رکن قومی اسمبلی کا حلف آئین کاآرٹیکل65
میں………………… صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا۔ جب مجھے بحیثیت رکن قومی اسمبلی (سینٹ) کام کرنے کے لئے کہا جائے گا،میں اپنے فرائض منصبی اور کارہائے منصبی ایمان داری،اپنی انتہائی صلاحیت وفاداری کے ساتھ،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے اسمبلی کے قواعد کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت،استحکام اور خوشحالی کی خاطر انجام دوں گا۔میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔(اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔(آمین)
پاکستانی سیاسی تاریخ کے یہ دن ناقابل فراموش ہیں کہ جب دوسری مرتبہ اقتدارایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل کیا جا رہا ہے،یوںہم جمہوری سفر پر رواں دواں ہیں۔ آج پاکستان کی15ویں قومی اسمبلی اپنے سفر آغاز کر رہی ہے اور 25؍جولائی کے ہونے والے قومی انتخابات میں کامیاب اراکین حلف لے رہے ہیں۔ ملک بھر ایک امید کی کرن پھوٹتی نظر آتی ہے کہ ایوان میں ان کے نمائندے ان کے مسائل کے حل کے لئے اپنی تمام تر کاوشیں بروئے کا ر لائیں گے۔انہوں نے جس تبدیلی کی امید کا ووٹ دیا ہے کیا یہ ایوان ان امیدوں کو پورا کرے گا یہ تو وقت کا سکندر بتائے گا۔تاہم نئی قومی اسمبلی سے یہ توقع ہے کہ وہ آئینی ارتقا اور قانون سازی کے ضمن میں نہ صرف سابقہ اسمبلی کی پیروی کرے گی بلکہ اس سے بہتر کام انجام دے گی۔ہم اس سفر پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
پارلیمان بنیادی طور پر فرانسیسی اصطلاح parler ہے جس کا مطلب بولنے یا بحث کو کہتے ہیں۔ لہذا Parliament بولنے یا بحث کے عمل کو کہا جاتا ہے اور پارلیمان کی اصطلاح وہی استعمال کی جاتی ہے جہاں کسی بحث و مباحثہ کے لئے اجلاس بلایا جائے۔جدید معاشرے میں ریاستی امور کے متعلق گفتگو کے اجلاس کو پارلیمنٹ کہتے ہیں۔تاریخ میں کسی بھی پہلی پارلیمان کا وجود1236میں برطانیہ میں آیا۔اس سے قبل ایسی کسی باڈی کو کونسل کہا جاتا تھا۔پاکستان میں پارلیمنٹ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ19ویں صدی کے وسط سے بھارت کے مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک علیحدہ وطن کے لئے جدوجہد شروع کر دی تھی۔جب برطانوی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بھارت کے ہندو اور مسلمان دو الگ الگ اور مختلف اقوام ہیں ،ان کی سماجی و ثقافتی پہچان جد اگانہ ہے تو ان کے پاس بھارت کے مسلمانوں کا مطالبہ قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔تین جون1947کو بھارت میں آخری برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے برصغیر کے تمام رہنماؤں کی کانفرنس بلائی اور انہیں منتقلی اقتدار کے حکومتی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا۔اس وقت گزٹ آف انڈیا میں ایک نوٹی فی کیشن جاری کیا گیا جسے 26جولائی 1947میں شائع کیا گیا جس کے تحت پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی 69ارکان( بشمول خواتین) کے ساتھ حتمی شکل دی گئی۔ ارکان کی تعداد کو بعد میں 79تک بڑھا دیا گیا۔برصغیر کا آئین برطانوی دور میں برطانوی پارلیمنٹ وضع کرتی تھی۔مملکت پاکستان 1947 کے آزادی ایکٹ کے تحت قائم کی گئی ،اسی ایکٹ کے تحت اسمبلیاں اور قانون ساز ادارے وجود میں آئے، ان اداروں کو تمام اختیارات استعمال کرنے کی اجازت کے ساتھ نیا آئین بنانے کا بھی اختیار تھا،آئین سے قبل تمام امور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935میں ضروری تبدیلیوں کے ساتھ چلائے گئے۔
