• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیا خان بلوچ،لاہور

گزشتہ چند دنوں سے میری تمام تر توجہ صرف ایک ہی چیز پر مرکوز تھی ، وہ یہ کہ دوسری جماعت کے طالبعلم بریک ٹائم میں جب لنچ کرتے ہیں تو سوائے ایک بچی ثمن کے سب ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ یہ ننھے منے بچے سارا دن تو ساتھ گزارتے ہیں، لیکن نہ جانے لنچ کرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ ساتھ بیٹھی ہماری ساتھی کو بھی بھوک لگی ہوگی۔ ہمیں اس کے ساتھ بھی لنچ شیئر کرنا چاہیے۔ میری برداشت اس دن ختم ہو گئی جب میں نے ثمن کی پیاری پیاری آنکھوں میں آنسو دیکھے۔میں نے اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ، ’’تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘

’’نہیں مس کچھ نہیں‘‘۔ ثمن نے جواب دیا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ، ’’اچھا، آپ لنچ کیوں نہیں کر رہی ہیں؟‘‘

’’آج میرے پاس لنچ نہیں ہے‘‘۔ثمن نے انتہائی معصومیت سے بتایا۔

’’کیوں؟‘‘، ’’مما نے نہیں دیا‘‘،

’’اچھا مما نے پیسے دیے ہیں؟‘‘، ’’نو مس، پیسے نہیں ہیں‘‘۔

’’بھوک لگی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’یس مس۔‘‘ اس نے اثبات میں سرہلایا۔میں نے اپنے بیگ سے پیسے نکالے اور اس کی طرف بڑھا دیے۔جاؤ کینٹین سے جا کر لے آؤ جو بھی آپ کو کھانا ہو۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ۔وہ اداسی جو چند لمحے پہلے ثمن کے چہرے پر چھائی تھی،اب یکسر غائب ہوگئی۔

اس کے جانے کے بعد میں سوچنے لگی کہ ، آج کل کے بچے کتنے بدل گئے ہیں،انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ہمارے جو غریب ساتھی، دوست، کلاس فیلوز، پڑوسی وغیرہ ہیں، ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے، انہیں کھانا کھلانا چاہیئے۔اگر آج ان کے پاس کھانا نہیں تو ،کل ہوگا۔کیا ہوجائے گا اگر ہم ان کے ساتھ مل بانٹ کر کھا لیں گے۔دو لقمے ایک دن کم کھالیں گے تب بھی ہم زندہ رہیں گے اور ان دو لقموں سے کسی اور کا پیٹ بھر سکتا ہے تو کیوں نا ہم یہ پیارا اور نیکی کا کام کریں۔ یہ سوچ ان میں نہیں تھی،انہیں کسی نے کبھی یہ احساس نہیں دلایا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ان معصوم بچوں میں یہ عادت ڈالنی ہے کہ، جب بھی کھانا کھاؤ تو اپنے دوستوں یا ساتھ بیٹھے لوگوں سے ضرور پوچھیں اور ان کے ساتھ کھانا کھائیں۔

تھوڑی دیر بعد ثمن جماعت میں موجود تھی،وہ بھی سموسوں کے ساتھ۔ اسے خوش دیکھ کر مجھے بہت سکون ملا ۔اگلے روز معمول کے مطابق تمام بچے اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے، ثمن چونکہ پڑھائی میں اچھی تھی، اس لئے سب اس کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتے،اس سے مشورہ بھی کیا کرتے تھے اور وہ کلاس میں سب کی مدد کرنے کو ہر دم تیار رہتی تھی۔ آج میں نے ثمن سے باآواز بلند کلاس میں سب کے سامنے ذرا سختی سے کہا کہ ،’’ثمن! آپ کسی کو کچھ نہیں بتائیں گی، نا ہی آپ کسی سے بات کریں گی۔جب یہ آپ کی دوست نہیں ہیں تو پھر آپ ان سب سے بات کیوں کریں گی؟‘‘ سارے بچے میرا منہ تکنے لگے کہ ٹیچر کیا کہہ رہی ہیں۔جی ،بالکل درست سنا ہے آپ نے۔جب آپ سب کو ثمن کا احساس نہیں تو پھر بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔آپ صرف مطلب کے لئے بات کرتے ہیں ،جیسے ہی مطلب پورا ہو جاتا ہے اس کے بعد کوئی اُسے پوچھتا ہی نہیں۔ میں نے ذرا غصے سے کہا۔سارے بچے خا موش ہوگئے تھے۔ان سب کو بھی محسوس ہوگیا تھا کہ وہ غلط کرتے ہیں یہ کوئی اچھی عادت تو نہیں۔

میں نے کہا:پیارے بچو! بھوکے انسان کو کھانا کھلانے کا بہت اجر ملتا ہے۔اگر آپ اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا مل بانٹ کر کھائیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ سب سے خوش ہوں گے اور آپ کے کھانے میں برکت بھی ہوگی۔جماعت میں سکوت طاری تھا۔بچے تو معصوم ہوتے ہیں ،جس راستے پر چلانا چاہو راضی ہو جاتے ہیں ۔اب میری ذمہ داری یہی تھی کہ میں ان کو سمجھاتی اور صحیح اور غلط راستے کا بتا تی۔تھوڑی دیر بعد سب بچے ایک ساتھ بولے، ’’سوری مس ،آج سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم سب مل جل کر رہا کریں گے۔کسی ایک کو خود سے الگ نہیں کیا کریں گے۔ہم بہت اچھی دوست بن کر رہیں گے‘‘۔ ان کے وعدوں کا مجھے اعتبار تھا کہ جو یہ کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین