• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حدیث قدسی ہے، اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ کائنات کی ہر چیز خوبصورت ہے کیوں کہ وہ خدا کی خوبصورتی کا مظہر ہے۔ اس خوبصورتی تک رسائی کے لئے انسان کو اپنی بصارت اور بصیرت کو ایک نقطے پر مرکوز کر کے اشیاء کی ماہیت کے اندر جھانکنا پڑتا ہے۔ بصارت ایک ایسے شیشے کی مانند ہے جس کے سامنے موجود چیزوں کا تصور اس کے خمیر میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ جب تک باطن کی شعاعیں نہ پڑیں ظاہر کا جمال عیاں نہیں ہوتا۔ یوں کائنات بنیادی طور پر رات دن یعنی اندھیرے اجالے کا ایک تسلسل ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ وقت کا پہیہ ان کے چکر سے بندھا ہے۔ تاریکی اپنی فطرت میں برائی نہیں مگر یہ اجالے کی ضد ضرور ہے۔ دن اور رات کے دو تصورات زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہیں اور اسی سے مختلف قدریں جنم لیتی ہیں۔ اندھیرا روشنی کی عدم موجودگی کا نام ہے مگر اس میں بھی کئی راز پوشیدہ ہیں۔ انسان مشین نہیں بلکہ احساسات، جذبات، عقل اور وجدان کا پیکر ہے۔کام کے بعد آرام اشد ضروری ہوتا ہے۔ اندھیرا نہ ہوتا تو ارد گرد پھیلے بے ہنگم شور سے نجات ملنا مشکل تھی۔ وہ گہرا سکوت مفقود ہو جاتا جو صوفیوں، ولیوں اور سائنس دانوں کو نت نئے روحانی اور مادی تجربات سے روشناس کراتا ہے۔ اندھیرا نہ ہوتا تو چاند تاروں اور آسمان کی کہکشائیں ہماری نظروں سے اوجھل رہتیں۔ جس طرح سینما ہال میں اسکرین پر فلم کے مناظر کو اجاگر کرنے کے لئے کمرے میںروشنی گل کر دی جاتی ہے اسی طرح کچھ مظاہر کو اُجاگر کرنے کے لئے رات تخلیق کی گئی۔ قدرت نے ہر شے اور مظہر میں خاص حکمت رکھی ہے جسے سمجھ کر ہی اس کا شعور اور ماہیت کی وجہ دریافت کی جا سکتی ہے مثلاً اگر اندھیرا نہ ہوتا تو اجالے کا مفہوم واضح کیا جانا مشکل تھا بلکہ اجالے کا وجود ہی ثابت نہ کیا جا سکتا۔ ہر شے کو اس کی ضد سے ہی ثابت کیا جاتا ہے۔ ہوا، جو سانس اور زندگی کی ضمانت ہے اور ہر لمحہ زندہ وجود کی ضرورت ہے، کو بھی حبس سے ثابت کیا جاتا ہے۔ کائنات ایک حسین منظر نامہ ہے، قدرت کا شاہکار ہے۔ زمین کے کینوس پر رنگ، خوشبو، پھول، درخت، دریا، سمندر، پہاڑ، آبشار، طرح طرح کی اجناس، میوے، پرندے، جانور اور انسان اپنی اپنی جگہ خوبصورتی بکھیرتے ہر لمحہ اپنے خالق کے ہونے کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وسیع و عریض کائنات کے ساتھ رابطے کے لئے انسانی وجود میں ایک خاص سسٹم موجود ہے جسے دل کہتے ہیں۔ دل کے نظام کو متحرک رکھنے کے لئے بھی خاص کوڈ ہوتا ہے۔ اولیاء برسوں کی ریاضت کے بعد اس سے آشنائی حاصل کر کے خیر بانٹنے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ تصوف دراصل خود کو دریافت کرنے کا سلسلہ ہے جس کی کئی سطحیں اور منزلیں ہیں۔ جب انسان اپنی ذات کا سراغ لگانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کرتا ہے کیوں کہ اس کی ذات میں ذاتِ حق کی محبت پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ محبت اجاگر ہو جائے تو ہر شے کی ماہیت یعنی خوبصورتی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ تصوف میں محبوب مرشد بھی ہے اور رہنما بھی۔ اس کی کشش انسان کے اندر سوئے ہوئے حسن کے تصور کو بیدار کر کے متحرک کرتی ہے۔ محبوب کا تصور اس پر اتنا غالب آ جاتا ہے کہ وہ ہر شے میں اسے نظر آنے لگتا ہے۔ آئینہ دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں میں اس کی شبیہہ دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ سفر کا آغاز ہے جس میں عاشق معشوق کی ہر بات پر سرِ تسلیم خم کئے آگے بڑھتا ہے۔ محبوب ہی وہ ذات ہے جو انسان کے باطن میں موجود روحانی اور باطنی طاقتوں کو مجتمع اور متحرک کرنے کا سبب بنتی ہے۔ تصوف ہمیشہ سے آفاقیت کا علمبردار رہا ہے مگر گلوبلائزیشن کے دور نے اس کی اصل معنویت کو اُجاگر کرنے اور تمام دنیا کے انسانوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تصوف کسی خاص مذہب تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر مذہب کے لوگ ایک وسیع تر آفاقی اور انسانی نقطہ نظر کے حامل نظریات کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ تصوف دراصل حسن کی کھوج کا نام ہے۔ یہ حسن انسان کی ذات کے اندر بھی ہوتا ہے اور ذات سے باہر بھی۔ صوفی اندر اور باہر کے حسن کو یکجا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ قدرت نے ازل سے دونوں کے درمیان رابطے کا رجحان رکھا ہے مگر مادیت کی جکڑ اپنی کشش سے باہر نہیں نکلنے دیتی۔ صوفی اپنی روحانی قوت سے ان دونوں تاروں کو دل کے پلگ سے جوڑ کر رابطہ بحال کرتا ہے، ان دونوں کے درمیان حائل کثافت کے پردے کو اپنی ریاضت سے لطافت میں بدل دیتا ہے تو دونوں میں ایک ہی ہستی دکھائی دینے لگتی ہے۔ انسان جب تک اپنی ذات کی تطہیر نہیں کر لیتا وہ ظاہر کی دنیا کے بے شمار مظاہر میں حسن کھوجنے میں ناکام رہتا ہے اس لئے کہ وہ ہر شے کو اپنی ذات کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ ہمارے نبی پاک ﷺ نے بھی مومن کے دل کو کائنات کا عکس کہا ہے یعنی انسان جس طرح کی سوچ رکھتا ہے جس طرح محسوس کرتا ہے اسی طرح دیکھتا بھی ہے۔ بعض اوقات ظاہری دنیا میں تحریروں، تقریروں اور منظروں میں وہ بات نہیں ہوتی جس کا ہم ادراک کر لیتے ہیں یعنی
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
ثابت ہوا کہ مثبت اور منفی تصورات ہماری اپنی ذات کے اندر موجود ہیں۔ اگر ہم منفی رستہ اختیار کرتے ہیں تو ہمیں ہر شے میں اسی طرح کا تاثر غالب نظر آتا ہے لیکن اگر ہم مثبت رستے کا انتخاب کرتے ہیں تو ہمیں اشیا اور لوگوں میں خیر غالب نظر آتا ہے۔ جو صفت غالب ہو گی وہی ہمارے نقطۂ نظر کو واضح کرے گی کہ ہماری سوچ کا ڈھنگ کیا ہے؟ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انسان جس طرح کی عینک پہن لے اس کو ویسی ہی اشیاء نظر آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ ہمارے تصورات کی عینک ہماری پسند کو اشیاء میں نمایاں کرتی اور انہیں خوبصورت بناتی ہے۔ آج کا دور گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ صرف تصوف ہی وہ واحد رستہ ہے جس کی مدد سے پوری دنیا کو ایک کنبے کی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ تصوف کے ذریعے کائنات کو اس کے اصل رنگ میں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تصوف کے رستے پر چلنے والا زندگی کو مثبت انداز عطا کرتا ہے۔ آئیے اپنی ذات اور کائنات کے درمیان رابطہ بحال کر کے زندگی کو اس کے وسیع معنوں میں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ آخر میں غلام یٰسین دلنشیں کے دو خوبصورت شعر:
بام پر چاند آ گیا تو کھُلا
رات کو خوشگوار ہونا تھا
ہجر کی شب طویل تر دیکھی
وصل کا دن اُدھار ہونا تھا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین