• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی کی کشتی کو چلانے والا چپو، تنفس ایک ایسا آبگینہ ہے جسے جتنا مرضی سنبھال کے رکھو، لاکھ احتیاط کرو پھر بھی بغیر کسی ٹھیس کے اچانک کسی دن ٹوٹ جاتا ہے۔ کیا کیا جائے جبر اور صبر کے عجیب رشتے نے انسانی وجود کی عمارت کو تھام رکھا ہے۔ خدا نے انسان کو کائنات میں اس کے تمام فیصلوں کا اختیار دے کر بھیجا مگر زندگی اور موت کو اس کے بس سے باہر رکھا۔ نہ پیدا ہوتے وقت اس کی مرضی معلوم کی گئی اور نہ ہی موت کے وقت اس سے مشورہ ضروری سمجھا گیا۔ اس کے جاری منصوبے، اس کے ذمہ خاندان کی کفالت اور قومی و سماجی ذمہ داریاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہ مشیت ایزدی ہے جس پر سوائے سر خم کرنے کے کوئی چارہ نہیں۔
سعید اقبال واہلہ، سیکرٹری ماحولیات بھی صبح ڈھیروں ذمہ داریوں کی کئی فائلیں لے کر گھر سے نکلے تھے۔ اس وعدے کے ساتھ کہ سہ پہر کی چائے گھر پر پئیں گے مگر کسے خبر تھی کہ سہ پہر سے پہلے ہی زندگی کی شام ہو جائے گی اور وہ کسی ایسے سفر پر روانہ ہو جائیں گے جہاں سے واپسی کسی طور ممکن نہ ہو سکے گی۔
پنجاب کے نیک نام اور اصول پسند چیف سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ کی ٹیم کے دیانتدار، فرض شناس، قابل اور کمٹڈ افسروں میں سعید اقبال واہلہ پہلی لائن کے سپاہی تھے۔ ہر لمحہ چوکس اور سرگرم عمل،کام کی شدید لگن نے فرض کی ادائیگی کو جنون میں بدل دیا تھا۔ ان کی موت پر سیکرٹری اطلاعات محی الدین احمد وانی، سیکرٹری آرکائیوز اوریا مقبول جان، سیکرٹری ٹو سی ایم ندیم حسن آصف اور ڈاکٹر توقیر شاہ، سیکرٹری ایجوکیشن ڈاکٹر اعجاز منیر، سیکرٹری اِریگیشن عرفان علی، سیکرٹری سپورٹس ہارون احمد خان، ڈی سی او لاہور نورالامین مینگل، کمشنر لاہور ملک جواد اور رجسٹرار پنجاب کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر ارشد محمود سمیت بہت سارے افسران شدید دکھ میں مبتلا تھے اس لئے کہ انہوں نے سعید واہلہ کے ساتھ کئی پروجیکٹس میں کام کیا تھا۔ وہ کئی لوگوں کے بیچ میٹ تھے،کچھ کے قریبی دوست تھے۔ ان کا اداس ہونا بنتا تھا لیکن اور بھی کئی دل ان کے لئے دکھی تھے۔ کافی دیر غم کی دبیز فضا نے میرے وجود پر بھی آنسوؤں اور آہوں کا حصار کئے رکھا۔ ایسا کیوں تھا؟ میری تو ان سے چند سرسری ملاقاتیں تھیں۔ ان کے محکمے کی طرف سے پِلاک میں منعقد ہونے والے چند سیمینارز میں ان کی خوبصورت گفتگو سننے کا موقع ملا جس میں فلسفہ اور شاعری کا عجیب امتزاج تھا۔ بعد میں پتہ چلا وہ فلسفے کے اسٹوڈنٹ رہ چکے ہیں اور اعلیٰ شعری ذوق رکھتے ہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے تقریر میں اشعار پڑھتے تھے۔ ملک و قوم کا درد ان کے دل میں جاگزیں تھا۔ اپنے پرائے ان کی فرض شناسی اور دیانتداری کی گواہی دیتے تھے۔ وضع داری اور رواداری میں اپنی مثال آپ تھے۔ اکثر پِلاک کی طرف سے منعقد ہونے والی تقریبات کے دعوت ناموں کے جواب میں ان کے تحریری معذرت نامے موصول ہوئے۔ پچھلے دنوں ان کا فون بھی آیا کہ وہ کسی دن دفتر تشریف لائیں گے اور فلسفے اور شاعری پر بات ہو گی لیکن ان کی مصروفیت اور کام سے جنون کی حد تک لگن نے کبھی انہیں مہلت ہی نہ دی۔ صرف 53 سال کی عمر میں۔ کہنے کو تو یہ نصف صدی ہے مگر ابھی تو اس عمر کا آغاز ہوا تھا جب انہوں نے اپنی عمر بھر کی محنت، تجربے اور قابلیت کے جوہر دکھا کر ملک و قوم کی خدمت کرنی تھی اور ذاتی حوالے سے بھی اپنے بچوں کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونا تھا لیکن وہ تمام ثمرات وصول کرنے سے پہلے ہی لوگوں کو لائف اسٹائل بدلنے کی تلقین کرتے کرتے اپنا ٹھکانہ بدل گئے۔ شاید ہم خود غرض ہیں اور چاہتے ہیں کہ اچھے لوگ جو انسانیت اور اپنی مٹی سے محبت کرتے ہیں، ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں، ہمارے آس پاس رہیں۔ وہ چلے جائیں تو ہم انہیں یاد کرتے ہیں کیونکہ یہ محبت ہم سب کا مشترک اثاثہ ہے۔
مولانا روم کے مطابق زندگی ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے۔ جمادات، نباتات، حیوانات سے ہوتی ہوئی زندگی انسانوں پر پہنچ کر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہ صرف مادی زندگی کا وہ آخری دور ہے جس میں روح مادیت کی کثافت کو اتار کر لطافت کو اوڑھ لیتی ہے اور لطافت کا یہ سفر ہمیشہ برقرار رہتا ہے لیکن چونکہ ہمیں اس کا علم نہیں اس لئے ہم موت سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور اسے زندگی کا اختتام سمجھ لیتے ہیں کیونکہ اگلا سفر ہماری ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے سعید واہلہ وہاں بھی اگلے درجے میں ترقی پا کر نئی اسائنمنٹ پر کام میں لگ گئے ہوں گے۔ اسی دن جس دن ہم عظیم شاعر علامہ محمد اقبال کی پیدائش کی خوشیاں منا رہے تھے اقبال کے فلسفے اور فکر پر چلنے والے سعید اقبال واہلہ کو رخصت بھی کر رہے تھے اور اس وقت سب کے چہروں پر خالد شریف کا یہ شعر لکھا دکھائی دے رہا تھا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شاید جدائی کے حوالے سے اس سے بہتر شعر ابھی تک لکھا ہی نہیں جا سکا۔ ان کی موت کا افسوس ضرور ہے مگر ان کی کارکردگی ان کی یاد کے ساتھ تمغے کی طرح جڑی ہے جو آہ! سعید واہلہ کی بجائے واہ! سعید واہلہ کا سبب ہے۔ یقینا دنیا سے رخصتی کے وقت کسی پچھتاوے کا سایہ ان کی آنکھوں میں نہیں ہو گا۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ وہ جتنا عرصہ جیئے ہمیشہ اعلیٰ اصولوں کی پیروی کی مثال قائم کی۔ ایک فلسفی کا قول ہے کہ ”جب جانا لازم ٹھہرا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی دوپہر کو جائے یا سہ پہر کو، کیوں کہ شام تک تو سب نے وہیں پہنچنا ہے“۔
میرا وِجدان کہتا ہے ان سے ضرور ملاقات ہو گی کیونکہ فلسفہ، شعر، موسیقی اور مصوری سے محبت رکھنے والے وہاں بھی ایک ہی کمپارٹمنٹ میں ہوں گے۔
تازہ ترین