ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
فخرِِ موجودات، سرورِ کائنات، امام الانبیاء، سیّدالمرسلین ، خاتم النبیین،محبوبِ رب العالمین ، حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی اہلِ ایمان کے لیے سرچشمۂ ہدایت بھی ہے اور مرکزِ عشق و محبت بھی۔ مسلمانوں کا دینی، تہذیبی، سیاسی، معاشرتی نظام اور ضابطۂ حیات آپؐ ہی کے اسوۂ حسنہ پر قائم ہے اور عمل کی دنیا بھی آپؐ ہی کے احکام پر استوار ہے، معراج خیال بھی آپؐ ہی کی تعلیم اور آپؐ ہی کا پیغام ہے اور میزانِ عمل بھی آپؐ ہی کی سنت و شریعت ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب، فخر دو عالم، سرورِ کائنات، محسنِ انسانیت ﷺکو آخری رسول، فائنل رول ماڈل اور کامل اسوۂ حسنہ بناکر مبعوث فرمایا۔ آپؐ کی مثالی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ ہرعہد اور ہر دور میں مسلمانوں کی قوت و رفعت کا سرچشمہ اور ان کی قومی سیرت کی تشکیل و تعمیر کا بنیادی عنصر رہا ہے کہ:
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسٓ، وہی طٰہٰ
امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شریعت، آپؐ کی سیرتِ طیّبہ اور اسوۂ حسنہ رُشد وہدایت کا سرچشمہ، مینارۂ نور اور منبع ہدایت ہے۔رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں انسانیت کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ آپؐ کی شریعت اور آپؐ کی تعلیمات میں ہر دور کے مسائل کا حل اور ہر عہد کے چیلنجزسے نبرد آزما ہونے کا جامع دستور موجود ہے۔ یہ دین و دنیاکے تمام مسائل میں انسانیت کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔
صاحبِ لوح و قلم، سیدِ عرب و عجم، فخر دو عالم، حضرت محمد ﷺ نے تاریخ اسلام ہی نہیں، بلکہ تاریخ عالم کی مثالی فلاحی مملکت ریاستِ مدینہ کے حاکم اور سربراہِ مملکت کے طور پر جس بے مثالی سادگی، قناعت، فقر و درویشی میں زندگی گزاری، وہ پوری انسانی تاریخ میں ایک منفرد اور روشن مثال ہے۔ حیاتِ طیبہ اور اسوۂ نبویؐ میں فقر و درویشی اور سادہ طرز زندگی کے جو بے مثال واقعات ملتے ہیں، وہ اس دور کے ہیں، جب آپؐ ریاستِ مدینہ کے سربراہ اور ملک عرب کے فرماں روا تھے۔
ایک موقع پر مرادِ رسول، سیدنا حضرت عمر فاروقؓ رسالت مآب ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے، آپؐ اپنے حجرے میں آرام فرما تھے، حضرت عمرؓ نے جب حجرۂ نبویؐ پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ فقر و درویشی اور سادگی کا یہ عالم ہے کہ محبوب ِدو عالم، سرور کائنات، سرکار ِدو جہاں ﷺ کے جسم اطہر پر ایک تہہ بند ہے، کھجور کے پتوں سے بنی ایک سادہ چٹائی پر آرام فرما ہیں، اس کے اور آپؐ کے جسم اقدس کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے، کھردری چٹائی کے پٹھوں نے آپؐ کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشانات ڈال دیے ہیں، سرہانے ایک تکیہ ہے ،جس میں کھجور کی چھال کوٹ کے بھری ہوئی ہے، ایک معمولی سا مشکیزہ چھپر سے لٹک رہا ہے اور حجرے کے ایک کونے میں تھوڑی سی ’’جو‘‘ رکھی ہوئی ہے۔ (یہی امام الانبیاء، سیدالمرسلین، محبوب رب العالمین ﷺ کا اثاثہ ہے) قناعت پسندی، فقر و درویشی، سادہ طرز زندگی اور بے سروسامانی کا یہ عالم دیکھ کر حضرت عمرؓ آب دیدہ ہوگئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ! قیصر و کسریٰ تو دنیا کا لطف اٹھائیں اور عیش و عشرت میں مگن ہوں اور اللہ کے رسول ﷺ کا (ریاست مدینہ کا حاکم و سربراہ ہونے کے باوجود) یہ عالم ہو کہ آپؐ کے جسم اطہر پر ایک تہہ بند ہو، جسم پر چٹائی کے نشانات ہوں؟ حضرت عمرؓ کی یہ بات سن کر سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’عمر! کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ وہ دنیا کا عیش و آرام حاصل کریں اور ہم آخرت کا۔‘‘(ابن ماجہ، باب ضجاع آل محمدؐ، ابواب الزہد)