دس اگست 1947کو کراچی میں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس سندھ اسمبلی کی عمارت میں منعقد ہوا،یہ اجلاس پاکستان کے نامزد وزیر قانون مسٹر جو گندر ناتھ منڈل کی صدارت میں ہوا۔11اگست1947کو قائد اعظم محمد علی جناح کو متفقہ طور پر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا صدر منتخب کرلیا گیا اور باضابطہ قومی پرچم کی منظوری دی گئی۔12 اگست 1947 کو ایک قرارداد کے تحت محمد علی جناح کوباضابطہ سرکاری خطاب ’’قائد اعظم محمد علی جناح" سے نوازا گیا۔ اسی دن ایک خصوصی کمیٹی ’’پاکستان کے شہریوں اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق‘‘قائم کی گئی۔14اگست کو اقتدار کی منتقلی ہوئی ، انڈیا کے گورنر جنرل لارڈ ماوٓنٹ بیٹن نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کیا، اس کے جواب میںقائد اعظم نے بھی خطاب کیا۔15اگست کو چیف جسٹس میاں صاحب عبد الرشید نے قائد اعظم سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف لیا ،اس منصب پر قائد اعظم گیارہ ستمبر1948 تک اپنی آخری سانسوں تک فائز رہے۔دستور ساز اسمبلی کے سامنے پہلا کام آئین بنانا تھا۔سات مارچ1949کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد متعارف کرائی۔جسے12مارچ1947کو آئین ساز اسمبلی کی طرف سے منظور کر لیا گیا۔ اسی دن 24 اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی ذمہ داری قرارداد مقاصد کی بنیاد پرآئین کا ڈرافٹ تیار کرنا تھا۔16اکتوبر1951کو نواب زادہ لیاقت علی خان کا قتل ہو گیا اور17اکتوبر1951کو خواجہ ناظم الدین نے وزیر اعظم کا حلف لیا۔1954میںآئین کا حتمی ڈرافٹ تیار کر لیا گیا۔ اس وقت محمد علی بوگرا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہو گئے۔اس سے پہلے کہ مسودہ منطوری کے لئے ایوان کے سامنے پیش کیا جاتا ،24اکتوبر1954کو گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی تحلیل کردی۔تاہم وزیر اعظم کو فارغ نہیں کیا گیا بلکہ انہیں نئی کابینہ کے ساتھ نئے انتخابات تک کام کرنے کا کہا گیا۔ اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیااور کیس جیت لیا۔حکومت واپس آگئی اور کیس وفاقی عدالت میں گیا جہاں اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں فیصلہ دیا اور مولوی تمیز الدین کیس ہار گئے۔
دوسری دستور ساز اسمبلی گورنر جنرل کے حکم پر 28مئی 1955میں قائم کی گئی۔اس اسمبلی کا الیکٹرول کالج متعلقہ صوبوں کی اسمبلیاں ہی تھیں۔یہ اسمبلی تین سو اراکین پر مشتمل تھی۔ان میں سے نصف تعداد مشرقی اور نصف مغربی پاکستان سے لی گئی۔اسی اسمبلی نے ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا۔اسی اسمبلی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس نے1956میں ملک کو پہلا آئین دیا۔9جنوری1956کو اس کا ڈرافٹ اسمبلی میں پیش کیا گیا، اور29فروری کو اسے منظور کر لیا گیا۔ دو مارچ کو گورنر جنرل نے دستخط کردیئے۔23مارچ 1956سے یہ آئین ملک بھر میں نافذ کر دیا گیا۔ اس آئین کے تحت پاکستان اسلامی جمہوریہ بنا۔پانچ مارچ 1956میں میجر جنرل سکندر مرزا پاکستان کے پہلے منتخب صدر بن گئے۔1956کا آئین پارلیمانی ہونے کی وجہ سے تمام اختیارات وزیراعظم کے پاس چلے گئے۔ صدر ریاست کے سربراہ اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام ارکان کی طرف سے صدر کا انتخاب کیا جاتا تھا اور ان کے عہدے کی مدت 5سال تھی۔1956 کے آئین کے تحت پارلیمنٹ یک ایوانی تھی۔ قانون سازی کے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس تھے۔قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد تین سو تھی۔
