قرآن و سنت کی تعلیمات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نہ صرف یہ کہ اہم امور اورمعاملات میں صحابۂ کرامؓ سے مشورہ لیتے ،بلکہ ان پر عمل بھی فرماتے تھے۔آپﷺ کے بعد جب صحابۂ کرامؓ کا دور آیا تو ان کے سامنے ایک طرف تو آپﷺ کا اسوہ ٔحسنہ تھا اور دوسری طرف قرآن و حدیث۔ دونوں میں نہایت واضح ہدایات خود صحابہؓ کو دی گئی تھیں کہ وہ کس اساس پر اپنا سیاسی نظام قائم کریں اور اس میں قانون سازی کا طریقہ کیا ہو۔ اس سلسلے میں قرآن مجید میں اصولی ہدایت یہ دی گئی ہے: اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔(سورۂ شوریٰ۔۳۸) اس اصولی ہدایت کی وضاحت بھی نبی کریم ﷺ نے اس طرح فرمائی تھی:حضرت ابوسلمہؓ کا بیان ہےکہ میں نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس کا ذکر نہ تو کہیں قرآن میں ہو اور نہ سنت میں تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟آپ ﷺنے فرمایا کہ اس معاملے پر مسلمانوں کے صالح لوگ غور کر کے اس کا فیصلہ کریں گے۔(سنن دارمی)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں’’میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرنے والا ہو‘‘۔(جامع ترمذی)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،مشورہ کرنے والا شخص کبھی حق سے محروم نہیں ہوتا اور اپنی ذاتی رائے کو کافی سمجھنے والا خود پسند شخص کبھی کامیاب و بامراد نہیں ہوتا ۔(قرطبی )
سوال یہ ہے کہ مشورہ کہاں اور کن چیزوں میں کیا جائے؟ اس سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ جن امور میں شریعت کا فیصلہ متعین ہے کہ یہ چیز فرض ہے یا واجب یا حرام یا مکروہ ہے، ان امور میں مشورے کی ضرورت نہیں، بلکہ جائز بھی نہیں ہے، جیسے کوئی شخص یہ مشورہ کرے کہ نماز پڑھے یا نہیں، زکوٰۃ دے یا نہیں، حج کرے یا نہیں، یہ اعمال مشورے کے نہیں ہیں، ان کے لیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم متعین ہے کہ ان کا کرنا ہر حال میں ضروری ہے یا اسی طرح جن چیزوں کو شریعت نے منع کیا ہے، جیسے زناکاری، شراب نوشی، ڈاکا زنی وغیرہ ان میں بھی مشورے کی حاجت نہیں، ان سے تو بہرحال رکنا لازمی ہے، البتہ طریق کار کے بارے میں مشورہ کیا جاسکتا ہے، جیسے کسی مقام پر جانے کے لیے مختلف راستے ہیں، بعض پُراَمن ہیں اور بعض پر خطر، تو اس موقع پر تجربہ کار افراد کی رائے معلوم کی جاسکتی ہے کہ ان مختلف راستوں میں اس کے لیے کون سا راستہ بہتر ہوگا، یا اسی طرح ایک شخص مریض ہے اسے تردد ہے کہ مجھے اس حالت میں تیمم کی اجازت ہے یا نہیں؟وہ اس بارے میں اطباء یا تجربہ کاروں سے مشورہ کرسکتا ہے، اسی طرح وہ احکام ومسائل جن کے بارے میں قرآن و حدیث، اقوالِ صحابہ یا سلف صالحین کی کتابوں میں کوئی صراحت نہیں ہے، جدید اور نئے زمانے سے ان کا تعلق ہے، ان میں مشورہ کرنا نہ صرف جائز، بلکہ اربابِ فقہ اور صاحب ِ نظر علمائے دین سے ان کے بارے میں پوچھنا اور حکم ِ شرعی معلوم کرنا واجب ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسولِ اکرمﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺکے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حکم صراحتا ً قرآن میں نازل نہیں ہوا اور آپ سے بھی اس کے متعلق کوئی ارشاد ہم نے نہ سنا ہو تو ہم کیا کریں؟ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے کام کے لیے اپنے لوگوں میں سے عبادت گزارافراد کو جمع کرو اور ان کے مشورے سے اس کا فیصلہ کرو، کسی کی تنہا رائے سے فیصلہ نہ کرو۔ (معارف القرآن: ۲/۲۲۰)
چناںچہ اسی اصول پر نبی اکرم ﷺکے بعد صحابہؓ نے نظام خلافت کی بنیاد رکھی جس میں خلیفہ کے انتخاب میں بھی جمہور مسلمین کے مشورے کی شرط لازمی ٹھہری اور خلافت کے فرائض کی انجام دہی میں بھی شوریٰ کو ضروری قرار دیا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ جو پہلے خلیفہ ہیں، مسلمانوں کے مشورہ ٔعام سے خلیفہ مقرر ہوئے اور خلیفہ بننے کے بعد آپ نے تمام معاملات کا فیصلہ جن کے بارے میں آپ کو کتاب و سنت میں کوئی واضح ہدایت نہیں ملی،صحابۂ کرامؓ کے مشورے سے کیا ۔ حضرت عمرؓ کے دور میں تمام امور میں شوریٰ کا جو اہتمام رہا ،اسےشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒنے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: حضرت عمرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ تمام معاملات میں صحابہؓ سے مشورہ کرتے اور ان سے مذاکرہ کرتے، یہاں تک کہ الجھن دور ہو جاتی اور دل پوری طرح مطمئن ہو جاتا۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ آپ کے فیصلے تمام مشرق و مغرب میں مقبول ہوئے۔ (حجۃ اللہ البالغہ )
حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا، کتاب وسنت کے بعد میں اس فیصلے کا پابند رہوں گا جس پر تمہارا اتفاق رائے ہوچکا ہو۔(تاریخ طبری)مشورہ ایک امانت ہے، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’المستشار مؤتمن‘‘جس سے مشورہ لیا جاتا ہے، وہ معتمد ہوتا ہے۔ ارشادربانی ہے:بےشک، اللہ تمہیں حکم دیتا ہے (اے ایمان والو) تم حوالے کرو امانتوں کو ان کے حقداروں کے۔(سورۃ النساء )لہٰذا جو لوگ اہلیت اور معیار نمائندگی پر اترتے ہوں، انہیں شوریٰ کا رکن بنایا جائے ،یہ بنیادی شرط ہے۔
دینی امور کے علاوہ معاشی، معاشرتی، سماجی، انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں بھی مشورےکو اپنانا چاہیے، جہاں شریعت، عقل و عادت کے اعتبار سے کوئی جانب متعین ہو اور نہ ہی اس کا نافع ہونا یقینی ہو، امورِ طبعیہ جیسے بھوک اور پیاس کے وقت روٹی کھانا یا پانی پینا، اس میں مشورہ کرنے اور کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھانا چاہیے یا نہیں؟ عام حالات میں یہ سوال حماقت ہے، ہاں بیماری کے وقت اگر خطرے کا احتمال ہو تو مشورہ کرنا مستحسن یا ضروری ہوگا۔ یہاں اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشورے کی ترغیب اور ہدایت تو دی ہے، مگر اپنی رحمت ِ عامہ کی بناء پر چند مخصوص جگہوں کے علاوہ انسان کو مقید نہیں کیا کہ وہ کوئی معاملہ بلامشورہ کر ہی نہ سکے، بسااوقات اہم معاملات پیش آتے ہیں اور ایک تجربہ کار انسان کو اس کے انتظام و انصرام اور حل کا طریقہ معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی صاحب ِ عقل و دانش سے مشورہ کرے گا تو اس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں بتا سکتا، اس حالت میں اگر وہ بلامشورہ کام کربیٹھے تو کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح معاملات کی نوعیت کے اعتبار سے، بعض مواقع پر مشورہ نہایت اہم اور ضروری ہوگا اور بعض جگہ درجہٴ استحسان میں رہے گا۔مشاورت اور مشورے میں اتباعِ سنت کے علاوہ بے شمار فوائد ہیں، اہلِ علم اور مشورے کے پابند حضرات اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔
مشورہ ہمیشہ ایسے شخص سے کرنا چاہیے جسے متعلقہ معاملے میں پوری بصیرت اور تجربہ حاصل ہو، چناںچہ دینی معاملات میں ماہر اور صاحب ِ نظر عالم ِ دین سے مشورہ کرنا چاہیے اور کسی بیماری اور جسمانی صحت کے بارے میں کسی اچھے طبیب کا انتخاب ہی مفید ہوگا۔ غرض جس طرح کا معاملہ ہے، اسی فن کے ماہرین اور تجربہ کار کا انتخاب کیا جائے، کیوں کہ تجربہ کے بغیر صرف عقل کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی، گویا مشورہ لینے کے لیے عقل اور تجربہ دونوں کا بیک وقت موجود ہونا نہایت ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے بغیر صحیح رہنمائی نہیں مل سکتی۔ رسولِ اکرم ﷺنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: عقل مندوں سے مشورہ کرو، کامیابی ملے گی اور ان کی مخالفت نہ کرو، ورنہ شرمندگی ہوگی۔
کسی میں اگر فہم و بصیرت اور تجربہ نہیں ہے تو وہ مشورے کا اہل بھی نہیں ہے، اگر اس سے مشورہ کیا جائے تو پہلے وہ مشورہ ہی کیا دے گا اور اگر مشورہ دے گا بھی تو اس مشورے سے کیا فائدہ؟ اس لیے مشورے کے لیے عقل مند، ماہر اور تجربہ کار ہونے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ اسلام کا نظام شورائیت پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ، حضراتِ شیخین، صدیق اکبرؓاور فاروقِ اعظمؓ کی رائے کو جمہور صحابہ ؓ پر فوقیت دیتے اور آپ ان دونوں حضرات سے مخاطب ہوکر فرماتے: جب تم دونوں کسی رائے پر متفق ہوجاوٴ تو میں تم دونوں کے خلاف نہیں کرتا۔ (مسند ِ احمد) معلوم ہوا کہ محض کثرت رائے کا شریعت ِ اسلامی میں کوئی اعتبار نہیں، قوتِ عقل و بصیرت اہم چیز ہے۔اسی طرح مشورے کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو متقی اور دین دار ہو، جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور عنداللہ جواب دہی کا احساس نہ ہو، اس کے مشورے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔مشورہ لینے کے لیے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مشیر فکر و نظر کے اعتبار سے صالح ہے یا نہیں، جذباتی انسان کا مشورہ معتبر نہیں ہوسکتا،جس کا مفاد وابستہ ہو ،اس سے بھی مشورہ نہ کیا جائے۔
جس معاملے میں جس شخص سے مشورہ لیا جارہا ہے ، اگر اس میں مکمل بصیرت ہو تو مشورہ دے، ورنہ صاف کہہ دے کہ مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں، اس لیے میں مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوں ، یہ کوئی ہتک اور بے عزتی کی بات نہیں،بلکہ وہ اخلاص اور جذبہٴ ہمدردی کی بنیاد پر اجر وثواب کا مستحق ہوگا ، مشورہ لینے والے کا بھی اعتماد بڑھ جائے گا اور اسے یقین ہوجائے گا کہ یہ میرے حق میں مخلص ہے ، آج کل لوگوں کا یہ مزاج ہے کہ کچھ آئے یا نہ آئے مشورہ لیتے وقت ضرور کچھ نہ کچھ جواب اور مشورہ دے دیتے ہیں ، یہ دیانت کے خلاف ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے جان بوجھ کر کسی کے معاملے کو بگاڑنے کے لیے یا کسی کا نقصان کرانے کے لیے مشورہ دینے کو خیانت اور گناہ قرار دیا ہے،آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے : جس نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور اس نے اسے کوئی ایسا مشورہ دیا جس کے علاوہ میں وہ کامیابی سمجھتا ہو تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ (مسند احمد) مشورہ دینے والے کی ذمے داری ہے کہ جس معاملے میں مشورہ لیا گیا ہے ، اسے راز میں رکھے ، لوگوں کے سامنے اسے ظاہر نہ کرے ۔ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے، وہ امانت دار ہوتا ہے ، اسے امانت داری کا پورا حق ادا کرنا چاہیے۔ ( جامع ترمذی )
مختصر یہ کہ اسلام کا نظام شورائیت پر مبنی ہے،زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو،اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ باہمی امور میں مشاورت سے کام لیا جائے ،یہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے اور سنت ِ رسولﷺ بھی۔لہٰذا ہر موقع پر مشورے اور مشاورت کا اہتمام ایک ضروری امر ہے۔