میں خودی کے ساتھ رہنے والے ۔غربت کی آخری منزل پر ہیں ان کی جانب آتی ہوئی نانِ جویں کا راستہ بدل دیا گیا ہے ۔ان کے سروں سے چھتیں اتارلی گئی ہیں۔ان کے جسم کی طرف بڑھتے ہوئے لباس لوٹ لئے گئے ہیں حتیٰ کہ ان کی رائے تک چرالی گئی ہے۔اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی خاندانی روایت کے مطابق سفید فام حاکموں کے کتے نہلائے ہیں۔اپنی عافیائیں نیلام کی ہیں ۔ڈرون کی ڈسی ہوئی لاشیں فروخت کی ہیں۔سٹیٹ بنک آف پاکستان کی عمارت میں نقب زنی کی ہے۔آبدوز کشتیوں کی خریداری میں کناروں کا کمیشن لیا ہے۔بجلی بنانے والے کارخانوں سے تاریکیوں کا سودا کیا ہے۔وہ صاحبِ عزت و جاہ ہیں۔
انقلاب ِ اقبال کی وعیدوں سے ڈراتے ہوئے شہباز شریف نے اپنے ساتھیوں سے کہا ”میں طبقاتی کشمکش اور ناانصافی کے نتیجے میںرونما ہونے والی کسی خونی انقلاب کیعرصہ سے بات کر رہا ہوں۔لیکن اب تو یہ لمحہ بہت قریب آپہنچا ہے۔ میں نے اپنے وطن کا چپہ چپہ چھان مارااور بستیوں میں جھانک کر دیکھا۔قریہ قریہ سے اور بستی بستی سے یہی ایک آواز سناتی ہے۔ انقلاب و انقلاب و انقلاب و انقلاب اور بغاوت کے اس سیلاب میں سب کچھ بہہ جائے گا یہ بلند و بالا ایوان ،یہ وسیع و عریض محل ،یہ آراستہ و پیراستہ ولاز، یہ چمکتی دمکتی گاڑیاں ، یہ زرق برق لباس ، یہ سونے اور چاندی کے ڈھیر،یہ لوٹ مار کی جمع کی ہوئی دولت کوئی چیز اس طوفان کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکے گی جو اقبال کی طرح انسانی سماج کو سمجھتے ہیںوہ جانتے ہیں کہ جب مظلوم اٹھیں گے تو ظلم کا نشان بھی نہیں رہے گا۔وہ نظام جس میں ہم زندہ ہیں ملیامیٹ ہونے کوہے۔اگر ہم نے حالات کے چہرے پر لکھی ہوئی تحریر نہ پڑھی تو ہمیں کسی المناک انجام دوچار پڑجائے گا“۔
شریف شہباز اور ان کے ساتھی جو فکرِ اقبال کے انقلاب کی روشنی کو بغاوت سمجھتے ہیںوہ اب اجالوں کے جلوس کو روک نہیں سکتے۔سڑکوں پر اندھیروں کے جتنے بھی کنٹینر کھڑے کر دئیے جائیںدن کے جلوس اپنے راستے تراش لیتے ہیں۔تبدیلی وقت کے ماتھے پر لکھی ہوتی ہے۔رات جتنی بھی لمبی ہو جائے اختتام پذیر ضرور ہوتی ہے۔ لوگ گھروں سے نکلے والے ہیں۔ منظر بدلنے والا ہے ۔مال روڈ سے لے کر شاہراہ ِ قائداعظم تک ہر سڑک میدان جنگ بننے والی ہے۔بقول اقبال
دلوں میں ولولہ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت
اور اگرعمران خان نے اس نظامِ زر کے بین الاقومی حواریوں سے ڈر کراس انقلاب کی قیادت نہ کی تو انہیںبہت تکلیف دہ پچھتاوے سے گزارنا پڑے گا۔ عوام ان قرانی آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے سڑکوں پر آنے والے ہیں ”اور جولوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں انہیں خوشخبری سنادو ایک عظیم عذاب کی جس دن تپائی جائیں گی ان کی پیٹھیں ، کروٹیں اور پیشانیاں کہ پس چکھو مزا دولت کو سینت سینت کر رکھنے کا“جاوید ہاشمی سے التماس ہے کہ باغیوں کا منشورعمران خان تک پہنچادیجئے جو علامہ اقبال لکھ کر دے گئے ہیں ۔