• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ لوگوں، معاملوں یا مقاصد کے لئے جو چڑھائی چڑھنے اور اترائی اترنے کے قابل نہیں ہوتے راہیں ہموار کرنی پڑتی ہیں جیسے وطن عزیز میں چار مرتبہ مارشل لاؤں کی راہیں ہموارکی گئیں اور پھر ان سے نجات پانے کے لئے بھی چار مرتبہ سول حکومتوں کی راہیں ہموار کی گئیں جیسے پیپلزپارٹی کواقتدارسے دور رکھنے اور اسلامی جمہوری اتحاد کے لئے ”آئی ایس آئی“ نے راہیں ہموار کی تھیں جیسے پاکستان کے ”کالے کوٹوں“ کی تحریک نے عدلیہ کی آزادی کی راہیں ہموار کی تھیں اورجیسے آج ہمارے محترم چیف الیکشن کمشنر اس ملک میں پہلی مرتبہ اپنی ”مدت ِ اقتدار“ پورے کرنے والی سول حکومت کے بعد ایسے عام انتخابات کی راہیں ہموار کر رہے ہیں جس کے نہ صرف صاف اورشفاف ہونے کی توقع ہے بلکہ جس کوغالباً ”بے یارو مددگار“ انتخابات بھی کہا جائے گا کیونکہ یقین دلایا گیا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج صرف پولنگ کے ووٹوں کے ڈبوں سے ہی برآمد ہوں گے ”گھوسٹ پولنگ سٹیشنوں“ سے نہیں آئیں گے۔ ان انتخابات میں کسی ریاستی ادارے کا کوئی اور کسی بھی قسم کا ”دخل در معقولات“ نہیں ہوگا۔ کوئی کسی کی راہ میں رکاٹ نہیں بنے گا اورکوئی کسی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش بھی نہیں کرسکے گا۔ یعنی معجزوں کادور گزر جانے کے بعد کا یہ پہلامعجزہ ہوگا۔
ان قابل قدر اور بہتر مستقبل کی راہیں ہموار کرنے والے حالات میں تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان کا چیف الیکشن کمشنر سے یہ مطالبہ کہ وہ ایئرمارشل اصغر خان کے مقدمے کے فیصلے کے مطابق آئی ایس آئی سے رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں پرانتخابات میں حصہ نہ لینے کی پابندی عائد کرکے تحریک ِ انصاف کی ”سونامی“ کی راہوں کو ہموار کردیں۔ حجرہ شاہ مقیم میں عرض داشت پیش کرنے والی وہ شاعر کی مفروضہ جٹی یاد آجاتی ہے جو محض اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے شوہر سے لے کر اپنی بستی کی تمام عورتوں تک ہر کسی کو موت کی نیند سلا دینا چاہتی تھی کہ:
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ اپنے وطن عزیز کی قسمت بدلنے کے لئے اپنے اہل وطن پر جو سونامی طاری کرنا چاہتے ہوں وہ بھی چڑھائی چڑھنے یا اترائی اترنے سے معذور ہی ہو چنانچہ اسے ہموار راہوں اور صاف ستھرے ساحلوں کی ضرورت اور طلب…
پاکستان کے ڈپٹی پرائم منسٹر چودھری پرویز الٰہی سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ ان کی پانچ سالہ حکومت پنجاب نے گزشتہ 55سالوں سے بھی زیادہ تعمیراتی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس عرصہ میں جنوبی پنجاب کے منصوبوں پر 300 ارب روپے خرچ کئے گئے جبکہ پنجاب کے موجودہ خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف نے صرف لاہور کی ایک سڑک پر اب تک ایک سو ارب روپے سے زیادہ خرچ کردیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ”خادم اعلیٰ“ اپنے دور اور ہمارے دور کے موازنے کے لئے سروے کرائیں اس موازنے کے لئے سروے کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ اپریل 2013 کے بعد 45دنوں کے اندر عام انتخابات کے نتائج یہ موازنہ پیش کردیں گے جو زمین پرخدا کے نائب انسانوں کی عوامی عدالت کا فیصلہ ہوگا جس عدالت کو نہ توہین کا اندیشہ ہوتا ہے اور نہ ہی عملدرآمد نہ ہوسکنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ہمارے دوست اور انسانی حقوق کی پاکستان کونسل کے آئی اے رحمن نے یہ پریشان کردینے والی شکایت کی ہے کہ ”ملالہ ڈے“ کے حوالے سے ایک سرکاری اشتہار میں علامہ اقبال کی ایک دعا شائع کی گئی ہے مگر معلوم نہیں کیوں ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ سے شروع ہونے والی اس نظم کے یہ دو مصرعے غائب کردیئے گئے ہیں کہ:
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
کیا یہ مصرعے غیر ضروری تھے یا سرکاری پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتے تھے کہ سنسر کردیئے گئے۔
تازہ ترین