• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بڑے عہدے پر فائز ایک سرکاری افسر شادی کی تقریب میں بیٹھے تھے۔ انکی شہرت ایک ایماندار افسر کی سی ہے، انکے بھائی الیکشن میں ہارنے والے ایک سیاسی جماعت کے بڑے متحرک رہنما ہیں، یہ سرکاری افسر صاحب الیکشن کرانے والے اعلٰی سرکاری افسران میں سے ایک تھے ۔ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ صاحب سنا ہے بڑی دھاندلی ہوئی ہے، جھٹ سے بولے ،بالکل نہیں یہ سب جھوٹا واویلا ہے۔ ہو سکتا ہے اکا دکا لوگوں نے معمولی گڑ بڑ کی ہو ،لیکن سارا دن بڑے پر امن طریقہ سے الیکشن کا عمل چلا اور کوئی سنگین قسم کی کہیں سے شکایت نہیں آئی البتہ یہ ضرور ہوا کہ الیکشن کے بعد رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) اس ٹریفک کو برداشت نہ کر سکا جو اس پر چھ بجے کے بعد جاری ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ سوائے آر ٹی ایس کے نظام میں بوجھ برداشت نہ کرنے کی سکت کے علاوہ الیکشن کمیشن کے انتظامات بڑے زبردست تھے۔ پولنگ اسٹیشن زیادہ تھے اور ان پر پولنگ کے لئے کم ووٹرز کو تقسیم کیاگیا تھا، جنہیں ہینڈل کرنا آسان تھا، انہوں نے کہا کہ میڈیا نے ہر خبر چلائی لیکن کسی چینل پر یا اخبار میں مجھے الیکشن کے لئے پولنگ اسٹیشن پر کام کرنے والے عملے کی کہیں بھی تعریف کے دو الفاظ پڑھنے یا سننے کو نہ ملے جو بڑی زیادتی ہے کیونکہ محض چھ ہزار روپے کیلئے تقریباً 3 دن سخت جانفشانی اور ذمہ داری سے جس طرح پولنگ کے عملے نے کام کیا اور پھر رات گئے تک آر ٹی ایس کی ناکامی کے بعد یہ لوگ ہاتھوں میں رزلٹ اٹھائے انتظار کرتے رہے وہ قابل ستائش ہے۔ اور اس عملے میں خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ تو بات تھی الیکشن کے دوران اہم ڈیوٹی سر انجام دینے والے ایک اعلیٰ افسر کی آف دی ریکا ر ڈگفتگو کی، جسکی حقیقت وہ خود یا اللہ کی ذات جانتی ہے۔ لیکن بابا سکرپٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی الیکشن شفاف نہیں ہوئے۔ جس نے جیتنا ہوتا ہے یا حکومت بنانی ہوتی ہے اس کے حق میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہوتی ہے اور یہ بات ساری سیاسی جماعتیں اور انکی لیڈر شپ جانتی ہے۔ تاہم بابا اسکرپٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان الیکشن میں ماضی کی اندھیر نگری نہیں تھی بلکہ وہ لوگ بھی الیکشن جیتے جنہیں دھاندلی کی صورت میں الیکشن ہارنا ہی تھا۔ اس لیے کچھ روز تک یہ واویلا جاری رہے گا۔ حکومتیں بن جائیں گی تو سب اپنے اپنے کام لگ جائیں گے۔ کیونکہ نتائج مکمل ہو جانے کے باوجود ابھی جیت اور دھاندلی کے شو رکی گرد سے اٹے ہوئے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ پی ٹی آئی مرکز، پنجاب اور کے پی کے میں حکومت بنائے گی۔ ابھی تو کرکٹ کے کھیل کی طرح بعض اپنے ہی کھلاڑی کسی کے آئوٹ ہونے، ان فٹ ہونے یا بائونسر لگنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ بابا اسکرپٹ کہتے ہیں کہ کپتان کو اب باہر سے زیادہ اندر کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اچھے نہیں بلکہ بہترین فیصلے کرنے ہیں۔ کپتان نے بغیر برانڈڈ سوٹ، بوٹ اور کروڑوں کی کلائی کی گھڑی کے بغیر سفید شلوار قمیض اور مقامی کھیڑی (چپل) پہن کر جو وکٹری سپیچ دی ہے اس نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کپتان کو پذیرائی دی ہے۔ دوسرا اہم مرحلہ ٹیم کے انتخاب کا ہے کہ حمایت کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے کن کن لوگوں کو وزارتیں، مشاورتیں اور وزرائے اعلیٰ کے مقام پر بٹھانا ہے۔ کس کس کو گورنر اور کس کو ملکی صدارت کا منصب سو نپنا ہے۔ کون قومی اسمبلی کاا سپیکر ہوگا اور کون اداروں کے سربراہ کے طور پر مقرر کیا جائے گا۔ الیکشن میں کامیابی تک کپتان نے تمام دریا عبور کر لیے ہیں لیکن اب ایک بڑا سمندر پاٹنا ہے جو سب سے مشکل ہے اور اس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ کیونکہ ہر ایک قدم کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جہاں ایک سیڑھی ہے وہاں پر ایک سانپ بلکہ اژدھا منہ کھولے کھڑا ہے، جو کسی بھی وقت آ پکی کا میا بی کو اتھا ہ گہر ا ئی میں دھکیل سکتا ہے۔ لیکن بابا اسکرپٹ کی اگلی من گھڑت بات چونکا دینے والی تھی کہنے لگے 2019ء موجودہ جمہوری شکل والا نہیںبلکہ ایک مختلف طرز حکومت کا ہو سکتا ہے۔ بابا اسکرپٹ کی یہ نئی درفنطنی سمجھ سے بالا تر ہے لیکن 2019ء بھی دیکھ لیں گے۔
twitter:@am_nawazish
SMS رائے: #AMN (SPACE)پیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں

تازہ ترین