آگ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ جانے کتنی زندگیاں اس آگ کو ٹھنڈا کرسکیں۔ بات زندگیوں کی ہو تو کم نہیں یہاں تو ملک داؤپر لگتا نظر آرہا ہے۔ بلوچستان کیا کم تھا جو اب کراچی بھی مقتل گاہ بن گیا ہے اور سب اس آگ کو اپنے بیانات سے بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئٹہ جل رہا ہوتا ہے تو نیرو اسلام آباد میں ہیوی بائیک چلا رہا ہوتا ہے۔ کراچی میں قاتل آزاد ہے اور محافظ قید۔ محافظ اتنے مفلوج کہ آج تک ایک دہشت گرد کو، ایک بھتہ خور کو، ایک ٹارگٹ کلر کو سزا نہیں دی جاسکی۔ عوامی نمائندگی اور حقیقی عوامی نمائندگی کی دعویدار ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور اے این پی کراچی کی کل نمائندگی رکھنے کے باوجود دہشت گردی روک سکیں نہ ٹارگٹ کلنگ۔ قاتل کون اور مقتول کون، ظالم کون اور مظلوم کون، حاکم کون محکوم کون سب کنفیوژن کا شکارہیں۔ مظلوموں کا کوئی والی وارث ہے ہی نہیں۔ جس طرح کراچی میں لوگوں کو مارا جارہاہے اس انداز کا ظلم تو شاید غیر بھی نہیں کرتے۔ سرکاری ملازم اور پولیس سیاسی وڈیروں کے احکامات ماننے سے کیسے انکار کردے جبکہ وہ نوکری ہی ان وڈیروں کے سر پر کر رہے ہیں ۔جس شہر میں ٹارگٹ کلر، بھتہ خور تھانوں کے ایس ایچ او ز خود منتخب کریں وہاں کوئی کیسے پکڑا جاسکتا ہے۔ ان جلتے ہوئے شہروں میں فوج بھیج دی جائے؟ اگر ہاں تو پھر پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کا کیا فائدہ؟ پانچ سال حکومت کرکے بھی فوج نے ہی آنا ہے، اگر تمام مسئلوں کا حل فوج ہی ہے تو پھرجمہوریت کس چڑیا کا نام ہے یا جمہوریت ایک ایسا بلبلہ ہے جوہر دوسال ،تین سال حتیٰ کہ پانچ سال پر بھی ”پٹاخ“ کر جاتا ہے۔ رہی فوج تو وہ اپنی ساکھ بچانے میں مصروف ہے۔ پاکستانی سیاستدان بھی کیا عجیب مخلوق ہیں، کیا شاندار ویژن ہے ان سب کا۔ عظیم نیلسن منڈیلا نے ایک انٹرویو میں کہا سیاستدان وہ ہوتا ہے جو آنے والے انتخابات پر نظر رکھتا ہے اور رہنماوہ ہوتا ہے جو آنے والی نسل پر نظر رکھتا ہے۔ لو جی حل نکال لیا پاکستانی سیاستدانوں نے اس جملے کا۔ انہوں نے اپنی آنے والی نسل پر بھی نظر رکھ لی۔ بلاول، حسین نواز، مریم نواز، حمزہ شہباز ، مونس الٰہی تیارہیں۔ یہ ہے ہمارے رہنماؤں کی نظر۔ اندازہ کریں کہ زرداریوں، نوازوں اور چوہدریوں نے ملک کوکس حال میں پہنچایا۔ کاش یہ بانجھ دھرتی لاکھوں سیاستدانوں کے بجائے ایک نیلسن منڈیلا جنم دے دیتی۔ باقی کام اب اگلی نسل کرے گی۔ہماری مستقبل کی قیادت تیارہے۔ بلکہ تیاریوں میں مصروف ہے۔ ملک جل رہا ہے، لوگ مر رہے ہیں اور مستقبل کی قیادت عالیشان محلوں میں اعلیٰ پوشاکوں میں غم غلط کر رہی ہے۔ کسی کو لندن میں تیار کیا جارہا ہے۔ کسی کو ہیلی کاپٹروں میں لیپ ٹاپ بھر کر شہر شہر سیر کرائی جارہی ہے۔ کہیں کوئی تمام عمر انصاف کے لئے تڑپتا مر جاتا ہے کہیں انصاف اپنے نامور سپوت کو بچانے کے لئے سب کو لائن حاضر کردیتا ہے۔
