خانوادۂ ابراہیم علیہ السّلام فاران کے بیابانوں میں
عرب کی بیابان وادیوں، لَق و دَق بے آب و گیا صحرائوں کو عبور کرتا، دو افراد اور ایک نومولود بچّے پر مشتمل مختصر سا قافلہ، کالے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے ٹیلے کے قریب پہنچا، جہاں ویرانے میں ایک بوڑھا صحرائی درخت نہ جانے کب سے اپنے مکینوں کے انتظار میں تنہا کھڑا تھا۔ اللہ کے عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر، حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ نے اس درخت کے مختصر سے سایے کو غنیمت جانا اور اپنی فرماں بردار، نیک، چہیتی اہلیہ کو معصوم لختِ جگر سمیت اس درخت کے سایے میں بٹھا دیا۔ زادِ راہ قریب رکھا اور خاموشی سے واپس جانے لگے۔ جاں نثار اہلیہ حیران و پریشان ہو کر شوہر کی جانب لپکیں اور گویا ہوئیں’’ اے ابراہیمؑ! اس ویرانے میں ہمیں چھوڑ کر، جہاں زندگی کا نام و نشان تک نہیں، کہاں جارہے ہیں؟‘‘ حضرت حاجرہؑ شوہر کے دامن کو پکڑ کر بار بار التجائی انداز میں سوال کرتی رہیں، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السّلام خاموش رہے۔ حضرت حاجرہؑ جانتی تھیں کہ پیغمبروں کا ہر عمل، اللہ کے حکم کے تابع ہوتا ہے، اس لیے فرمایا’’ اے اللہ کے نبیؐ! کیا یہ حکمِ الٰہی ہے؟‘‘ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔ یہ سُن کر حضرت حاجرہؑ کو اطمینان ہوگیا اور پُرعزم لہجے میں کہا’’ تو پھر مجھے یقینِ کامل ہے کہ اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا۔‘‘ اور پھر ارض و سما نے دیکھا کہ اللہ نے اپنی برگزیدہ بندی اور اُس کے معصوم گوشۂ جگر کے لیے نہ صرف زَم زَم کے چشمے کو جاری فرمایا، بلکہ اُس سنسان ویرانے میں دنیا کا سب سے عظیم اور مقدّس شہر، ’’مکّہ‘‘ آباد کر کے اُن کی اس قربانی کو رہتی دنیا تک کے لیے قربِ الٰہی کا ذریعہ بنادیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا خواب
13 سال کا طویل عرصہ پَلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ننّھا، کم زور اسماعیلؑ، مکّے کی پاکیزہ فضائوں، زَم زَم کے مقدّس پانی اور صبر و شُکر کی پیکر، عظیم ماں کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھتا ہوا ایک خُوب صورت، کڑیل نوجوان کے رُوپ میں اپنے 100سالہ بوڑھے باپ کا سہارا بننے کے لیے تیار تھا کہ ایک رات، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے لختِ جگر کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہے ہیں۔ صبح اٹھے، تو بڑے مضطرب اور پریشان تھے۔ دِل کو تسلّی دی کہ شاید یہ کوئی شیطانی وسوسہ ہو؟ دوسری رات پھر وہی خواب، وہی قربانی کا منظر… بیدار ہوئے، تو اضطرابی کیفیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ لیکن ،پھر خیال آیا کہ کہیں یہ حکمِ الٰہی تو نہیں؟ تیسری رات، جب پھر وہی قربانی کا منظر دیکھا، تو یقینِ کامل ہوگیا کہ یہ حکمِ الٰہی ہے اور ویسے بھی نبیوں کے خواب سچّے اور پیغامِ خداوندی ہی ہوتے ہیں۔ چناں چہ، بیٹے اسماعیلؑ کو خواب کی کیفیت سے آگاہ کیا۔ اللہ نے اس واقعے کا ذکر قرآنِ پاک میں یوں فرمایا ہے’’اے بیٹا! مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) مَیں تم کو ذبح کررہا ہوں۔ تو تمہارا کیا خیال ہے؟ (اطاعت شعار بیٹے نے سرِ تسلیمِ خَم کرتے ہوئے مؤدبانہ لہجے میں فرمایا) ابّا! جو آپ کو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے۔ اللہ نے چاہا، تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے، (سورۃ الصٰفّٰت، 102:37) ۔حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا یہ سعادت مندانہ جواب، دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے آدابِ فرزندگی کی ایک شان دار مثال ہے۔ اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو علّامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا ؎ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔
منیٰ کی جانب سفر اور شیطان کا ورغلانا
