• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انجو کے سرخ پر

مجیب ظفرانوار حمیدی ، کراچی

ننھی انجو نے جب سے پریوں والی کہانی دادی اماں سے سنی، تب سے ایک انوکھی ضد لگا رکھی ہے کہ، مجھے بھی پر لگا دئیں جائیں، کیونکہ میں نے چاند کی سفید پریوں سے ملنے جانا ہے۔ روز رات کو وہ اپنے بیڈ پر لیٹتی تو گول مول چمکتے چاندا ماما کو دیکھ کر مچلنے لگتی۔ ’’میرے پر کہاں ہیں۔ میں نے چاند کی سفید پریوں سے ملنے جانا ہے‘‘۔ اماں نے بارہا سمجھایا، ’’میری جان انجو! انسانوں کے پر نہیں ہوتے۔‘‘ ابا نے ڈانٹ ڈپٹ کی اور کہا، ’’اب اگر آپ نے پَر لینے کی ضد کی تو میں آپ کو ڈوگی کے پاس چھوڑ آؤں گا۔‘‘ بھیا نے پیار سے بہلایا۔حتیٰ کہ ایک دن بھیا کپڑے اور جالی کے بنے ہوئے پیارے سے پَر لے بھی آیا، جن کے ساتھ ایک خوبصورت سا سفید فراک تھا۔ انجو نے جب اسے پہنا تو اسے لگا اب وہ چاند کی پریوں سے ملنے جا سکتی ہے۔ لیکن یہ کیا، یہ پَر تو اڑتے ہی نہ تھے۔ آخر انجو کی ضد روز بروز بڑھتی ہی گئی۔ ایک دن انجو جب سو کر اٹھی تو اس نے دیکھا اس کی کمر پر دو بے حد پیارے سے پر لگے ہوئے ہیں۔ ’’ارے! میں تو اڑ سکتی ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے پر ہلائے تو وہ ہلکا سا اوپر کو اٹھ گئی۔ یہ دیکھ کر اس نے شور مچا کر سب گھر والوں کو اکھٹا کر لیا۔ اس دن انجو سارا دن اپنے باغ میں اڑتی رہی۔ وہ بہت خوش تھی۔ خد ا خدا کر کے رات ہوئی تو انجو چاند کی پریوں سے ملنے چلی گئی، سب پریاں اس سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ انجو نے ان کے ساتھ مزے مزے کے کھیل کھیلے ، چونکہ اس کے پر سرخ تھے اس لیے سفید پریوں نے اس کا نام سرخ پری رکھ دیا تھا۔ بہت دیر تک انجو سرخ پری کے روپ میں ، چاند کی پریوں کے ساتھ ادھر ادھر اڑتی پھری۔ پھر اس نے ستاروں کے پاس جا کر دیکھا، وہ بالکل بھی اس کی پہنچ سے دور نہیں تھے۔ پھر وہ سورج میاں کے پاس گئی۔ لیکن انہوں نے سب پریوں کو ڈانٹ کر بھگادیا کیونکہ ان کے شور سے سورج میاں کی نیند خراب ہو گئی تھی۔ بادل بھائی نے پریوں کو روکنے کی بالکل کوشش نہیں کی، کیونکہ انہیں ان کا کھیل اچھا لگ رہا تھا۔ کھیلتے کھیلتے انجو نے دیکھا سورج میاں اٹھ چکے ہیں۔انہوں نے اندھیرے کا کمبل اتار پھینکا تھا اور اب وہ ستاروں کو بھگانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اچانک چاند کی پریاں غائب ہونے لگیں اور آہستہ آہستہ انجو بالکل اکیلی رہ گئی۔ انجو نے سب کو آوازیں دیں لیکن جواب ندارد! اب تو انجو کو رونا آنے لگا۔ ’’انجو! اٹھو بیٹا ۔ برا خوا ب دیکھا ہے کیا؟ ‘‘ امی جان نے پیار سے انجو کو اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ انجو آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔ اچانک اس کے منہ سے نکلا۔ ’’ہائیں! میرے پَر کہاں گئے؟‘‘ ’’کون سے پر بیٹا! چلو اٹھو! دادی اماں آپ کو ناشتے پر بلا رہی ہیں۔ آؤ منہ ہاتھ دھو لیں۔‘‘ امی جان انجوکو منہ ہاتھ دھلانے لے گئیں۔

پیارے ساتھیو!، اگر آپ کو معلوم ہو کہ سرخ پری کے پَر کہاں گئے تو انجو کو ضرور بتائیے گا! 

تازہ ترین
تازہ ترین