شیر خدا سیدنا حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’فقر میرا فخر اور زہد میرا پیشہ ہے۔‘‘(قاضی عیاض/الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ۱/۱۱۶) قناعت و سادگی اور فقر و درویشی پر آپﷺ نے فخر کا اظہار فرمایا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے تھے : ’’اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اٹھا اور (روز قیامت) مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔ (ابن ماجہ، ترمذی) جس طرح سرکار ِدو جہاں ﷺ کی غذا بے حد سادہ تھی، اسی طرح آپﷺ کا لباس اور پوشاک بھی بے حد سادہ ہوتی تھی، بعض اوقات آپؐ کے موٹے اور کھردرے لباس میں پیوند لگے ہوتے تھے، آپؐ کے خادم حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ حج کے لیے تشریف لے گئے تو میں نے دیکھا کہ جو چادر آپؐ نے (احرام کے طور پر) اوڑھ رکھی تھی، اس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی۔ غرض سرکار دو عالم، سید عرب و عجم حضرت محمد ﷺ کی ہر ادا اور ہر انداز میں فقر و درویشی، قناعت و سادگی اور فقیرانہ شان نمایاں ہے، ایسی فقیری جس پر ہزار سلطنتیں نثار اور ایسی سادگی و درویشی جس پر صد ہزار بادشاہتیں نچھاور۔
تاریخ کے اس دور میں یونان کا شہنشاہ ’’بطلیموس‘‘ کے لقب سے سرفراز تھا۔ ترکوں کا ’’خاقان‘‘ کے لقب سے، فارس کے شہنشاہ کا لقب ’’کسریٰ ‘‘تھا‘ روم کے شہنشاہ کا ’’قیصر‘‘ اور حبش کے شہنشاہ کا ’’نجاشی‘‘۔ انسانی سوسائٹی جابر و قاہر شخصی حکومتوں اور غرور سے بھرے ہوئے خطاب یافتہ حکمرانوں کے شکنجۂ ظلم و استبداد میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے فقدان کے باعث قریب بہ مرگ تھی۔
چھٹی صدی قبل مسیح میں قدیم ایران/ فارس کی بادشاہت دنیا میں سب سے زیادہ طاقت ور سلطنت بن گئی۔ایرانی حکومت شخصی اور مطلق العنان تھی۔ تمام اختیارات کا سرچشمہ بادشاہ کی ذات تھی۔ بادشاہ وقت کو لوگ دیوتا کا درجہ دیتے تھے۔ ایرانی بادشاہوں کا یہ دعویٰ تھا کہ ان میں خدائی خون دوڑ رہا ہے۔ رعایا ان کے آگے سر بہ سجود ہوتی اور ان کی الوہیت کے گیت گاتی تھی۔ لوگوں کے جان و مال پر ان کا مکمل قبضہ ہوتا تھا۔ رعایا کو حکومت کے مقابلے میں کوئی حقوق حاصل نہیں تھے اور ان کی حیثیت غلاموں سے بدتر تھی۔ کسی کو بادشاہ کے افعال کا محاسبہ کرنے کا حق حاصل نہیں تھا، اس کی ذات تک عوام کی رسائی ناممکن تھی۔(علی عباس جلال پوری/روایات تمدن قدیم، ص ۳۵)
تاریخ کے اس دور میں والیانِ ریاست، شاہزادے، امراء، اونچے گھرانوں کے افراد نیز متوسط طبقے کے لوگ بادشاہوں کے نقش قدم پر چلنے اور کھانے پینے، پوشاک اور طرزِ رہائش میں ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے اور ان کی عادات و اطوار اختیار کرتے، معیارِ زندگی بہت ہی زیادہ بلند ہوگیا تھا اور معاشرت بہت زیادہ پیچیدہ بن گئی تھی، ایک ایک شخص اپنی ذات پر اور اپنے لباس کے کسی ایک حصّے پر اس قدر خرچ کرتا تھا، جس سے پوری ایک بستی کی پرورش ہوسکے یا جو پورے ایک گائوں یا آبادی کی پوشاک اور سترپوشی کے مصارف کے لیے کافی ہو۔