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیٹے کا جواب سُنا، تو اُنہیں سینے سے لگایا اور حضرت حاجرہؑ کے پاس لے آئے۔ فرمایا’’ اے حاجرہؑ! آج ہمارے نورِ نظر کو آپ اپنے ہاتھوں سے تیار کردیجیے۔‘‘ ممتا کے مقدّس، شیریں اور اَن مول جذبوں میں ڈوبی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نئی پوشاک پہنائی، آنکھوں میں سرمہ، سَر میں تیل لگایا اور خوش بُو میں رچا بسا کر باپ کے ساتھ باہر جانے کے لیے تیار کردیا۔ اس اثنا میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ایک تیز دھار چُھری کا بندوبست کرچکے تھے۔ بیٹے کو ساتھ لے کر مکّہ سے باہر منیٰ کی جانب چل دیے۔ شیطان نے باپ، بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن لی تھی۔ اُس نے جب صبر و استقامت اور اطاعتِ خداوندی کا یہ رُوح پرور منظر دیکھا، تو پریشان ہوگیا اور اُس نے باپ، بیٹے کو اس قربانی سے باز رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ چناں چہ، جمرہ عقبیٰ کے مقام پر راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ موجود فرشتے نے کہا’’ یہ شیطان ہے، اسے کنکریاں ماریں‘‘، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے’’ اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اُسے سات کنکریاں ماریں، جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ جمرہ وسطیٰ کے مقام پر پھر ورغلانے کے لیے آموجود ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے پھر اُسی طرح کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین میں دھنسا، لیکن ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ جمرہ اولیٰ کے مقام پر پھر موجود تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تیسری بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر کنکریاں ماریں اور وہ پھر زمین میں دھنس گیا۔ (اللہ تبارک وتعالیٰ کو ابراہیم خلیل اللہؑ کا شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل اس قدر پسند آیا کہ اُسے رہتی دنیا تک کے لیے حاجیوں کے واجبات میں شامل فرمادیا)۔
حضرت حاجرہؑ کو ورغلانے کی کوشش
شیطان اپنی ناکامی پر بڑا پریشان تھا۔ تینوں مرتبہ کی کنکریوں نے اُس کے جسم کو زخموں سے چُور کردیا تھا۔ اچانک اُسے ایک نئی چال سوجھی اور وہ عورت کا بھیس بدل کر بھاگم بھاگ حضرت حاجرہؑ کی خدمت میں پہنچ گیا اور بولا’’ اے اسماعیل( علیہ السّلام) کی ماں! تمہیں علم ہے کہ ابراہیمؑ تمہارے لختِ جگر کو کہاں لے گئے ہیں؟ حضرت حاجرہؑ نے فرمایا’’ ہاں، وہ باہر گئے ہیں، شاید کسی دوست سے ملنے گئے ہوں۔‘‘ عورت کے رُوپ میں شیطان نے سَر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا،’’ اللہ کی بندی! وہ تیرے بیٹے کو ذبح کرنے وادیٔ منیٰ لے گئے ہیں۔‘‘ حضرت حاجرہؑ نے حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شفیق اور مہربان باپ اپنے چہیتے اور اکلوتے بیٹے کو ذبح کردے؟‘‘ اس پر شیطان کے منہ سے بے ساختہ نکلا’’ یہ سب وہ اللہ کے حکم پر کررہے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر صبر و شُکر اور اطاعت و فرماں برداری کی پیکر، اللہ کی برگزیدہ بندی نے فرمایا’’ اگر یہ اللہ کا حکم ہے، تو ایک اسماعیلؑ کیا، اس کے حکم پر تو 100 اسماعیلؑ قربان ہیں۔‘‘
اللہ نے باپ ، بیٹے کی قربانی قبول فرمالی
شیطان نامُراد ہوکر واپس منیٰ کی جانب پلٹا، لیکن وہاں کا ایمان افروز منظر دیکھ کر اپنے سَر پر خاک ڈالنے اور چہرہ پیٹنے پر مجبور ہوگیا۔ وادیٔ منیٰ کے سیاہ پہاڑ، نیلے شفّاف آسمان پر روشن آگ برساتا سورج، فلک پر موجود تسبیح و تہلیل میں مصروف ملائیکہ، اللہ کی راہ میں اپنی متاعِ عزیز کی قربانی کا محیّر العقول منظر دیکھنے میں محو تھے۔ مکّہ سے آنے والی گرم ہوائیں بھی منیٰ کی فضائوں میں موجود عبادت و اطاعت، تسلیم و رضا اور صبر و شُکر کی ایک عظیم داستان رقم ہوتے دیکھ رہی تھیں۔ روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو لیٹنے کی ہدایت کی، تو حضرت اسماعیلؑ نے فرمایا،’’ ابّا حضور! مَیں پیشانی کے بَل لیٹتا ہوں تاکہ آپ کا چہرہ مجھے نظر نہ آئے اور آپؑ بھی اپنی آنکھوں پر پٹّی باندھ لیں تاکہ آپ ؑمجھے ذبح کررہے ہوں، تو شفقتِ پدری کے جذبے کا امرِالٰہی پر غالب آنے کا امکان نہ رہے۔‘‘ صبر و استقامت کے کوہِ گراں والد نے گوشۂ جگر کی بات پر عمل کیا اور جب اسماعیلؑ لیٹ گئے، تو تکمیلِ احکامِ خداوندی میں تیز دھار چُھری پوری قوّت کے ساتھ لختِ جگر کی گردن پر پھیر دی۔ باپ، بیٹے کی اس عظیم قربانی پر قدرتِ خداوندی جوش میں آئی اور اللہ کریم کے حکم سے ،حضرت جبرائیلؑ جنّت کے باغات میں پَلے، سفید رنگ کے خُوب صورت مینڈھے کو لے کر حاضر ہوئے۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ نے ذبح سے فارغ ہوکر آنکھوں سے پٹّی ہٹائی، تو حیرت زدہ رہ گئے۔ بیٹے کی جگہ ایک حَسین مینڈھا ذبح پڑا تھا، جب کہ اسماعیل ذبیح اللہؑ قریب کھڑے مُسکرا رہے تھے۔ غیب سے آواز آئی’’اے ابراہیمؑ! تم نے اپنا خواب سچّا کر دِکھایا۔ بے شک، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں‘‘، سورۃ الصٰفّٰت، (105:37)۔حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہؑ کے اس بے مثال جذبۂ ایثار، اطاعت و فرماں برداری، جرأت و استقامت، تسلیم و رضا اور صبر و شُکر پر مُہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ’’ اور ہم نے (اسماعیل کے) فدیے کو ایک عظیم قربانی بنایا۔‘‘اللہ ربّ العزّت کو اپنے دونوں برگزیدہ اور جلیل القدر بندوں کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اسے اطاعت، عبادت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے قیامت تک کے لیے جاری و ساری فرمایا۔ چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور ہم نے بعد میں آنے والوں کے لیے ابراہیمؑ کا ذکر (خیر باقی) چھوڑ دیا (سورۃ الصٰفّٰت، 108:37)۔
قربانی کا مقصد
قربانی کا مقصد محض جانوروں کا ذبیحہ، اُن کا خون بہانا اور گوشت تقسیم کرنا یا نمود و نمائش نہیں، بلکہ یہ رُوح کی پاکیزگی، دِلوں میں ایمان کی تازگی اور تجدیدِ عہد کا نام ہے کہ ہمارا ہر عمل بہ شمول جینا مرنا، حتیٰ کہ پوری زندگی اللہ کی رضا کے لیے وقف ہے اور یہ ہی درحقیقت ایمان کا تقاضا، بندگی کی حقیقی علامت اور سنّتِ ابراہیمی کی پیروی کا مقصد و منشا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ اللہ تک نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے‘‘، (سورۃ الحج 37:22)۔ اس آیت میں اللہ کریم نے بڑے واضح طور پر فرما دیا کہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہی قربانی کی حقیقی روح ہے۔
قربانی کے معنی اور مفہوم
قربانی، عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’ قرب‘‘ سے مشتق ہے اور جس کے معنیٰ، نزدیک یا قریب ہونے کے ہیں۔ قربانی سے مُراد، اللہ کے قرب کا حصول ہے، خواہ وہ ذبیحہ سے ہو یا صدقہ و خیرات سے، جب کہ عام طور پر قربانی کا لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ کئی جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔ سورۂ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔‘‘
تاریخِ انسانی میں قربانی کا تصوّر ہمیشہ سے رہا ہے اور کم و بیش تمام مذاہب میں قربانی کا تصوّر موجود ہے۔ دنیا میں سب سے پہلی قربانی، حضرت آدمؑ کے بیٹوں، ہابیل اور قابیل نے کی، جس کا تذکرہ قرآنِ کریم کی سورہ المائدہ میں اس طرح ہے’’ اور جب اُن دونوں نے قربانی کی، تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی‘‘ (27:5)۔ ہابیل نے اللہ کی رضا کی خاطر خُوب صُورت دنبے کی قربانی پیش کی، جب کہ قابیل نے بے دلی کے ساتھ، ناکارہ غلّے کا ڈھیر پیش کیا۔ ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلا ڈالا۔ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی یہ ہی علامت تھی۔اللہ نے ہر امّت پر قربانی مقرّر فرمائی اور اس پر عمل پیرا رہنے کا حکم دیا۔ چناں چہ سورۃ الحج میں ارشادِ باری ہے’’ہم نے ہر امّت کے لیے قربانی مقرّر کی ہے تاکہ وہ لوگ اللہ کا نام لیں، چوپائے جانوروں پر، جو اس نے اُنہیں دیے ہیں (34:22)۔