1956ء کے آئین کے خالق چوہدری محمد علی کابینہ سمیت گھر بھیج دیئے گئے۔ گورنر جنرل کے اقدام کو پہلے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا جہاں گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دیا گیا، مگر سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت غلام محمد کے اقدام کو قانونی اور عدالتی تحفظ دے دیا۔ لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا لگا کر اقتدار جنرل ایوب خان کے حوالے کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد جنرل ایوب خان آئین سازی کیلئے چیف جسٹس محمد شہاب الدین کی سربراہی میں 17فروری 1960ء کو ایک کمیشن قائم کیاجس کے 10 ارکان تھے جو دونوں صوبوں مشرقی اور مغربی پاکستان سے لئے گئے۔ اس میں آئینی ماہرین کی بجائے ریٹائرڈ ججوں، قانون دانوں، صنعتکاروں اور جاگیرداروں کو شامل کیا گیا۔ 6 مئی 1961ء کو کمیشن رپورٹ صدر کو پیش کر دی گئی۔ یہ آئین نہ تو کسی اسمبلی میں پیش ہوا،نہ اس پر بحث ہوئی ۔1956ء کا اصئین صدارتی طرز جب کہ یہ وحدانی بنیادوں پر استوار تھا۔ آئین میں صدر مملکت کیلئے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ لازمی مسلمان ہو اور ان کی عمر 35 سال سے کم نہ ہو۔ قومی اسمبلی اور صدر مملکت کا انتخاب بنیادی جمہوریتوں کے 80 ہزار ارکان کے ذریعے کیا جانا تھا۔ 1960ء میں ملک میں محترمہ فاطمہ جناح کی سرکردگی میں ایک نہایت طاقتور حزب اختلاف قائم ہو چکی تھی۔ ایوب خان نے آئین کی رو سے صدر مملکت کے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ان کے مد مقابل صدارتی امیدوار تھیں۔ ایوب خان نے 80 ہزار بی ڈی ممبران کی مدد سے ریکارڈ دھاندلی کے ذریعے مادر وطن محترمہ فاطمہ علی جناح کو جعلی شکست سے دوچار کر کے منصب صدارت پر آمرانہ قبضہ جما لیا۔1962ء کے آئین کے تحت صدر مملکت کے منصب کی مدت پانچ سال طے کی گئی تھی۔ صدر مملکت ریاست کا چیف ایگزیکٹیو تھا۔ گورنر اور وزراء کا تقرر براہ راست صدر مملکت کا صوابدیدی اختیار تھا۔ اس ا ئین میں صدر مملکت کو کسی بھی قسم کا آرڈی ننس جاری کرنے اور اسمبلی کے منظور کردہ قوانین کو ویٹو کے ذریعے مسترد کرنے کا اختیار تھا۔ صدر مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ آئین میں صدر کے مواخذے کی ایک مضحکہ خیز شق بھی رکھی گئی تھی۔ اس شق کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک تہائی ارکان اپنے دستخطوں سے مواخذے کی تحریک لا سکتے تھے، مگر صدر کے مواخذے کیلئے یہ ضروری تھا کہ قومی اسمبلی کے تین چوتھائی ارکان صدر کے خلاف اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔ مواخذے کے قانون میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ اگر صدر مملکت مواخذے کی تحریک پر نصف ارکان کی حمایت نہیں کرتے تو تحریک پیش کرنے والے ایک تہائی ارکان ازخود اپنی نشستوں سے محروم ہو جائیں گے۔1962ء کے آئین میں ترمیم کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ اس ترمیم کی منظوری ایوان کی دو تہائی اکثریت دے گی، تاہم اس ترمیم کی منظوری صدر مملکت کے دستخطوں سے مشروط ہو گی یعنی اگر صدر مملکت مجوزہ ترمیم پر دستخط نہیں کرتے تو وہ ترمیم ا?ئین کا حصہ نہیں بن سکے گی۔آئین کے تحت صدر مملکت کے فوت ہونے، مستعفیٰ ہونے اور فاتر العقل ہونے کی صورت میں صدر کا منصب اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کیا جانا تھا مگر 1969ء میں جب ایوب خان منصب صدارت چھوڑ رہے تھے تو انہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو نظر انداز کر کے اقتدار اسپیکر کی بجائے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ یوں 1962ء کا آئین اور ایوب خان ایک ساتھ ہی رخصت ہوئے۔
