افغانستان کی ہائی پیس کونسل کا ایک وفد مرحوم پروفیسر برہان الدین کے بیٹے صلاح الدین ربانی کی سربراہی میں اسلام آباد آیا ہے، اس وفد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں کوئی واضح موقف اختیار کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ طالبان کو پاکستان کی مدد اور تعاون سے مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔ اس وفد نے اپنے قیام کے دوران صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے تاکہ افغانستان میں دیرپا امن کا قیام ممکن بنایا جاسکے۔ پاکستان نے اس وفد کا خیرمقدم کیاہے اور وفد کے سربراہ کو یقین دلایاہے کہ پاکستان، افغانستان سے زیادہ اس خطے میں امن کا خواہشمند ہے جبکہ قیام امن کے سلسلے میں اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کے عوام اور فوج نے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت بھی حالات جنگ میں ہے اور ایسے عناصر سے نبردآزما ہے جو بیرونی طاقتوں کی شہ پر پاکستان کے اندر دہشت گردی کررہے ہیں جبکہ پاکستان کی معیشت کو زبردست نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔کیا افغانستان کی حکومت،اس کی ہائی پیس کونسل واقعی افغانستان میں امن کے قیام میں سنجیدہ ہے؟ معروضی حالات سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے کہ افغانستان کی حکومت نہ تو اپنے ملک میں امن چاہتی ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مخلص ہے بلکہ وہ بھارت اور دیگر مغربی طاقتوں کے ساتھ ملکر اس خطے میں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں سراسر نقصان پاکستان کو ہو اور اس وقت بھی ہورہا ہے (پاکستان کے خلاف اس حکمت عملی میں اسرائیل بھی شامل ہے) افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے دوسرے دورہٴ بھارت کا مقصد بظاہر بھارت کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینا ہے لیکن بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حامد کرزئی امریکہ کی ایما، مشورے اور اشتراک کے تحت بھارت کو افغانستان میں ایک اہم رول سونپنا چاہتے ہیں جس میں بھارتی فوج کی محدود تعداد میں افغانستان میں آمد کے علاوہ افغانستان کی نیشنل آرمی کی تربیت بھی شامل ہے۔ اس صورت میں پاکستان کیونکر افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرسکتا ہے جبکہ بھارت افغانستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے۔ دراصل امریکی صدر اوباما کی افغانستان کے حوالے سے بھارت نواز پالیسی کی وجہ سے افغانستان میں قیام امن کی تمام تر کوششیں نقش برآب ثابت ہورہی ہیں جبکہ امریکہ اس خطے میں حالات کی خرابی اوردہشت گردی کے ضمن میں پاکستان کو موردالزام ٹھہرارہا ہے۔ اس پروپیگنڈے کو بھارتی اخبارات اور امریکی اخبارات تقویت پہنچارہے ہیں چنانچہ پاکستان کے خلاف مسلسل الزام تراشیوں کی وجہ سے افغانستان میں نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان ان حالات میں کوئی واضح رول ادا کرسکتا ہے۔ مزید برآں امریکہ پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھ کر پاکستان کو مجبور کررہا ہے کہ وہ اپنی کوششوں سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے تاکہ 2014ء میں امریکہ کے چلے جانے کے بعد افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوسکے جس کی اولین ذمہ داری افغانستان میں امن کا قیام اور عوام کی ترقی سے وابستہ ہو لیکن امریکہ کی بھارت نواز پالیسی کے نفاذ میں پاکستان کی کیا حکمت عملی ہوسکتی ہے؟ امریکہ نے پہلے بھی طالبان کے ساتھ قطر اور جرمنی میں مذاکرات کئے جس میں پاکستان کوجان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا تھا تاہم وہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے چنانچہ اب ایک بار پھر ہائی پیس کونسل کے ذریعے افغانستان میں طالبان کی قابض فوجوں کے خلاف جنگ کو روکنے کے سلسلے میں پاکستان کی خدمات حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں کردار اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب بھارت کو واضح طور پر یہ اشارہ دیا جائے کہ وہ پاکستان کے اندرافغانستان کی ملی بھگت سے ہونے والی دہشت گردی کو ازخود روکے ورنہ بصورت دیگر حالات سنبھلنے کے بجائے بگڑتے چلے جائیں گے۔
دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ قندھار میں بیٹھ کر علیحدگی پسندوں کو تربیت دے رہی ہے، روپیہ پیسہ بھی بانٹ رہی ہے، انہیں مہلک ہتھیار بھی دیئے جارہے ہیں۔ بلوچستان میں معصوم افراد کو جس طرح موٹر سائیکل سوار قتل کررہے ہیں (خصوصیت کے ساتھ ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو) تو اس صورت حال کے پیش نظر پاکستان کس طرح افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اور کس طرح طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے؟
امریکہ بھی اس خطے میں قیام امن کے سلسلے میں مخلص نظر نہیں آرہا، وہ پاکستان سے ایسے کام لینا چاہتا ہے جن کی وجہ سے اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہو۔ پاکستان کی افغانستان میں قیام امن سے متعلق ایک واضح حکمت عملی موجود ہے جس پر اگر خلوص دل سے عمل پیرا ہوا جائے تو افغانستان میں امن بھی قائم ہوسکتا ہے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بھی لایا جاسکتا ہے۔نیز پاکستان کے خلاف امریکہ کی سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھنے کے باوجود پاکستان نے ہائی پیس کونسل کی پاکستان میں موجودگی کے دوران کچھ طالبان کو جیلوں سے رہا کیا ہے تاکہ وہ افغانستان جا کر اپنے ساتھیوں سے ملکر افغانستان میں حالات کو امن کے حق میں استوار کرسکیں۔ پاکستان کا یہ طرز عمل اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ وہ اس خطے میں امن کیلئے کی جانے والی کوششوں میں اپنا واضح کردار ادا کررہا ہے لیکن اصل مسئلہ وہی ہے کہ کیا امریکہ کی افغانستان میں بھارت نواز اور بھارت جھکاؤ پالیسی سے امن قائم ہوسکتا ہے؟ اور کیا پاکستان بھارت کی افغانستان میں موجودگی اور اس سے متعلق پالیسیوں میں اس کی مدد کرسکتا ہے؟ میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