• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخرتحریکِ انصاف اور عمران خان کے نئے پاکستان کا آغاز ہوگیا ہے لیکن اس میں ہر کارروائی پرانے پاکستان کی روایات کے عین مطابق ہوئی ہے یعنی انتخابات میں عمران خان کے حق میں وہی کردار ادا کیاگیا ہے جو پہلے دوسری کٹھ پتلیوں کے حق میں ادا کیا گیا اورجس کی شکایت عمران خان اکثر کیا کرتے تھے۔ خاص طورپر 2013کے انتخابی نتائج عمران خان نے کبھی تسلیم نہیں کیے تھے اور وہ کھل کر کہا کرتے تھے کہ نواز شریف کو دھاندلی کے ذریعے جتوایاگیا ہے۔ لیکن نواز شریف اس کی تردید کیا کرتے تھے ۔ پاکستان کی سیاست کی گہرائیوں کو جاننے والے دانشور اس وقت بھی اس حقیقت کو جانتے تھے کہ عمران خان سچ کہہ رہے ہیںاور آج بھی وہ اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے عمران خان کے مخالفین کا موقف کچھ ایسا غلط بھی نہیںہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جب پیپلز پارٹی اپنی مقبولیت کی انتہا پر تھی ۔ 10اپریل 1986کو لاہور میں بے نظیر بھٹو کا جوا ستقبال ہوا تھا۔ اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی لیکن مہارت سے اس بپھرے ہوئے ’’سیلاب ‘‘ کو بھی ایک چھوٹی سی ندی میں تبدیل کردیاگیا تھا اور 88کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت بھی نہیں لینے دی گئی اور پنجاب اس سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا گیاجو اس وقت تک پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا۔مرحوم جنرل حمید گل اس ’’کارنامے‘‘ کا کریڈٹ بڑے فخر سے لیا کرتے تھے۔ لہذٰا یہ بحث ہی فضول ہے کہ انتخابات شفاف تھے یا دھاندلی زدہ ۔ عوام کی سب سے بڑی کامیابی یا خوش قسمتی تو یہ ہے کہ ستر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ تسلسل کے ساتھ تیسرے عام انتخابات منعقد ہور ہے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر ز کی وکالت کرنے اور انصاف کی تحریک چلانے والا عمران خان وہی کچھ کر رہا ہے ۔ جس کے خلاف وہ 22سال سے برسرِ پیکار تھا۔ یعنی اندرونی اور بیرونی دنیا میں ان انتخابات کے بارے میں جو واویلا مچا ہوا ہے ۔ وہ اسے غلط قرار دے رہا ہے۔ جسکی اس جیسے اسپورٹس مین سے توقع نہیں تھی۔ دوسرا وہ ان نام نہاد ’’الیکٹ ایبلز‘‘ یا کرپٹ سیاستدانوں کے ذریعے ، کرپشن کے خلاف جنگ لڑنا چاہتا ہے ۔ جنکی کرپشن کو وہ پاکستان کے لئے ناسور سمجھتا رہا ہے۔ اور جنہیں اس نے دھڑا دھڑ اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے۔ اس کے باوجود بھی اسے کے پی اسمبلی کے علاوہ کہیں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی اور ایک عرصے سے جس کمزور اسمبلی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ وہ بالآخر سچ ثابت ہوگیا ہے۔ کیونکہ اکثریتی اسمبلی کے 1997اور 2013کے دونوں تجربے کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ نواز شریف اینڈکمپنی تو ارکان ِ اسمبلی کی خریدو فروخت کے پرانے کھلاڑی تھے ۔ اب کپتان بھی اسی کھیل میں شامل ہوگیا ہے۔ جس کے خلاف اس نے اعلانِ جہاد کیا ہوا تھا۔اب عمران خان کے اس نئے پاکستان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس نے جو وعدے عوام سے کئے ہیں وہ انہیں کیسے پورا کرتا ہے۔ معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے بدترین حالت میں سسکتا ہوا پاکستان جو جنوب مغربی ایشیا کا پسماندہ ترین ملک بن چکا ہے ۔ کیسے اپنے پائوں پر کھڑا ہو گا۔ جب ان انتخابات کے بعد بحران حل ہونے کی بجائے ایک بڑا ’’بحران‘‘ شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جو اقتدار کی رسہّ کشی اور کمزور حکومت کا بحران ہے۔ جس میں کرپشن ختم ہونے کی بجائے وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل مزید کرپشن کا باعث بنے گا۔ عوام کے روزمرہ کے مسائل مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی حکومت کو زیادہ وقت دینے کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ عوامی اجتماع میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینا ، وزیرِ اعظم ہائوس میں نہ رہنا (حالانکہ عمران کا اپنا گھر وزیرِ اعظم ہائوس سے کہیں بڑا ہے) گورنر ہائوسسز کو تعلیمی ادارے بنا دینے جیسی سطحی باتوں سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اگر کوئی حکمران ذاتی زندگی میں بظاہر نمازی پرہیز گار بھی ہو لیکن قومی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس سے بھی قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں ایران کے سابق صدر احمد ی نژاد کی سادگی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی تصویریں آتی رہتی تھیں لیکن اس کے جانے کے بعد پتہ چلا کہ اس کے دورِ حکومت میں شدّت پسندی اور تنگ نظری میں اضافہ ہوگیا تھا۔ جس کے ایران میں منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ دورکیوں جائیں پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء سے زیادہ نمازی ، ملنسار اور عاجز کون تھا۔ جو اپنے مہمانوں کے لیے کار کا دروازہ بھی خود کھولتا تھا۔ لیکن اس کے بوئے ہوئے منافقت ، جھوٹ اور مذہبی انتہا پسندی کے کانٹے ہم ابھی تک کاٹ رہے ہیں۔ جن کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے 70ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں۔ بلکہ ہمارا ہر ادارہ تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ عمران خان کی کامیابی کا دارومدار سب سے بڑھ کر اس سوال پر ہے جس کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا۔ کہ اس پر ’’مہربانوں ‘‘ کی مہربانی کب تک رہے گی۔ خاص طور پر عمران خان کے انڈیا کے بارے میں اپنائے گئے موقف کے بعد کہ وہ انڈیا کے ساتھ دوستی چاہتا ہے ۔ نئے پاکستان کا آغاز تو اتنا حوصلہ افزا نہیں اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین