• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مستقبل میں ہونے والے واقعات کو زمانہٴ حال کے انداز میں بیان کرنا قرآن کا اُسلوب ہے۔ سورہ لہب میں ابولہب کی تباہی کا ذکر اس طرح کیا گیا_”ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ آپ ٹوٹ گیا“۔ یہ واقعہ اس سورہ کے نزول کے کئی سال بعد پیش آیا لیکن قرآن نے اس کو اس طرح بیان کیا جیسے یہ ابھی اسی وقت کا واقعہ ہے۔ اس سورہ میں مستقبل کو کھینچ کر حال میں لاکر ابولہب کی تصویر بیان کی گئی۔ خوابوں میں بھی اسی طرح ہوتا ہے کہ ہم مستقبل میں ہونے والے واقعے کو کافی پہلے دیکھ لیتے ہیں۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا تھا کہ سورج چاند ستارے ان کو سجدہ کررہے ہیں اور پھر کئی سال بعد جب ان کو سجدہٴ تعظیمی کرنے والوں کی تعداد 11ہی تھی تو ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا-”بیٹے! یہ ہے تمہارے اس خواب کی تعبیر ۔“سورہ یوسف میں مصرکے بادشاہ کے خواب میں بھی اس کو آئندہ 14برس کی ملکی صورت حال سے آگاہ کیا گیا تھا۔
امریکہ سے 20ریاستوں کے عوام کی جانب سے امریکہ سے علیحدگی کی خبر آئی تو ہمارے ہاں کئی لوگوں کی سٹّی گم ہوگئی۔ زبان گنگ ہوگئی اور قلم خاموش ہوگئے ۔ کئی لوگوں نے کہا_”لوجی امریکہ بھی ٹوٹ گیا“۔میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جن کا آبائی تعلق افغانستان سے ہے ۔ انہوں نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ہیٹ ٹرک پر آگیا ہے۔ پہلے برطانیہ عظمیٰ، پھر سوویت یونین اور اب ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔ ان کا کہنا تھا یہ20ریاستوں کی آواز امریکی سرزمین پر گرنے والا پہلا قطرہ ہے اور اب آپ دیکھتے رہیں کہ کیاگزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ان آوازوں کو صدا بہ صحرا کا روپ دینے کی کوشش کی جائے گی لیکن جب ایک بار آزادی کی صدا بلند ہوجاتی ہے تو پھر اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ افغانستان کو عہد جدید میں قدرت نے بڑی طاقتوں کو توڑنے کا مقام بنایا ہے۔19ویں صدی میں برطانیہ،20ویں صدی میں سوویت یونین اور اب 21ویں صدی میں امریکہ۔ قانون قدرت میں ہر عروج زوال میں تبدیل ہوکر رہتا تھا۔ شیکسپئر نے کہا تھا ” یہ دنیا ایک اسٹیج ہے“۔ گویا ایک ڈرامہ ہورہا ہے اور ڈرامے میں کہانی کلائمکس پر جانے کے بعد ہمیشہ اینٹی کلائمکس کی طرف چلی جاتی ہے اور اس کے بعد ڈرامہ ختم ہوجاتا ہے۔
میرے ایک امریکہ پرست دوست مجھے بتارہے تھے کہ امریکہ میں ایسا کئی بار ہوا ہے اورایسی آوازیں ہمیشہ دب جاتی ہیں۔ اب بھی اوباما اسے چٹکیوں میں اُڑادے گا اور ہرطرف شانتی شانتی ہوگی۔ ایک اور دوست بتارہے تھے کہ اوباما کو عورتوں نے زیادہ ووٹ دیے ہیں اس لیے عورتیں اس بحران کو ختم کردیں گی۔ لیکن میں اپنے دوستوں کو بتارہا تھا کہ20ریاستوں سے ایک ساتھ اٹھنے والی آوازکوئی اچانک پیدا ہونے والا اُبال نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کئی سال کی ذہنی کیفیت ہوگی۔ لوگوں کی سوچ نے مشترکہ روپ دھارنے میں بھی وقت لیا ہوگا اور پھر اس سوچ کو الفاظ کا روپ ملا۔ اور پھر یہ آئینی اور قانونی صورت اختیار کرتی ہوئی پٹیشن کی شکل میں سامنے آئی جس پر بڑی تعداد میں لوگوں نے دستخط کرنے شروع کردیے۔ اور امریکہ میں جب کوئی کسی کاغذ پر دستخط کرتا ہے تو وہ بہت سوچ سمجھ کر ایسا کرتا ہے۔ پھر ابھی تو یہ پٹیشن ہے اس کے بعدجب یہ مطالبہ تحریک کی صورت اختیار کرلے گا تو اس کے کئی انداز سامنے آئیں گے۔ مظاہرے ہوں گے، اسلحہ کا جو تقریباً ہر امریکی کے پاس ہے استعمال بھی ہوگا۔ اشتعال انگیز کارروائیاں بھی ہوں گی اور فسادات بھی ہوں گے۔
سوویت یونین کی فوجیں جب افغانستان سے واپس ہوئی تھیں تو وہاں معیشت بہت بڑے طوفان کا شکار ہوگئی تھی اور پھر تھوڑے ہی عرصے میں سوویت یونین کے گورباچوف نے اعلان کردیا تھا کہ ہم اتنا بڑا ملک نہیں چلاسکتے اس لیے ہم سوویت یونین کو توڑ رہے ہیں۔ ایک ماہ کے اندر اندر سوویت یونین ٹوٹ گئی، تڑک کرکے۔ یہ دسمبر1991کی بات ہے۔ اس وقت گورباچوف تازہ تازہ دوبارہ صدر بنا تھا اور اب دسمبر ہی میں تازہ تازہ امریکی صدر منتخب ہونے والے اوباما کو علیحدگی کا مطالبہ کرنے والی ریاستوں کی پٹیشن کا جواب دنیا ہے۔ اوباما کی جانب سے پٹیشن کا جواب آنے کے بعد کا ردعمل کیا ہوگا، وہ امریکہ کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔
روس کی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق سربراہ نے آج سے تیس سال پہلے کہا تھا کہ افغانستان سے جب امریکی واپس جائیں گے تب ملک میں معیشت کی تباہی پر ہنگامے ہوں گے اور ان کی شدت ایسی ہوگی کہ ملک میں مارشل لاء لگانا پڑے گا اور 50ریاستوں میں مارشل لاء لگانے کے لیے امریکہ کو ساری دنیا سے اپنی فوجوں کو واپس بلانا پڑے گااورپھر دیکھنا ہوگا کہ یہ مارشل لاء آزادی کی لہر کو ٹھنڈا کرسکے گا یا یہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا؟
امریکہ کے ریسرچ اداروں کا بڑا شہرہ ہے۔ اب ان کا بھی امتحان ہوگا۔ امریکہ کی ایجنسیوں نے بہت سے ملکوں میں مارشل لاء لگوائے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں الیکشن کورد کروایا ہے۔ بہت سے ملکوں میں ہنگامے اور فسادات کروائے ہیں۔ بہت سے ملکوں کو دھماکوں اور خودکش حملوں کا نشانہ بنوایا ہے۔ بہت سے ملکوں کے ٹکڑے کروائے ہیں۔ مارشل لاء کا مشورہ اور پلان پاکستان میں ہر بار امریکہ ہی کی ایجنسیوں نے دیا۔پاکستان کو توڑنے کے لیے1971ء کے الیکشن کی رٹ کو نہ ماننے کا منصوبہ بھی امریکی تھا۔ عراق ‘ افغانستان اور فلسطین میں بم دھماکے اور خودکش حملے بھی امریکی تھنک ٹینکس کا کارنامہ بتائے جاتے ہیں۔ اگر بہت سے لوگوں کی رائے کے مطابق آزادی کی یہ لہر اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے خلاف ایک تعصب کی لہر ہے تو اب دیکھتے ہیں کہ اس الیکشن کے نتائج کو نہ ماننے والوں کو کیسے منایا جائے گا؟ مارشل لاء جہاں جہاں لگا ہے وہاں تباہی اور کرپشن کے طوفان آئے ہیں۔ تو اب امریکہ مارشل لاء لگانے کے بعد ان طوفانوں کو کیسے روکے گا؟ اور جب امریکی زوال پذیر معیشت مزید بحرانوں کی زد میں آئے گی تو یہ تھنک ٹینک ان سے بچنے کا کیا طریقہ دریافت کریں گے؟
ایک نعرہ یہ بھی لگایا جاتا تھا کہ گلوبل تبدیلیاں آرہی ہیں۔تو اب21ویں صدی میں اس کا عملی روپ سامنے آئے گا۔ 20ویں صدی میں دنیا کا سب سے بڑا ملک سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور گلوب کے شمالی حصے میں کئی ملک وجود میں آگئے۔ اب امریکہ کے براعظم کو دیکھیے تو جنوبی امریکہ میں 26ممالک ہیں اور شمالی امریکہ میں صرف 2ملک ۔ اسی طرح پورا براعظم آسٹریلیا ایک ملک ہے۔ گلوبل تبدیلی میں شمالی امریکہ کا نقشہ جدید روپ اختیار کرکے زیادہ جمہوری ہوجائے گا۔ جس طرح جنوبی امریکہ کے ملک پرامن انداز میں رہ سکتے ہیں اسی طرح شمالی امریکہ کے متعدد ممالک بھی امن‘ سلامتی
اور دوستانہ انداز میں زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ ایک بڑا امریکہ دنیا میں امن اور محبت پھیلانے کے بجائے طاغوت کا روپ دھار گیا تھا اور امریکہ میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو امریکہ کے اس روپ کو پسند نہ کرتے تھے۔ ایسے لوگوں نے جب دیکھا کہ بش ہوں یا اوباما وہ سب دنیا کو تباہ کرکے امریکہ کے عوام کی عاقبت خراب کرتے جارہے ہیں تو انہوں نے امریکہ سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا۔
امریکہ کی20ریاستوں کے عوام کی آواز میں دنیا کے لاکھوں کروڑوں مظلوموں کی آواز بھی شامل ہے۔ ہیروشیما ، ناگاساکی کے مقتولوں سے لے کر شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کے شہداء تک سب کے لہو نے امریکہ کی20ریاستوں کے لوگوں کے ضمیر کو بیدار کیا ہے اور ان سب کے ضمیر اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ دنیا کے لوگوں کو ظلم ‘ناانصافی اور ناجائز قبضے سے بچانے کے لیے ہمیں اس ملک سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ جب لوگ ظلم کے خلاف اس طرح بیدار ہوجاتے ہیں تو ان کو کبھی شکست نہیں ہوتی۔ کسی کی لچھے دار باتیں اور سیاستیں ان کے عزم کو توڑ نہیں سکتیں۔
تازہ ترین