ملک میں اس وقت 1973ء کا آئین نافذ ہے۔ یہ ایک وفاقی، پارلیمانی، اسلامی آئین ہے۔ 250 آرٹیکلز پر مشتمل ہے جو وفاق، وفاقی اکائیوں اور وفاق کے زیر اہتمام علاقوں کی سلامتی اور خود مختاری کی ضمانت ہے۔ 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کو فوجی حکمرانوں نے اقتدار اس وقت منتقل کیا جب ملک دولخت ہو چکا تھا۔ اس وقت ملک میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا اور لیگل فریم ورک ا?رڈر موجود تھا۔ ملک میں کوئی آئینی انتظام نہ ہونے کے سبب ایک سویلین سیاسی رہنما کو سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالنا پڑا۔ مگر چار ماہ کے اندر ایک عبوری آئین نافذ کر کے مارشل لا سے جان چھڑائی گئی۔ اپریل 1972ء سے اگست 1973ء تک نئے آئین کی تدوین کا کام ہوتا رہا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل ایک پارلیمانی آئینی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی نمائندے شامل تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو، عبدالحفیظ پیر زادہ، نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، جماعت اسلامی کی جانب سے پروفیسر غفور احمد، آزاد پارلیمانی گروپ کی طرف سے سردار شیر باز خان مزاری، پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ کی جانب سے خان عبدالقیوم خان، کونسل مسلم لیگ کی طرف سے سردار شوکت حیات، جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے مولانا مفتی محمود، جمعیت علمائے پاکستان کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی اور دیگر پارلیمانی رہنما اس کمیٹی میں شامل تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک جامع آئین تھا۔ جس کے مطابق ایگزیکٹیو برانچ صدر مملکت، وزیراعظم اور ان کی کابینہ، پارلیمانی برانچ میں قومی اسمبلی اور سینیٹ اور عدلیہ کی برانچ میں ملک کی اعلیٰ عدالتیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس شامل ہیں۔ 1973ء کے آئین میں بنیادی حقوق کا چارٹر شہریوں کو کسی صنفی امتیاز کے بغیر مساوی مواقع فراہم کرتا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے آٹھویں اور جنرل پرویز مشرف17 ویں ترامیم کے ذریعے آئین کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مشرف نے اگست2002کو قانونی ڈھانچے کا حکم ’ایل ایف او‘ جاری کیا، جس کی روسے آئین میں ترمیم کی گئی،عام انتخابات2002 کے تقریباً چودہ ماہ بعد24دسمبر2003کو حکومتی جماعت مسلم لیگ ق اور اپوزیشن متحدہ مجلس عمل کے درمیان آئینی ترمیم سے متعلق معاہدے پر دستخط ہوئے اس کی روشنی میں پارلیمنٹ میں سترہواں ترمیمی ایکٹ دوتہائی اکثریت سے منظور کیا گیا،اس ترمیم کامقصد ارکان اسمبلی کے ذریعے صدر مملکت کے عہدے کی پانچ سال کیلئے توثیق کرنا تھا،ترمیم کے ذریعے فوجی دور کے تمام صدارتی احکامات،آرڈیننس،چیف ایگزیکٹو کے فرامین،اور دستور میں جو ترامیم کی گئی انہیں قانونی تحفط فراہم کیا گیا۔ ووٹر کی عمر 21سال سے کم کرکے18سال کردی گئی۔قومی اسمبلی کی نشستیں237سے بڑھا کر342کردی گئیں۔ جن میں خواتین کیلئے60اور اقلیتوں کیلئے10نشستیں شامل ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی83سے بڑھا کر124، پنجاب کی 248سے بڑھا کر371،سندھ کی109سے بڑا کر168 اور بلوچستان کی43سے بڑھا کر 65کردی گئیں۔ سینیٹ کی نشستیں87سے بڑھا کر100کردی گئیں،جس میں خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی17،17نشستیں شامل ہیں۔2017کی نئی مردم شماری کے بعد قومی اسمبلی کی کل نشستیں تو 272ہی رہیں لیکن مجموعی طور پر پنجاب کی 9نشستیں کم ہوکر 141رہ گئیںجبکہ بلوچستان کی بڑھ کر 16اور اسلام آباد کی 3ہوگئیں، فاٹا کی 4نشستوں میں اضافہ ہوا اور 8سے بڑھ کر 12ہوگئیں تاہم بعدازاں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے صوبے سے قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 51ہوگئیں، سندھ کی 61نشستیں برقرار ہیں۔ 18 ویں ترمیم نے آئین کو بڑی حد تک وفاقی، پارلیمانی اور اسلامی اصولوں پر استوار کر دیا ہے۔اس ترمیم میں پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے صدارتی اختیار کو ختم کیا گیا، اس کے ساتھ فوجی ادوار میں آئین کے ساتھ کی گئی کئی ترامیم کو ریورس کیا گیا اور1973کے آئین کو اس کی اصلی شکل میں واپس لانے کی سعی کی گئی۔ تاہم یاد رہے کہ 1973کے آئین میں اب تک25ترامیم کی جاچکی ہیں۔ آخری25ویں ترمیم فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کے متعلق تھی۔
قومی اسمبلی کا سفر
٭پہلی دستور ساز اسمبلی کا دورانیہ10اگست1947سے24اکتوبر1954تک رہا،جس کے اسپیکر قائد اعظم اور مولوی تمیز الدین تھے، اس اسمبلی کو گورنر جنرل نے آئین کی تشکیل میں ناکامی کے الزام میں تحلیل کردیا۔
٭دوسری دستور ساز اسمبلی کا عرصہ28مئی 1955سے سات اکتوبر1958تک تھا، اس کے اسپیکر عبدالوہاب تھے، صدر کی طرف سے مارشل لاء کے نفاذ سے اسے تحلیل کردیا گیا۔
٭تیسری اسمبلی کی مدت 8جون 1962سے12جون1965تک رہی۔اس کے اسپیکرز میںمولوی تمیز الدین خان اور چوہدری فضل القادر تھے ،صدر نے نئے انتخابات کے انعقاد کیلئے اس کو تحلیل کردیا۔
٭چوتھی اسمبلی کا عرصہ12جون1965سے 25مارچ1969 تک رہا جس کے اسپیکر عبدالجبار خان تھے۔اس اسمبلی کو کمانڈر انچیف ا?ف ا?رمی کی طرف سے مارشل لاء نافذ کر کے تحلیل کردیا گیا۔
٭پانچویں اسمبلی 14اپریل1972سے 10جنوری1977تک قائم رہی جن کے اسپیکرز ذوالفقار علی بھٹو ،فضل الہی چوہدری اور صاحبزادہ فاروق علی تھے۔ اس اسمبلی کو وزیر اعظم کی طرف سے نئے الیکشن کے انعقاد کی تجویز پر تحلیل کردیا گیا۔
٭چھٹی اسمبلی26مارچ1977سے5جولائی 1977تک رہی اس کے اسپیکر معراج خالد تھے،اسے چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف مارشل لاء نافذ کرکے تحلیل کردیا گیا۔
٭ساتویں اسمبلی20مارچ1985سے29مئی1988تک قائم رہی جس کے اسپیکر سید فخر امام اور حامد ناصر چٹھہ تھے۔ صدر نے بدعنوانی کے الزامات پر اسمبلی تحلیل کردی۔
٭۱ٓٹھویں اسمبلی30نومبر1988سے6اگست1990تک قائم رہی۔اس کے اسپیکر معراج خالد تھے،اس اسمبلی کو بھی کرپشن کے الزامات پر صدر نے تحلیل کردیا۔
٭نویں اسمبلی کا عرصہ3نومبر1990سے17جولائی 1993تک قائم رہا۔اس اسمبلی کے اسپیکرگوہر ایوب خان تھے۔اس اسمبلی کو صدر نے کرپشن کے الزامات پر تحلیل کردیا جسے سپریم کورٹ نے بحال کردیا، تاہم نئے انتخابات کے انعقاد پر اسے تحلیل کردیا گیا۔
٭دسویں اسمبلی15اکتوبر1993سے5نومبر1996تک رہی اس کے اسپیکر سید یوسف رضا گیلانی تھے،اس اسمبلی کو کرپشن کے الزامات پر صدر نے تحلیل کردیا۔
