• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانے وقتوں میں صابن کا ایک اشتہار چلا کرتا تھا: ہم تو جانیں سیدھی بات۔صابن ہو تو سات سو سات۔ اب پتہ نہیں کہ وہ سات سو سات صابن ہے بھی یا نہیں لیکن نئی حکومت کی نئی معاشی پالیسیوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمیں جو سیدھی بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی حکمران مناسب اور جائز ٹیکس اکٹھے نہیں کر سکتا وہ نہ تو عوام کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے لئے۔ ملک یا معاشرے میں جمہوریت ہو، شخصی نظام حکومت ہو یا مارشل لالگا ہوا ہو اس سیدھی سادی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ملک میں سیکولر یا مذہبی نظریے کا راج ہواس حقیقت سے گریز نہیں ہے کہ جب تک لوگوں سےٹیکس کی وصولی نہیں ہوتی تو نہ تو معاشرہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی معاشی انصاف قائم کیا جا سکتا ہے۔

’نئے پاکستان‘ کے بیانئے پر حکومت بنانے والے ابھی تک تو تمام معاشی برائیوں کی جڑ بد عنوانیوں کو قرار دیتے رہے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج کتنے درست یا غلط ہیں یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ کرپشن کے خلاف بیانیہ عوام میں بہت مقبول ہے۔ اسی بنائیے کو بنیاد بناتے ہوئے یہ دعوے کئے گئے ہیں کہ غیر قانونی طور پر جمع کی ہوئی پاکستانیوں کی بیرون ملک چھپائی ہوئی دولت کئی سو ارب ڈالر ہے اور اگر اس دولت کو ملک میں واپس لایا جا سکے تو پاکستان کے تمام معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔ لوٹ مار کی بیرون ملک چھپائی ہوئی دولت کا ذکر کئی چینلوں پر زیب داستان کے لئے چٹخارے دار ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو کسی کو حتمی طور پر مذکورہ دولت کے حجم کے بارے میں معلوم ہے اور نہ ہی کسی کے پاس اس کو واپس لانے کا فارمولا ہے۔ ویسے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوٹی ہوئی دولت کبھی واپس نہیں لائی جا سکے گی لیکن فرض کریں کہ اگر یہ الف لیلائی دولت واپس بھی ہو جائے تو کیا پاکستان کے بنیادی مسائل حل ہو جائیں گے؟ ویسے تو معاشی بد حالی کو کرپشن کے ساتھ نتھی کرنا ہی غلط ہے کیونکہ ہندوستان میں بھی کرپشن پاکستان سے کم نہیں ہے لیکن وہ دنیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔


آج کل ہر چینل پر معاشی ماہرین آنے والی حکومت کو مختلف مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ معاشیات کی اعلیٰ ڈگری اصل کرنے کے لئے ریاضی، الجبرا اور جیومیٹری کے کئی سو پیچ دار فارمولے حفظ کرنے پڑتے ہیں لیکن اس سادہ معاشی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کسی عالم کی ضرورت نہیں کہ اگر کسی ملک کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو وہ کنگال ہو جاتا ہے۔ اور سرمایہ داری نظام میں ملکوں کی معاشی آمدنی کا انحصار ٹیکسوں پر ہے۔ مزید برآں معاشی انصاف کا تعلق بھی اس بات پر ہے کہ کس طرح سے ، آبادی کے کن حلقوں سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال امریکہ ہے جہاں امیروں کو ٹیکس کٹوتی دینے کے بعد ملک نہ صرف کئی کھربوں ڈالر کا مقروض ہے بلکہ ملک کی زیادہ تر آبادی معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ کی چالیس فیصد آبادی کے پاس مشکل وقتوں کے لئے چار سو ڈالر نکالنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے الٹ یورپ میں ٹیکسوں کی شرح بہت بلند ہے لیکن ان کی نوعیت ایسی ہے کہ عام شہری کو صحت، تعلیم اور دوسری بہت سی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔


ہمارے بہت سے دوست اور کرم فرما یہ دلیل دیں گے کہ اگر عوام ٹیکس نہیں دے رہے تو حکمران کس طرح سے اللے تللے کر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ عوام سے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس غلط لوگوں سے وصول کیا جا رہا ہے:جن لوگوں کو ٹیکس دینا چاہئے وہ ٹیکس دیتے نہیں ہیں اور اس کے نتیجے میں حکمران سارے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتے ہوئے بلا واسطہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جن غریب لوگوں کو قومی دولت سے مختلف سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں ان کی بہت ساری آمدنی ٹیکسوں میں چلی جاتی ہے اور جن کو ٹیکس دینا چاہئے وہ کسی بھی طرح ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان پر انٹرنیشنل مونٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اس لئے مختلف ضروریات زندگی پر ٹیکس بڑھانے کی شرائط نافذ کرتا ہے کیونکہ پاکستانی حکمران یہی عندیہ دیتے ہیں کہ وہ کسی اور طرح سے ٹیکس وصول نہیں کر سکتے۔


پاکستان میں جب تک پروگریسو ٹیکسوں (زیادہ آمدنی والا زیادہ ٹیکس دے) کا نظام مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جاتا تب تک قابل قبول منصفانہ معاشی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ ہم قابل قبول منصفانہ نظام اس لئے کہہ رہے ہیں کہ یہ حقیقت تسلیم کئے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا کہ عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام کا کوئی متبادل نہیں ہے: سوشلزم کے ذریعے تقسیم دولت کا ماڈل کامیاب نہیں ہو سکا۔ اور اگر سرمایہ داری نظام کے نظریے کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ معاشرے میں معاشی اونچ نیچ سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس طرح کے سرمایہ داری معاشی نظام میں عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جو کہ پروگریسو ٹیکسوں کے نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مغربی یورپ کے ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے لیکن وہاں ٹیکسوں کے ذریعے بہتر آمدنی والے لوگوں سے اتنا وصول کیا جاتا ہے کہ اس سے عوام کی بنیادی ضرورتوں (صحت، تعلیم وغیرہ) کو پورا کیا جاتا ہے۔


عام تاثر کے الٹ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے پچھلے چالیس سالوں میں بہت ترقی کی ہے اور بہت سی نئی دولت پیدا ہوئی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکسوں کے غلط نظام کی وجہ سے نئی دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن نہیں ہو سکی۔ اب بھی ہو سکتا ہے کہ نئی حکومت تھوڑی سی اکھاڑ پچھاڑ سے معاشی ترقی کی رفتار کو تیز تر کر لے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوں گی:امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں ترقی کی رفتار تیز تر ہوئی ہے لیکن غلط ٹیکسوں کے نظام کی وجہ سے عوام میں معاشی بد حالی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں اس امر کی آگہی ہونا چاہئے کہ اب ہم ستر کی دہائی سے پہلے والے زرعی ملک کے باسی نہیں ہیں جس میں دیہات خود کفیل تھے اور جدید سہولتیں شہروں کی چند سڑکوں تک محدود ہوتی تھیں۔ اب دولت کا منبع زراعت نہیں بلکہ دوسرے شعبے ہیں لہٰذا ٹیکسوں کے اس نظام کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو کہ پرانے زمانے میں رائج تھے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین