آیا صوفیہ(Hagia Sophia) کا عجائب گھر، ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے۔ بلاشک و شبہ تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں اس کا شمارکیا جاتا ہے۔ یہ ایک مشرقی آرتھوڈوکس گرجا تھا جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ 1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجا و مسجد کی حیثیت ختم کرکے اسے عجائب گھر بنادیا تھا۔ لاطینی زبان میں اسے Sancta Sophia اور ترک زبان میں Ayasofya کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں کبھی کبھار اسے سینٹ صوفیہ بھی کہا جاتا ہے۔ یونیسکو نے1985ء میں اسے عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا تھا۔
گرجا کی تعمیرِنو
4صدی عیسوی کے دوران یہاں تعمیر ہونے والے گرجے کے کوئی آثار اب موجود نہیں۔ پہلے گرجے کی تباہی کے بعد قسطنطنین اول کے بیٹے قسطنطنین ثانی نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا تاہم 532ء میں یہ گرجا بھی فسادات و ہنگاموں کی نذر ہوگیا۔ بعد میں جسٹینیان اول نے اسے ایک بار پھر تعمیر کروایا اور27دسمبر 537ء کو اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ گرجا اشبیلیہ کے گرجے کی تعمیر تک ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا رہا۔ آیاصوفیہ متعدد بار زلزلوں کا شکار رہا، 558ء میں اس کا گنبد گرگیا اور اس کی جگہ 563ء میں دوبارہ لگایا جانے والا گنبد بھی تباہ ہو گیا۔ 989ء کے زلزلے میں بھی اسے کافی نقصان پہنچا۔
بازنطینی سلطنت کی پہچان
شہنشاہ جسٹینیان نے قسطنطنیہ میں آیا صوفیہ (حاجیہ صوفیہ) کی تعمیر میں150ٹن سونے کی مالیت کے برابر پیسہ خرچ کیا۔ قسطنطنیہ بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ آبنائے باسفورس پر واقع اس شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔ آیا اصوفیہ کو ’چرچ آف وزڈم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے تقریباً تمام ہی شہنشاہوں کی تاجپوشی اسی کلیسا میں ہوئی تھی۔
طرز تعمیر کا شاندار نمونہ
کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار گرجا گھر کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک کلیسا دیکھنا چاہتا تھا جو حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے آج تک نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں اس جیسا تعمیر کیا جا سکے۔ اس حکم نامے کے15برس بعد ہی اس کلیساکے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح ہوگیا۔
کلیسا سے مسجد میں تبدیلی
1453ء میں قسطنطنیہ کی عثمانی سلطنت میں شمولیت کے بعدآیاصوفیہ کو مسجد بنادیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1935ء تک برقرار رہی، بعد میں کمال اتاترک نے اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ آیاصوفیہ بلاشبہ بازنطینی طرزِ تعمیر کا ایک شاہکار تھا جس سے عثمانی طرز تعمیر نے جنم لیا۔ عثمانیوں کی قائم کردہ دیگر مساجد شہزادہ مسجد، سلیمان مسجد اور رستم پاشا مسجدآیاصوفیہ کے طرز تعمیر سے متاثر ہیں۔
عثمانی دور میں مسجد میں کئی تعمیراتی کام کیے گئے، جن میں سب سے معروف16ویں صدی کے مشہور ماہر تعمیرات سنان پاشا کی تعمیر ہے۔ اس میں نئے میناروں کی تنصیب بھی شامل تھی، جو آج تک قائم ہیں۔ 19 ویں صدی میں مسجد میں منبر تعمیر کیا گیا۔ اس کے خوبصورت گنبد کا قطر 31میٹر (102 فٹ) ہے اور یہ 56میٹر بلند ہے۔
مسجد سے میوزیم تک کا سفر
جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک نے 1934ء میں آیا صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ نقش و نگار پھر سے بحال کر دیے گئے جنہیں عثمانی دور میں چھُپا دیا گیا تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں اس عمارت میں کیے گئے اضافے کو بھی برقرار رکھا جائے۔
اسلام اور مسیحیت ساتھ ساتھ
آیاصوفیہ میں جہاں ایک طرف جگہ جگہ اسلامی عبارات لکھی نظر آتی ہیں وہاں حضرت مریم کی وہ تشبیہہ بھی موجود ہے، جس میں وہ حضرت عیسیٰ کو گود میں لیے ہوئے ہیں۔
بازنطینی دور کی نشانیاں
آیا صوفیہ کی جنوبی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی ایک تشبیہہ14ویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کرکے پھر سے بحال کیا گیا ہے۔ کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تشبیہہ میں مختلف چہرے صاف نظر آتے ہیں۔ اس تشبیہہ کے وسط میں حضرت عیسیٰ ہیں، اُن کے بائیں جانب حضرت مریم جبکہ دائیں جانب یوحنّا ہیں۔
ایک اہم علامت
آیا صوفیہ کے آس پاس مسلمانوں کی تاریخی عمارات کی کمی نہیں ہے۔ سامنے ہی سلطان احمد مسجد واقع ہے، جسے بلیو یا نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ترک قوم پرستوں کا مؤقف ہے کہ’ آیاصوفیہ‘ سلطان محمد کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کی ایک اہم علامت ہے، اسی لیے اسے مسجد میں بدل دینا چاہیے۔