٭گیارہویں اسمبلی15فروری 1997سے12اکتوبر1999 تک قائم رہی۔ اس کے اسپیکر الہی بخش سومرو تھے، چیف آف آرمی اسٹاف نے حکومت پر کنٹرول کرکے اس اسمبلی کو معطل کردیا۔
٭بارہویں اسمبلی 16نومبر2002سے15نومبر2007تک قائم رہی اس کے اسپیکر چوہدری امیر حسین تھے۔یہ پاکستانی تاریخ کی پہلی اسمبلی تھی جس نے اپنی مدت پوری کی۔
٭تیرہویں اسمبلی17مارچ2008سے16مارچ2013قائم رہی۔اس کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا تھی، اس نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی۔
٭14 ویں اسمبلی گیارہ مئی2013کو معرض وجود میں آئی اس اسمبلی کے پہلے اسپیکر ایاز صادق تین جون2013سے 22اگست 2015تک رہے،اس بعد مرتضیٰ جاوید عباسی مختصر مدت کیلئے اسپیکر رہے جن کا عرصہ 22اگست2015سے 9نومبر2015 رہا۔اس کے بعد ایاز صادق دوبارہ اسپیکر منتخب ہوئے جونومبر2015سے تا حال تھے،اس اسمبلی نے بھی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی۔
٭15ویں قومی اسمبلی 25جولائی2018کے انتخابات کے نتیجے میں سامنے آئی جس کا پہلا اجلاس ہونے جا رہا ہے۔
قومی اسمبلی کے اختیارات
1973ء کے آئین کے تحت پاکستان کے پارلیمینٹ کو وسیع اختیارات ملے ہوئے ہیں۔ یہ ایک اعلیٰ قانون ساز ادارہ ہے اور اسے انتظامیہ پر پورا احتساب حاصل ہے۔ مکمل طور پر پارلیمینٹ کو اس لئے بھی بالادستی حاصل نہیں کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں آئین کی بالادستی کا اصول ہے جو وفاقی آئین ہے یہ حکومت کے تمام اختیارات کا تعین کرتا ہے۔ پارلیمنٹ فقط وہ اختیارات استعمال کرے گی جو اسے آئین نے دے رکھے ہوں گے۔ پاکستان میں آئین کی بالادستی کی مخالفت اعلیٰ عدالتیں کرتی ہیں۔
قانون سازی
ان تمام امور کے سلسلے میں پارلیمینٹ قانون سازی کر سکتا ہے جو وفاقی فہرست میں درج ہیں اور متعلقہ فہرست میں تحریر ہیں جبکہ متعلقہ امور پر صوبائی اسمبلیاں بھی قانون سازی کر سکتی ہیں پھر بھی متعلقہ امور کے سلسلے میں پارلیمینٹ کو اعلیٰ حیثیت دی گئی ہے۔ ان کو امور سے متعلق اگر دونوں مجالس قانون ساز نے کوئی قانون بنا رکھا ہو تو متصادم صورت میں وفاقی قانون کو بحال رکھا جاتا ہے اور صوبائی قانون کالعدم تصور کیا جاتا ہے۔
1973 کے آئین کے تحت پاکستان میں وفاقی نظام اس طرح نافذ ہے کہ پارلیمینٹ کو صوبائی اسمبلیوں کے مقابلے میں کافی زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ مثال کے طور پر پارلیمینٹ ایک فہرست میں شامل شدہ امور پر کلی طور پر قانون سازی کر سکتی ہیں مگر صوبائی اسمبلیوں کے دائرہ اختیار میں کوئی بھی ایسی فہرست میں موجود نہ ہے جس پر مکمل قانون سازی کر سکتی ہوں۔
وہ تمام علاقے جو کسی صوبے کی علاقائی حدود میں شامل نہیں ہیں ان کے لئے پارلیمینٹ قانون سازی کر سکتی ہے اس میں وفاقی دارالحکومت بھی شامل ہے اگر صوبائی اسمبلی درخواست کرے تو بھی پارلیمینٹ خالص صوبائی امور پر قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگر صوبوں میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان ہو جائے تو اس وقت پارلیمینٹ کے قانون سازی کے اختیارات میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے اور پارلیمینٹ خالصتاً صوبائی امور پر بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔ ہنگامی حالت ختم ہونے کے چھ ماہ بعد وہ قانون کالعدم قرار پائے جس کو پارلیمینٹ نے ہنگامی حالت کے وران وضع کیا ہو اور عام حالات میں (غیر ہنگامی حالت میں) وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔
نجی ملکیت کی حدود: 1973ء کے آئین کی دفعہ 253 کے تحت نجی املاک کی حدود متعین کرنے کے سلسلے میں پارلیمینٹ قانون سازی کر سکے گی۔ علاوہ ازیں اس کو یہ حق بھی حاصل ہو گا کہ کسی بھی صنعت، تجارت، کسی پیشے یا ملازمت پر افراد کا حق مکمل طور پر جزوی طور پر ختم کر دے اور اس کی جگہ وفاقی حکومت یا حکومت کی زیرنگرانی کام کرنے والی کسی کارپوریشن کی متذکرہ معاملات پر اجارہ داری کو قائم کر دے۔
مروجہ قوانین کی ترمیم وتنسیخ
پارلیمینٹ کو مروجہ قوانین میں ترمیم وتنسیخ کا حق حاصل ہے لیکن شیڈول نمبر 6 میں شامل قوانین میں تبدیلی کرنے کے لئے پہلے صدر سے منظوری لینا ضروری ہے۔ اس آئین کی دفعہ 270 کے مطابق پارلیمینٹ وفاقی فہرست کے حصہ اول میں شامل امور کے سلسلے میں بیان کردہ طریق کار کے مطابق ایسے سب احکام، اعلانات، صدارتی فرامین، مارشل لا ضوابط، مارشل لا احکام اور دیگر وہ سب قوانین جن کا اجراء 25 مارچ 1949ء تا دسمبر 1971ء کے درمیان عرصہ میں ہوا ہو قانون کی شکل دینے کی مجاز ہے جو قوانین اس دفعہ کے تحت بنائے جائیں گے ان کو کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنا ناممکن ہو گا۔ مذکورہ بالا تمام احکامات وقوانین آئین کے آغاز کے بعد دو سال تک ایسی صورت میں نافذالعمل ہوں گے۔ جبکہ ان کو پارلیمینٹ نے قانونی شکل نہ دی ہو۔ پھر بھی یہ ضرور ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوان اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے بھی انہیں کالعدم کر سکتے ہیں۔
احتساب
پاکستان میں چونکہ 1973ء کے آئین کے تحت پارلیمانی نظام مروج ہے اس لئے یہاں کابینہ کی حیثیت سے ایک مجلس کی ہے۔ وزیراعظم اس کی کابینہ میں شامل تمام وزراء پارلیمینٹ کے ممبر ہوتے ہیں۔ پارلیمینٹ ان سب کومنتخب کرتی ہے اور ان کے لئے کسی نہ کسی ایوان کا رکن بننا ضروری ہوتا ہے۔ وزیراعظم ہو یا اس کی کابینہ کے دیگر وزراء ہوں وہ سب پارلیمینٹ کو ان سب امور کے سلسلے میں جوابدہ ہوتے ہیں جو صدر کے ایسے تمام اقدامات واحکام سے متعلق ہوں جن کو وزیراعظم یا کسی وزیر کے توثیقی دستخطوں سے جاری کیا گیا ہو ،وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کراکے قومی اسمبلی اسے معزول کرنے کی مجاز ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم اور دیگر وزراء صرف اس وقت تک ہی اپنے عہدوں پر بحال رہتے ہیں جب تک انہیں قومی اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل رہتی ہے، اس کے برعکس حالات میں انہیں مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ پارلیمینٹ ان طریقوں سے انتظامیہ پر احتساب بحال رکھ سکتی ہے۔
ترمیم کا اختیار
آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار پارلیمینٹ کو حاصل ہے۔ آئین کی دفعہ 239 کی رو سے ا?ئینی ترمیم سے متعلقہ مسودات کی ابتدا قومی اسمبلی میں ہو گی اور اگر قومی اسمبلی کے مسودہ کو دو تہائی ارکان کی اکثریت سے منظور کر لے تو اس کو سینیٹ میں منظوری کے لئے ارسال کر دیاجائے گا۔ سینیٹ سے بھی اگر منظور ہوجائے تو پھر صدر مملکت کے دستخط اس پر ہوں گے اور اس طرح سے اسے قانونی شکل مل جائے گی اور اس کے مطابق آئین میں ترمیم کردی جائے گی۔
انتخابی اختیارات
صدر مملکت کا انتخاب پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں کیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے سینیٹ اپنے چیئرمین کا انتخاب کرتا ہے اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کرتا ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی اپنا اسپیکر اور ڈپٹی چنتی ہے۔