قربانی کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ مجھے یوم الاضحی (قربانی کے دن) کو عید کا حکم دیا گیا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس امّت کے لیے عید بنایا ہے (سنن ابودائود)۔حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے صحابہؓ نے عرض کیا’’ یا رسول اللہﷺ یہ قربانی کیا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’یہ تمہارے والد، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سنّت ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’ہمارے لیے اس میں کیا ثواب و اجر ہے؟‘‘آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے، ایک نیکی ہے۔‘‘صحابہؓ نے عرض کیا’’ اگر اون والا جانور ہو؟ (یعنی دنبہ ہو، جس کے بال بہت ہوتے ہیں)، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا’’ اس کے بھی ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے (مشکوٰۃ)۔ام المؤمنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ’’ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’یوم النّحر‘‘ (دسویں ذی الحجّہ) میں ابنِ آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ (قربانی کا ) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کُھروں کے ساتھ آئے گا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل ہی اللہ کے نزدیک مقامِ قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا، قربانی خوش دِلی سے کیا کرو‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،’’ جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے (ترمذی، ابنِ ماجہ)۔ حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے روایت ہے کہ نبیٔ مکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور آپؐ ہر سال قربانی کیا کرتے تھے (ترمذی)۔ ابنِ عبّاسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ جو مال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا، اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں (طبرانی)۔سیّدنا حَسن بن علی المرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا’’ جس نے خوش دِلی سے، طالبِ ثواب ہوکر قربانی کی، وہ اُس کے لیے آتشِ جہنّم سے حجاب (روک) ہوجائے گی(طبرانی)۔
قربانی کِن لوگوں پر واجب ہے
عیدالاضحیٰ کے موقعے پر ہر صاحبِ نصاب، عاقل، بالغ، آزاد اور مقیم مسلمان مَرد اور عورت پر جانور کی قربانی کرنا واجب ہے۔
کس جانور کی قربانی جائز ہے
قربانی کے جانور شرعاً مقرّر ہیں، جن میں اونٹ اونٹنی، گائے، بھینس، بیل، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، مینڈھا شامل ہیں۔ ان کے علاوہ، کسی اور جانور کی قربانی جائز نہیں، خواہ وہ کتنا ہی خُوب صورت، قیمتی اور کھانے میں لذیذ ہو۔حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ چار قسم کے جانور قربانی کے لیے درست نہیں۔ (1) لنگڑا جانور، جس کا لنگڑا پَن ظاہر ہو( 2) ایسا کانا جانور، جس کا کانا پَن ظاہر ہو 3) )ایسا بیمار جانور، جس کا مرض ظاہر ہو (4) ایسا دُبلا جانور، جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو(ترمذی، ابودائود)۔حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ قربانی کے جانور کی آنکھ، کان خُوب اچھی طرح دیکھ لیا کرو اور ایسے جانور کی قربانی نہ کرو، جس کا کان چِرا ہوا، کٹا ہوا یا سوراخ والا ہو یا اس کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں(ترمذی، ابنِ ماجہ)۔
قربانی کا وقت
10 ذی الحجّہ کی صبح سے 12 ذی الحجّہ کی شام تک قربانی کرنا جائز ہے۔ تاہم، قربانی کرنے کا سب سے افضل دن، دس ذی الحجّہ یعنی عید کا پہلا دن ہے، پھر دوسرا اور تیسرا دن۔
نمود و نمائش
دراصل قربانی کا عمل، اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کرنا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس افضل عمل کو بھی نمود و نمائش کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ قیمتی جانور کو ذاتی نمود و نمائش کے لیے خرید کر گھروں کے سامنے نمائش لگانا اور علاقے میں جلوس کی شکل میں گشت کروانا، کوئی اچھا عمل نہیں۔ یہ عمل غرور و تکبّر کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ اللہ کو عاجزی و انکساری پسند ہے۔ اسی طرح، قربانی کے گوشت کے تین حصّے کرنے چاہئیں۔ ایک غریب، غربا کے لیے، دوسرا رشتے داروں اور دوست احباب کے لیے اور تیسرا اپنے اہلِ خانہ کے لیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سنّتِ ابراہیمیؑ کی حقیقی رُوح، یعنی ایثار و قربانی، صبر و شُکر، قناعت و اطاعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