اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے امریکا کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کے چینی قرضوں کی فکر کرنے کے بجائے اپنے ذمہ واجب الادا چینی قرضوں کی فکر کرے۔معیشت کی بہتری کیلئے 10سے 12ارب ڈالر کی ضرورت ہے، بیرونی قرضوں کی صورتحال سنجیدہ مگر چینی قرضوں کا مسئلہ نہیں،، 60 ارب ڈالر سے زائد کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر منصوبوں میں مزید شفافیت لائیں گے، بلوم برگ کو دیئے گئے انٹرویو میں رہنما پی ٹی آئی اسد عمر نے کہا کہ ہمارے بیرونی قرضوں کی صورتحال سنجیدہ ہے لیکن ہمیں چینی قرضوں کا مسئلہ نہیں ہے۔واضح رہے کہ حال ہی میں امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ وہ اس بات کی نگرانی کریں گے کہ آیا عمران خان کی نئی حکومت چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف کے قرضوں کا استعمال تو نہیں کرے گی۔اس حوالے سے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ وہ پاکستان میں 60 ارب ڈالر سے زائد کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر منصوبوں میں مزید شفافیت لائیں گے اور مائیک پومپیو کے اس بیان کا جواب دیں گے۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تمام منصوبے منظرعام پر لائے گی۔انہوں نے بتایا کہ آئندہ 6 ہفتوں میں معیشت کی بہتری کے لیے 10 سے 12 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، تاہم کوشش ہوگی کہ انتظام اس سے کچھ زیادہ ہو تاکہ خدشات کم رہیں۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ رقم کے انتظام کے لیے اقدامات حکومت سازی کے بعد کریں گے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ رقم حاصل کرنے کے لیے عالمی مارکیٹ میں بانڈز فروخت کیے جاسکتے ہیں، دوست ملکوں سے تعاون لیا جاسکتا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام میں بھی جا سکتے ہیں۔اسد عمر نے بتایا کہ ان کی پارٹی خسارے کا شکار کمپینوں جیسے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) اور پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کی کوشش نہیں کرے گی۔متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ نئی انتظامیہ کے 100 دن کے اندر ریاست کے ماتحت چلنے والی کمپنیوں کو ایک ʼویلتھ فنڈʼ میں منتقل کردیا جائے گا، تاکہ سیاسی مداخلت کو ختم کیا جاسکے، جیسا کہ سنگاپور کی تیماسک ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کچھ کمپنیوں کا کنٹرول حکومت بھی سنبھال لے گی، خصوصاً قومی ایئرلائن کو، جس کا خسارہ 367 ارب روپے ہے تاکہ فضائی کمپنی کو نئے سرے سے اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے۔واضح رہے کہ رواں برس مئی میں بلوم برگ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تین سال کی کم ترین سطح پر ہیں اور قرضوں کا حجم آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کی گھنٹیاں بجانے لگا ہے۔