ہنگامی حالات میں اختیارات
اگر ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجائے یا ملک کے کسی حصے کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے یا بیرونی جارحیت کا خطرہ ہو اور غیرملکی مداخلت کے اثار نظر آرہے ہوں۔ امن وامان برقرار رکھنا مشکل ہوجائے معاشی ابتری کا دور دورہ ہوجائے تو اس قسم کے حالات میں وفاقی حکومت ہنگامی حالات کا اعلان کر کے اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال میں لاتی ہے۔ ہنگامی حالت نافذ کرنے کیلئے پارلیمینٹ کی منظوری لینا ضروری ہوتا ہے اور پارلیمینٹ چھ ماہ کی منظوری دینے کی مجاز ہوتی ہے اگر پارلیمینٹ ہنگامی حالت کے نفاذ کی منظوری نہ دے تو دو مہینوں کے بعد از خود ہی حکومت کے ہنگامی حالات کالعدم ہو جاتے ہیں۔
وزیراعظم کی توثیق: اخراجات کے جدول کی توثیق وزیراعظم اپنے دستخطوں سے کرے گا اور یہ جدول ذیل اخراجات کی وضاحت کرے گی۔
-1 ایسا مطالبہ زر جس کو قومی اسمبلی نے منظور کیا ہو اور منظور کیا جانا مقصود ہو۔
-2وہ مختلف رقوم جو وفاقی مجموعی فنڈ سے واجب الادا ہوں مگر یہ رقوم ان رقوم سے زیادہ نہ ہوںگی جو قومی اسمبلی میں اس سے پہلے پیش کی جانے والی کیفیت میں ہوں۔
سالانہ بجٹ: وفاقی حکومت قومی اسمبلی میں مالی سال کے لئے آمدن وخرچ کا تخمینہ پیش کرے گی اسے سالانہ بجٹ کی کیفیت سے موسوم کیا جائے گا اس میں یہ باتیں واضح کی جائیں گی۔
1-وہ رقوم جو آئین کی رو سے وفاقی مجموعی فنڈ سے واجب الادا قرار دی گئی ہوں۔
2-اور وہ تمام جو دیگر اخراجات کے ضمن میں وفاقی مجموعی فنڈ سے ادا کرنے کے واسطے تجویز کی گئی ہوں۔
منظوری: یہ بات بھی آئین میں واضح کر دی گئی ہے کہ ایسا کوئی مالی مسودہ وفاقی حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر اسمبلی میں پیش نہیں کیا جا سکتا جس کا مقصد مجموعی فنڈ سے اخراجات کرنا ہوں یا اسٹیٹ بینک کے ڈھانچہ میں تبدیلی کرنا ہو یا پھر اس کے فرائض میں تبدیل وتغیر کرنا مقصود ہو۔
دیگر فرائض: یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جمہوری ملکوں میں مجالس قانون ساز کا ایک اہم اور بڑا فریضہ عوام کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا ہوتا ہے۔ ایوان کا جب اجلاس ہو رہا ہوتا ہے تو اس دوران عوامی نمائندے مختلف سوالات اور تنقید کے دوسرے طریقوں کے ذریعے انتظامیہ کی توجہ ایسے مسائل کی طرف مبذول کراتے ہیں جو مسائل عوام کے لئے تکلیف دہ ہوں۔ وزراء بھی عموماً رائے عامہ کا احترام کرتے ہیں اور لوگوں کی شکایات کے ازالہ کیلئے سعی کرتے ہیں۔ وزراء کی اجلاس میں موجودگی سے ہی انتظامیہ پر مؤثر کنٹرول ممکن ہوتا ہے۔ صدارتی نظام میں چونکہ انتظامیہ کی مجلس قانون ساز سے عدم موجودگی ہوتی ہے بدیں وجہ ان کا مؤثر محاسبہ ممکن نہیں رہتا۔ اس لئے 1973ء کے اصئین میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ پارلیمینٹ انتظامیہ پر کنٹرول رکھ سکے۔
کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمینٹ ایک بہترین سیاسی تربیت گاہ ہے اس میں قومی مسائل پر کھل کر وضاحت سے بحث وتمحیص ہو سکتی ہے۔ ایک اچھا پارلیمینٹ ایوان میں اچھی طرح سے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور وزارت کی تشکیل کے موقع پر ایسے باصلاحیت افراد کا حکومت میں شامل ہونے کا امکان موجود ہوتا ہے ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ جمہوریت کا کامیابی میں پارلیمینٹ کا کردار مرکزی نوعیت کا ہوتا ہے۔