تاریخ کے اس دور میں دنیا نے دیکھا کہ لاکھوں مربع میل پر عدل و مساوات کی بنیاد پر قائم مثالی اسلامی فلاحی مملکت ریاستِ مدینہ کے حاکم اور سربراہِ مملکت سیّد عرب و عجم، سرکار دو عالم حضرت محمد ﷺ کا مسکن چند چھوٹے چھوٹے حجروں پر مشتمل تھا۔ انہی میں امت کی مائیں اور سرکار دو جہاں ﷺ کی ازواج مطہراتؓ قیام پزیر رہتی تھیں، حجرے کی چوڑائی تین ساڑھے تین گز کے قریب تھی۔ اس کی اونچائی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوکر ہاتھ بلند کرتا تو وہ چھت کو چھو جاتا، حجروں کی دیواریں مٹی کی تھیں اور ان پر کھجور کے پتوں اور ٹہنیوں کی چھت تھی، ان حجروں کے ساتھ نہ کوئی صحن تھا ،نہ دالان، مٹی کی دیواروں میں بعض اوقات شگاف پڑ جاتے تھے، جن سے دھوپ اندر آتی تھی۔ہر حجرے کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ اور ایک پٹ کا کواڑ تھا، ان حجروں کے علاوہ ایک معمولی سا بالاخانہ تھا، جس کی کل کائنات یہ تھی: ایک بستر، ایک تکیہ جس میں چھال بھری ہوتی تھی، ایک چار پائی، ایک مشکیزہ، ایک گھڑا اور ایک پیالہ۔(صحیح بخاری، سنن ابودائود)
یہ اُسوۂ حسنہ اُس ذاتِ گرامی کا ہے، جن کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے یہ بات رکھی کہ میرے لیے مکّۂ مکرّمہ کے سنگ ریزوںکو سونا بنا دیا جائے، میں نے عرض کیا، پروردگار، میں یہ نہیں مانگتا، بلکہ یہ پسند کرتا ہُوں کہ ایک دن پیٹ بھرکر کھائوں اور ایک دن بُھوکا رہوں، جب مجھے بُھوک لگے تو آپ کو یاد کروں، اور آپ کے سامنے گڑگڑائوں اور جب میرا پیٹ بھرے تو آپ کی حمد اور شُکر ادا کروں۔‘‘(ترمذی)
یہ کیفیت ایک ایسی ہستی کی ہے، جس کے سامنے تمام عرب، حدودِ شام سے لے کر عدن تک فتح ہوچکا تھا اور مدینے کی سرزمین زروسیم سے بھر رہی تھی۔ روایت کے مطابق آپؐ اور آپؐ کے اہل و عیال مسلسل کئی کئی رات بُھوکے رہ جاتے تھے،کیوںکہ رات کا کھانا میسّر نہیں ہوتا تھا۔ (ترمذی، باب معیشۃ النّبیؐ)
یہ قناعت پسندی ،حد درجہ سادہ طرزِ زندگی، بے سرو سامانی اور بے مثال فقر و درویشی اس مقدس ہستی اور اس عالی مرتبت ذاتِ گرامی کی ہے جس کی حیاتِ طیبہ میں پورا جزیرۃ العرب زیر نگیں آچکا تھا۔ معروف محقق اور بلند پایہ سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے مطابق اس وقت مدینہ ایک شہری مملکت ہی نہیں، بلکہ ایک وسیع مملکت کا دارالسلطنت (بن چکا) تھا، اس وسیع سلطنت کا رقبہ تاریخی شواہد کی رو سے تین ملین یعنی تیس لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا، دوسرے الفاظ میں دس سال تک اوسطاً روزانہ کوئی ۸۴۵ مربع کلومیٹر علاقے کا ملک کے رقبے میں اضافہ ہوتا رہا۔‘‘(ڈاکٹر محمد حمیداللہ/خطباتِ بہاولپور ص ۲۳۸)
اس شان کے سربراہ مملکت اور حاکم وقت ہونے کے باوجود بادشاہی میں فقیری آپؐ کے اسوۂ حسنہ کا امتیاز ہے، آپؐ کی حیاتِ طیبہ زہد و قناعت، سادگی و درویشی اور فقیرانہ شان کی مظہر تھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت اور آپؐ کی سیرت طیبہ کا جلی عنوان ہے کہ جس دن آپ ﷺ کی وفات ہوئی، اس رات کاشانۂ نبویؐ میں چراغ روشن کرنے کے لیے تیل تک موجود نہ تھا۔ (بخاری/الجامع الصحیح ۱/۳۴۱)
’’صحیحین‘‘ کی ایک حدیث میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں نے جو کی روٹی سے بھی متواتر دو دن اپنا پیٹ نہیں بھرا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ (بخاری، مسلم)
ایک اور حدیث میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ،کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ مہینے مہینے بھر ہمارے گھروں میں (چولہا) آگ نہیں جلتی تھی، عرض کیا گیا آپ کا گزارا کیسے ہوتا تھا؟ فرمایا! چند کھجوریں کھا کر اور پانی پی کر۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے تھے، اے اللہ! محمدﷺ کے متعلقین کی روزی بقدر کفاف ہو، یعنی نہ اتنی تنگ ہو کہ یہ اپنے کام بھی انجام نہ دے سکیں، اور نہ اتنی زیادہ کہ کل کے لیے ذخیرہ رکھا جاسکے۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