بات کراچی کی ہو رہی تھی اور کہاں نکل گئی۔ حیرت ہے ہم کتنے بے بس ہیں آگ آہستہ آہستہ ہمارا جسم جلا رہی ہے ،جلنے کی بو چہار سو پھیل چکی ہے اور ہم بے بس مجبور لوگ انتظار کر رہے ہیں تو فقط اس لمحے کا جب ہم خود ماضی کا لمحہ بن جائیں گے۔ اب تو بے بسی اس حد تک بڑھ گئی کہ ہم چیخ بھی نہیں سکتے۔ اپنی تکلیف پر رو بھی نہیں سکتے۔ چانکیہ نے کہا تھا ”کسی کو مار کر خود ہی رونا شروع کردو“ سو اب یہ کام بھی امراء نے، شرفاء نے اور اس معاشرے کے ٹھیکیداروں نے اپنے ذمہ لے لیا۔ چینلز پررونے پیٹنے کی ذمہ داری بھی اب انہوں نے لے لی ہے یعنی اب مارنے والے ہی واویلا کریں گے۔ لوٹنے والے دہائیاں دیں گے۔ چھیننے والے چھن جانے والوں کی جگہ روئیں گے، پیٹیں گے۔ مایوس پھیلتی جارہی ہے اور چار سو نظر دوڑائیں تو اندھیرے اور دھند کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ کس سے سوال کریں کس سے رہنمائی مانگیں؟ اب آسمان سے بھی کسی نے نہیں اترنا لگتا ہے ہمیں جرم ضعیفی کی سزا مل کر رہے گی۔ جب ہم خود بڑے خلوص سے اپنے قاتل منتخب کرتے ہیں، انہیں رہنما قرار دیتے ہیں، ان کی اعلیٰ پوشاکوں سے اٹھنے والی خوشبوؤں میں گم ہو جاتے ہیں،ان کی زن زن کرتی گاڑیوں کی دھول کو اپنے ماتھے کا سندور سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں توپھر ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ دہائی دیں، فریاد کریں، الامان پکاریں حتیٰ کے آسمان کی طرف دیکھیں۔ آسمان والا بھی ایسوں کے حالات بدلنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
آج تک جس طرح عوام کو بے وقوف بنایا گیا اب یہ عمل اتنا پختہ ہوچکا کہ عوام پر مزید محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عملی طور پر اور مستقل طور پر بے وقوف بن چکے ہیں۔ عاطف اسلم کے بقول ”اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں“۔
سو دوستو! کراچی ایسے ہی جلتا رہے گا۔ یہاں ایسے ہی لاشے اٹھائے جاتے رہیں گے۔ ان پر ایسے ہی پیغامات جاری ہوتے رہیں گے۔ مائیں ایسے ہی بین کرتی رہیں گے۔ بہنیں ایسے ہی دہائیاں دیتی رہیں گی۔ سپریم کورٹ بلوچستان پر جتنا مرضی زور لگا لے وہاں کے کاؤ بوائے ایسے ہی ہیوی بائیک چلاتے رہیں گے کیونکہ بوائے بوائے ہی ہوتا ہے چاہے وہ کاؤہی کیوں نہ ہو۔ سب کچھ ایسا ہی ہوتا رہے گا کیونکہ ہم خود ہی چاہتے ہیں کیونکہ ہم خود یہ سب روکنا نہیں چاہتے کیونکہ ہم خود کچھ بولنے کو تیار نہیں حتیٰ کے اپنے قاتل تک لہٰذا ہماری تھوڑی بہت رہ جانے والی بقا اسی میں ہے کہ آئندہ انتخابات کی تیاری کریں اور ایک بار پھر انہی پر اعتماد کریں۔ انہیں اپنے سر پربٹھائیں اور انہیں ایک اور موقع فراہم کریں جنہوں نے ہمیں اس حال میں پہنچایا۔ خبردار یہ انتخابا ت میں ہم نے کسی تعلیم یافتہ، کسی عام طبقے کے ایماندار کو، کسی سفید پوش اور کسی اپنے جیسے کو کامیاب نہیں ہونے دینا۔ ہم نے چن کر رسہ گیر، بھتہ خور، چوروں، ڈاکوؤں، جعلی ڈگری والوں کو کامیاب کرانا ہے۔ اگر ہم انہیں کامیاب نہیں کرائیں گے تو خود کو تباہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوں گے؟ خودکشی کا اپنا مزا ہے اور یہ مزا ہم سے زیادہ کون جانتا ہے۔ ہم تو اہل کراچی کے لئے دعا بھی نہیں کرسکتے کہ ہماری دعائیں اثر کھو چکیں۔ ہمارے لفظ تاثیر سے محروم ہوچکے۔ ہم کھوکھلے معاشرے کے کھوکھلے لوگ ہیں جن کی قسمت میں اندھی گولیاں، کارخانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں اجتماعی جل مرنے اور سڑکوں پر ان دیکھی موت کے انتظار کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ بے چارگی سی بے چارگی ہے۔ بے بسی سی بے بسی ہے۔