اس فقر و درویشی کے باوجود مزاج کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ گھر کا کام آپﷺ خود انجام دیتے، کپڑوں میں پیوند لگاتے، گھر میں جھاڑو دے لیتے، جانوروں کا دودھ دوہ لیتے، سودا سلف لے آتے، جوتا پھٹ جاتا تو اسے خود گانٹھ لیتے۔ غلاموں اور (فاقہ کش) مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے، کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی، بیٹھ جاتے۔ صحابۂ کرامؓ کے درمیان اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ اجنبی آپؐ کو نہ پہچان سکتا۔ (شمائل ترمذی)
آپؐ نے تفوق و برتری کے امتیاز کو اس قدر مٹایا کہ مجلس کے اندر آپؐ میں اور ایک عام آدمی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا، چنانچہ آنحضرت ﷺ جب صحابہؓ کی مجلس میں بیٹھتے تو باہر سے آنے والوں کو پوچھنا پڑتا کہ محمد ﷺ کون ہیں؟ لوگ اشارے سے بتاتے۔ صحابۂ کرامؓ نے چاہا کہ کم از کم ایک چبوترہ ہی بنا دیا جائے، جس پر آپؐ جلوہ افروز ہوں، مگر اسے بھی آپؐ نے پسند نہیں فرمایا۔(سید سلیمان ندوی/ سیرت النبی، ۷/۴۳،۴۴)
یہ اس دور کی بات ہے جب سرور عالم، سرکار دو جہاں ﷺ ایک وسیع و عریض مثالی اسلامی فلاحی مملکت کے سربراہ بھی تھے اور عساکر اسلامی کے سپریم کمانڈر بھی ،لیکن مخلوق خدا آپﷺ کے نزدیک خدا کا کنبہ تھی اور اس پر آپؐ کا ابرِرحمت جھوم جھوم کر برستا تھا۔ جزیرۃ العرب میں دور دور تک دین مبین کی دعوت پہنچ چکی تھی اور عرب کے وسیع و عریض علاقے پر آپؐ کی حکمرانی تھی۔ خطۂ ارض ہی پر نہیں، بلکہ لوگوں کے دلوں پر بھی آپؐ کی حکمرانی تھی۔
ذی قعدہ ۶ ہجری میں بیعت ِرضوان سے قبل عروہ بن مسعود ثقفی قریش مکہ کی طرف سے سفیر بن کر حدیبیہ آئے، اس موقع پر انہوں نے یہاں جو منظر دیکھا، اسے قریش مکہ کے پاس جاکر یوں بیان کیا:برادران قریش! میں د نیا کے بڑے بڑے فرماں روائوں (قیصر روم، کسریٰ فارس، نجاشی شاہ حبشہ) کے درباروں میں گیا ہوں، لیکن محمد (ﷺ) کے ساتھی جس طرح محمد (ﷺ) کے والہ و شیدا ہیں اور جس قدر ان کی (عزت و تکریم) تعظیم کرتے ہیں، میں نے کبھی بھی کسی بادشاہ کے دربار میں عقیدت و وارفتگی کا یہ منظر نہیں دیکھا۔ محمد (ﷺ) اپنا لعاب دہن نکالتے ہیں، تو یہ اسے ہاتھوں پر لیتے ہیں اور اپنے جسم اور چہروں پر مل لیتے ہیں۔ محمد (ﷺ) وضو کرتے ہیں تو یہ لوگ مستعمل پانی کے ایک ایک قطرے پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ جیسے آپس میں لڑ پڑیں گے، محمد (ﷺ) کوئی حکم دیتے ہیں تو ہر شخص اس کی تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ ان کے سامنے کوئی شخص بلند آواز میں گفتگو نہیں کرتا اور نہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتا ہے۔ (صحیح بخاری)
ان واقعات سے سرکار دوجہاں ﷺ کی عظمت و محبوبیت اور صحابۂ کرامؓ کی عقیدت و وارفتگی کا پتا چلتا ہے۔ ریاست مدینہ کے حاکم اور سربراہ مملکت ہونے کے باوجود، نیز صحابۂ کرامؓ میں اس بے مثال عقیدت و محبت، جاں نثاری اور وارفتگی کے باوجود آپؐ کے زہد و قناعت، خود اختیاری فقر و درویشی اور سادہ طرز زندگی سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اس زمانے میں سرکاری وسائل و ذرائع محدود تھے۔ یا اس زمانے کے حکمراں، بادشاہ و سلاطین اور فرماں روایان حکومت شاہی ٹھاٹ باٹ، عیش و عشرت اور شاہانہ طمطراق کی زندگی سے نا آشنا تھے، اسی لیے حضوراکرم ﷺ کا طرز معاشرت ایسا سادہ تھا، یہ سوچ اور یہ تصور بالکل غلط، تاریخی حقائق کے برخلاف اور اس کےقطعی منافی ہے۔
(…جاری ہے…)